غزل ۔ جز رشتۂ خلوص، یہ رشتہ کچھ اور تھا ۔ محمد احمد

محمداحمد

لائبریرین
غزل

جز رشتۂ خلوص یہ رشتہ کچھ اور تھا
تم میرے اور کچھ، میں تمھارا کچھ اور تھا

جو خواب تم نے مجھ کو سنایا، تھا اور کچھ
تعبیر کہہ رہی ہے کہ سپنا کچھ اور تھا

ہمراہیوں کو جشن منانے سےتھی غرض
منزل ہنوز دور تھی، رستہ کچھ اور تھا

اُمید و بیم، عِشرت و عُسرت کے درمیاں
اک کشمکش کچھ اور تھی، کچھ تھا، کچھ اور تھا

ہم بھی تھے یوں تو محوِ تماشائے دہر پر
دل میں کھٹک سی تھی کہ تماشا کچھ اور تھا

جو بات تم نے جیسی سنی ٹھیک ہے وہی
میں کیا کہوں کہ یار یہ قصّہ کچھ اور تھا

احمدؔ غزل کی اپنی روش اپنے طَور ہیں
میں نے کہا کچھ اور ہے، سوچا کچھ اور تھا

محمد احمدؔ

 

محمداحمد

لائبریرین

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے احمد، ذرا ’غرض‘ کے وزن پر غور کر لیں، شاید اسے ’ر‘ پر جزم باندھا گیا ہے، درست غَرَض ہے،
 

مغزل

محفلین
احمد صاحب، رسید حاضر ہے ، ۔ میری جانب سے بھی مبارکباد ، گر قبول افتد زہے عزو شرف
 

مغزل

محفلین
احمد صاحب،
’’ رسید ‘‘ تہذیبی معاملہ ہے ، اسلاف کے نقوش پر چلتے ہوئے کسی بھی شے کی ’’موصولی ‘‘ پر ’’ رسید ‘‘ دی جاتی رہی ہے ، اور میں اسی پر کاربند ہوں۔ بہت سے احباب شاید اسے یوں سمجھتے ہیں کہ ’’رسید ‘‘ کے بعد میرا کچھ کہنا یا لکھنا شرط ہے ایسا ہوتا ہے تو میں مراسلے میں ’’ درج ‘‘ کردیا کرتا ہوں۔ اسلاف کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے روایات کو زندہ کرنا ’’ تہذیب ‘‘ کے استمرار کی علامت ہے ، ۔ امید ہے آپ کو ناگوار گزرا بھی تو صرفِ نظر کیجے گا، والسلام ( آپ کا خیرخواہ )
 
Top