محمداحمد
لائبریرین
غزل
توڑ دی اُس نے وہ زنجیر ہی دلداری کی
اور تشہیر کرو اپنی گرفتاری کی
ہم تو صحرا ہوئے جاتے تھے کہ اس نے آکر
شہر آباد کیا، نہرِ صبا جاری کی
ہم بھی کیا شے ہیں طبیعت ملی سیارہ شکار
اور تقدیر ملی آہوئے تاتاری کی
اتنا سادہ ہے مرا مایہء خوبی کہ مجھے
کبھی عادت نہ رہی آئینہ برداری کی
مرے گم گشتہ غزالوں کا پتہ پوچھتا ہے
فکر رکھتا ہے مسیحا مری بیماری کی
اس کے لہجے میں کوئی چیز تو شامل تھی کہ آج
دل پہ اس حرفِ عنایت نے گراں باری کی
عرفان صدیقی