محمداحمد
لائبریرین
غزل
کوئی بھی شکل ہو یا نام، کوئی یاد نہ تھا
عجیب شام تھی، اُس شام کوئی یاد نہ تھا
جنہیں پلٹنے کی فرصت نہیں رہی وہ لوگ
گھروں سے نکلے تھے تو کام کوئی یاد نہ تھا
ستارہ ء سفر اپنے بچھڑنے والوں کو
پکارتا رہا گو نام کوئی یاد نہ تھا
تری گلی ہی نہیں تیرے شہر تک کو بھی
ہم ایسا صاحبِ آرام کوئی یاد نہ تھا
متاعِ عمر ہوئی خرچ اور بتاتے ہوئے
نہ وہ دریچہ نہ وہ بام کوئی یاد نہ تھا
جمال احسانی