محمداحمد
لائبریرین
غزل
سلگ رہی ہے نظر شام کے دھندلکے میں
کوئی تو آئے اِدھر شام کے دھندلکے میں
گزرنے والوں کو حسرت سے دیکھنے والا
یہ میں ہوں یا کہ شجر شام کے دھندلکے میں
ستارے ٹوٹ کے دامن میں آ نہیں سکتے
کوئی گمان نہ کر شام کے دھندلکے میں
تلاش تھی مجھے دنیا کی دھوپ میں جس کی
ملا وہ سایہ مگر شام کے دھندلکے میں
ترے خیال میں ڈوبا تو میں نے کیا دیکھا
افق افق ہے سحر شام کے دھندلکے میں
کوئی چراغ بکف آرہا ہے میری طرف
یہ خواب ہے کہ خبر شام کے دھندلکے میں
لیاقت علی عاصم
سلگ رہی ہے نظر شام کے دھندلکے میں
کوئی تو آئے اِدھر شام کے دھندلکے میں
گزرنے والوں کو حسرت سے دیکھنے والا
یہ میں ہوں یا کہ شجر شام کے دھندلکے میں
ستارے ٹوٹ کے دامن میں آ نہیں سکتے
کوئی گمان نہ کر شام کے دھندلکے میں
تلاش تھی مجھے دنیا کی دھوپ میں جس کی
ملا وہ سایہ مگر شام کے دھندلکے میں
ترے خیال میں ڈوبا تو میں نے کیا دیکھا
افق افق ہے سحر شام کے دھندلکے میں
کوئی چراغ بکف آرہا ہے میری طرف
یہ خواب ہے کہ خبر شام کے دھندلکے میں
لیاقت علی عاصم