غزل ۔ زخم کا اندِمال ہوتے ہوئے ۔ محمد احمد

محمداحمد

لائبریرین
واہ کیا خوب صورت غزل ہے، ہر شعر زبان زد عام ہونے کی پیشگوئی کرنے کو دل چاہ رہا ہے۔:):):)
دل چاہتا ہے پہلے پہر اسے پڑھتے رہیں::)
زخم کا اندِمال ہوتے ہوئے
میں نے دیکھا کمال ہوتے ہوئے
پھر دوسرے پہر اسے پڑھتے رہیں::)
ہجر کی دھوپ کیوں نہیں ڈھلتی
جشنِ شامِ وصال ہوتے ہوئے
پھر تیسرے پہر اسے پڑھتے رہیں::)
دے گئی مستقل خلش دل کو
آرزو پائمال ہوتے ہوئے
پھر چوتھے پہر اسے پڑھتے رہیں::)
لوگ جیتے ہیں جینا چاہتے ہیں
زندگانی وبال ہوتے ہوئے
پھر پانچویں پہر اسے پڑھتے رہیں::)
کس قدر اختلاف کرتا ہے
وہ مرا ہم خیال ہوتے ہوئے
پھر چھٹے پہر اسے پڑھتے رہیں::)
پئے الزام آ رُکیں مجھ پر
ساری آنکھیں سوال ہوتے ہوئے
پھر ساتویں پہر اسے پڑھتے رہیں::)
آج بھی لوگ عشق کرتے ہیں
سامنے کی مثال ہوتے ہوئے
پھر آٹھویں پہر اسے پڑھتے رہیں::)
خود سے ہنس کر نہ مل سکے احمدؔ
خوش سخن، خوش خصال ہوتے ہوئے
غرض آٹھوں پہر اس غزل کو پڑھتے رہیں تب بھی دل نہیں بھرے گا۔:):):)


اُسامہ بھائی۔۔۔۔!

بہت شکریہ ایسی اچھی داد کا شکریہ ۔۔۔! :)

خوش رہیے۔
 

من

محفلین
غزل

زخم کا اندِمال ہوتے ہوئے
میں نے دیکھا کمال ہوتے ہوئے


ہجر کی دھوپ کیوں نہیں ڈھلتی
جشنِ شامِ وصال ہوتے ہوئے


دے گئی مستقل خلش دل کو
آرزو پائمال ہوتے ہوئے


لوگ جیتے ہیں جینا چاہتے ہیں
زندگانی وبال ہوتے ہوئے


کس قدر اختلاف کرتا ہے
وہ مرا ہم خیال ہوتے ہوئے


پئے الزام آ رُکیں مجھ پر
ساری آنکھیں سوال ہوتے ہوئے


آج بھی لوگ عشق کرتے ہیں
سامنے کی مثال ہوتے ہوئے


خود سے ہنس کر نہ مل سکے احمدؔ
خوش سخن، خوش خصال ہوتے ہوئے


محمد احمدؔ
بہت خوب
 

محمداحمد

لائبریرین
ایک اور خوبصورت غزل۔ بہت خوب!
دعاؤں بھری داد۔
ماشاء اللہ!
خوبصورت خیال ہیں۔

خوب ہے شاعری ۔۔ آخری شعر زبردست ہے ۔۔

احمد بھائی ! کمال غزل ہے!! بہت خوب!!! مزا آگیا پڑھ کر ۔ اللہ کرے زورِ بیاں اور زیادہ!


بہت شکریہ !

تمام احباب کی جانب سے ملنے والی حوصلہ افزائی کے لئے ممنون و متشکٗر ہوں۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
لوگ جیتے ہیں جینا چاہتے ہیں
زندگانی وبال ہوتے ہوئے

کیا خوبصورت بات ہے !!!! سادہ مگر بہت گہری !

شاد و آباد رہیں احمد بھائی !!! آج آپ کی پرانی شاعری دیکھ رہا ہوں ۔ قندِ مکرر !!!
 
Top