محمداحمد
لائبریرین
غزل
سارے وعدے ، وعید ہو گئے ہیں
آہ ! محرومِ دید ہو گئے ہیں
زندگی کے کئی حسیں پہلو
نذرِ ذہنِ جدید ہو گئے ہیں
طعن و تشنیع کب سے ہیں معمول
کچھ رویّے شدید ہو گئے ہیں
مضمحل تھے ، مگر تجھے مل کر
اور بھی کچھ مزید ہو گئے ہیں
حُسن آراستہ، نہتّے ہم
ہونا کیا تھا شہید ہوگئے ہیں
ہم نے پڑھ لکھ کے نوکری کر لی
سر تا سر زر خرید ہو گئے ہیں
مجھ پہ تنقیدی جائزہ ، اُن کا
گویا انورسدید ہو گئے ہیں
کل زمانے میں جو یزید ہوئے
آج وہ با یزید ہو گئے ہیں
زندگی تو ذرا نہیں بدلی
ہم ہی کچھ خوش اُمید ہو گئے ہیں
محمد احمدؔ