جمال احسانی غزل ۔ کوئی بھی شکل ہو یا نام، کوئی یاد نہ تھا ۔ جمال احسانی

محمداحمد

لائبریرین
غزل
کوئی بھی شکل ہو یا نام، کوئی یاد نہ تھا​
عجیب شام تھی، اُس شام کوئی یاد نہ تھا​
جنہیں پلٹنے کی فرصت نہیں رہی وہ لوگ​
گھروں سے نکلے تھے تو کام کوئی یاد نہ تھا​
ستارہ ء سفر اپنے بچھڑنے والوں کو​
پکارتا رہا گو نام کوئی یاد نہ تھا​
تری گلی ہی نہیں تیرے شہر تک کو بھی​
ہم ایسا صاحبِ آرام کوئی یاد نہ تھا​
متاعِ عمر ہوئی خرچ اور بتاتے ہوئے​
نہ وہ دریچہ نہ وہ بام کوئی یاد نہ تھا​
جمال احسانی
 
Top