محسن نقوی غزل ۔ روٹھا تو شہر خواب کو غارت بھی کر گیا۔ محسن نقوی

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
روٹھا تو شہر خواب کو غارت بھی کر گیا
پھر مسکرا کے تازہ شرارت بھی کر گیا

شاید اسے عزیز تھیں آنکھیں میری بہت
وہ میرے نام اپنی بصارت بھی کر گیا

منھ زور آندھیوں کی ہتھیلی پہ اک چراغ
پیدا میرے لہو میں حرارت بھی کر گیا

بوسیدہ بادبان کا ٹکڑا ہوا کے ساتھ
طوفاں میں کشتیوں کی سفارش بھی کر گیا

دل کا نگر اجاڑنے والا ہنر شناس
تعمیر حوصلوں کی عمارت بھی کر گیا

سب اہل شہر جس پہ اٹھاتے تھی انگلیاں
وہ شہر بھر کو وجہ زیارت بھی کر گیا

محسن یہ دل کہ اس بچھڑتا نہ تھا کبھی
آج اس کو بھولنے کی جسارت بھی کر گیا​
 

ایم اے راجا

محفلین
بہت خوب غزل ہے، باقی املا کی اغلاط کرنا خرم کی پرانی عادت ہے، یہ نہیں کہ اسے اردو نہیں آتی بلکہ اسے ہر بات کی جلدی ہوتی ہے، جیسے ہم سے بچھڑ کر باہر جانے کی بھی جلدی تھی، لیکن حیرت کے جس کام کی جلدی کرنی چاہئیے اسکو کرنے میں دیر کر رہے ہیں:)

شاید مقطع میں غلطی ہے اور ایک جگہ شاید سفارت کی جگہ سفارش لگا دیا ہے قافیہ میں۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
میرے خیال میں درست غزل ایسی ہونا چاہیے۔ باقی واللہ عالم بالصواب

رُوٹھا تو شہرِ خواب کو غارت بھی کر گیا
پھر مسکرا کے تازہ شرارت بھی کر گیا

شاید اُسے عزیز تھیں آنکھیں مری بہت
وہ میرے نام اپنی بصارت بھی کر گیا

مُنہ زور آندھیوں کی ہتھیلی پہ اِک چراغ
پیدا مرے لہو میں حرارت بھی کر گیا

بوسیدہ بادبان کا ٹکڑا ہوا کے ساتھ
طوفاں میں کشتیوں کی سفارت بھی کر گیا

دِل کا نگر اُجاڑنے والا ہنر شناس!
تعمیر حوصلوں کی عمارت بھی کر گیا

سب اہلِ شہر جس پہ اُٹھاتے تھے اُنگلیاں
وہ شہر بھر کو وجہِ زیارت بھی کر گیا!

محسن یہ دِل کہ اُس سے بچھڑتا نہ تھا کبھی
آج اُس کو بھولنے کی جسارت بھی کر گیا
 
Top