لیاقت علی عاصم غزل ۔ سلگ رہی ہے نظر شام کے دھندلکے میں ۔ لیاقت علی عاصم

محمداحمد

لائبریرین
غزل

سلگ رہی ہے نظر شام کے دھندلکے میں
کوئی تو آئے اِدھر شام کے دھندلکے میں

گزرنے والوں کو حسرت سے دیکھنے والا
یہ میں ہوں یا کہ شجر شام کے دھندلکے میں

ستارے ٹوٹ کے دامن میں آ نہیں سکتے
کوئی گمان نہ کر شام کے دھندلکے میں

تلاش تھی مجھے دنیا کی دھوپ میں جس کی
ملا وہ سایہ مگر شام کے دھندلکے میں

ترے خیال میں ڈوبا تو میں نے کیا دیکھا
افق افق ہے سحر شام کے دھندلکے میں

کوئی چراغ بکف آرہا ہے میری طرف
یہ خواب ہے کہ خبر شام کے دھندلکے میں


لیاقت علی عاصم

 

محمد وارث

لائبریرین
بہت خوبصورت غزل ہے، لا جواب!

ایک ایک شعر کمال ہے، میں سوچ رہا تھا کہ کوئی شعر پسند کروں لیکن معذور ہوں کہ ہر شعر ہی ایک نگینہ ہے، پھر بھی اس شعر سے دامن تر ہو رہا ہے!

گزرنے والوں کو حسرت سے دیکھنے والا
یہ میں ہوں یا کہ شجر شام کے دھندلکے میں


 

نوید صادق

محفلین
گزرنے والوں کو حسرت سے دیکھنے والا
یہ میں ہوں یا کہ شجر شام کے دھندلکے میں

کوئی چراغ بکف آرہا ہے میری طرف
یہ خواب ہے کہ خبر شام کے دھندلکے میں

سبحان اللہ۔ بہت خوب!!!
 

فرحت کیانی

لائبریرین
گزرنے والوں کو حسرت سے دیکھنے والا
یہ میں ہوں یا کہ شجر شام کے دھندلکے میں

واہ۔ بہت ہی خوب۔
بہت شکریہ احمد! :)
 

محمداحمد

لائبریرین
بہت خوبصورت غزل ہے، لا جواب!

ایک ایک شعر کمال ہے، میں سوچ رہا تھا کہ کوئی شعر پسند کروں لیکن معذور ہوں کہ ہر شعر ہی ایک نگینہ ہے، پھر بھی اس شعر سے دامن تر ہو رہا ہے!

گزرنے والوں کو حسرت سے دیکھنے والا
یہ میں ہوں یا کہ شجر شام کے دھندلکے میں



بہت شکریہ وارث بھائی!

انتخاب پر آپ کی نظرِ التفات کے لئے ممنون ہوں۔
 

فاتح

لائبریرین
سبحان اللہ! محمد احمد صاحب! آپ تو کمال پر کمال کیے جا رہے ہیں۔

گزرنے والوں کو حسرت سے دیکھنے والا
یہ میں ہوں یا کہ شجر شام کے دھندلکے میں

کوئی چراغ بکف آرہا ہے میری طرف
یہ خواب ہے کہ خبر شام کے دھندلکے میں​
 
Top