محمد عبدالرؤوف
لائبریرین
نظم بھی تو اس صورت بنے گی جب اس پورے کلام کا کوئی ایک مضمون ہو۔ یہاں پر تو ہر شعر ایک الگ مضمون پیش کر رہا ہے۔
کیا موجودہ شکل میں شاعری کی کوئی بھی صنف ہو سکتی ہے؟نظم بھی تو اس صورت بنے گی جب اس پورے کلام کا کوئی ایک مضمون ہو۔ یہاں پر تو ہر شعر ایک الگ مضمون پیش کر رہا ہے۔
یہ تو مجھے علم نہیں ہے۔ بہرحال کسی نظم یا غزل میں جہاں جہاں پر بھی ان مضامین کی گنجائش ہوتی جائے آپ انہی میں ڈالتے جائیے۔کیا موجودہ شکل میں شاعری کی کوئی بھی صنف ہو سکتی ہے؟
پہلے آپ نے جو مطلع کہا تھا اُس میں ایک گزرے ہوئے زمانے کو یاد کرنا تھا۔ اب اس نئے مطلع میں "سخت زمانے" یعنی موجودہ وقت کی بات ہو رہی ہے۔ اور موجودہ وقت کو یاد تو نہیں کیا جاتا ہے۔آہ بھرکے یاد کرنا کیا زمانے سخت کو
اپنی ہی ناکامیوں کا دوش کیا دیں بخت کو
بھائی صاحب! آپ کی رائے محترم لیکنپہلے آپ نے جو مطلع کہا تھا اُس میں ایک گزرے ہوئے زمانے کو یاد کرنا تھا۔ اب اس نئے مطلع میں "سخت زمانے" یعنی موجودہ وقت کی بات ہو رہی ہے۔ اور موجودہ وقت کو یاد تو نہیں کیا جاتا ہے۔
ایک مشورہ ہے ایسا کچھ کر کے دیکھیں۔
گرچہ میں ہوں جھیلتا دورِ نہایت سخت کو
اپنی تن آسانیوں کا دوش کیوں دوں بخت کو
آپ کے لفظ "ناکامیوں" کا تو بہرحال بخت پر الزام لگایا جا سکتا ہے کہ ایسا کچھ ملنا قسمت میں نہیں تھا۔ اور "اپنی ہی ناکامیوں" میں "ہی" جیسا بھرتی کا لفظ بھی نکل جائے گا۔
"تن آسانیوں" کا الزام بہرحال بخت پر نہیں لگایا جا سکتا کیونکہ یہ سستی تو سراسر اپنے ہی سبب ہو گی۔
قوافی پر تو شاید آپ متفق ہو گئے ہیں کہ غلط تھےعظیم صاحب شکریہ ! حال ہی میں مختلف شاعروں کے کلام کی اصلاح کے دوران قوافی کے حوالے سے جو بحث ہوئی ہے میرے خیال میں اس غزل کے قوافی ان اصولوں پر پورے اترتے ہیں جو وہاں بیان کیے گئے۔ اس لیے مزید وضاحت درکار ہے۔
حکم سے تنافر ختم ہو جائے گا اس لیے بہتر ہے۔
غنا کا ہے کردیں تو کیسا رہے گا؟
مزید وضاحت درکار ہے۔
جب پہلے مصرعے میں لے کر چلے آگیا تو اس کا مطلب ہے کہ شکاری جمع کے صیغہ میں استعمال ہوا ہے۔ تو پھر دوسرے مصرعہ میں اُس ظاہر ہے ہرن کے لیے استعمال ہواہے۔
وہ کی بجائے میں لگادیا جائے تو؟
محترم عظیم صاحب! آپ کی رائے کو جب اساتذہ اہمیت دیتے ہیں تو پھر میں بھلا کیسے ان کو اہمیت نہیں دوں گا۔ جو بات میری سمجھ میں آجاتی ہے میں فوری طور پر عمل کرتا ہوں۔ اوپر آپ نے جو بھی رائے دی میں نے قبول کی سوائے قوافی والے مسئلے کے۔ کیونکہ میں اصول جاننا چاہتا تھا تاکہ آئندہ ایسی غلطی نہ ہو۔ جب اصول کا پتہ چل گیا تو میں نے اپنے موقف سے رجوع کرنے میں دیر نہیں لگائی۔ میں خود کو طالب علم سمجھتا ہوں اور کبھی بھی اس مغالطے کا شکار نہیں ہوا کہ میں سکہ بند شاعر ہوں۔ ہاں کبھی کبھی بحث اس لیے ہو جاتی ہے کہ آپ جیسے علم والوں سے کچھ سیکھ سکوں۔ امید ہے آپ آئندہ بھی راہنمائی کرتے رہیں گے۔قوافی پر تو شاید آپ متفق ہو گئے ہیں کہ غلط تھے
غنا والے شعر میں لفظ 'سمجھایا' میرے خیال میں روانی کو متاثر کر رہا تھا، خیر، ظاہر ہے کہ یہ اشعار آپ نے نکال دئے ہیں تو ان پر بات کرنا شاید اب درست نہیں
آمد رفت کا استعمال (بغیر 'و' یعنی آمد و رفت ) مجھے ٹھیک نہیں لگا تھا، میرے نہ ہونے کے برابر مطالعے کی وجہ سے شاید میری نظر سے نہیں گزرا، بہر حال اس شعر کے ساتھ بھی شاید وہی سلوک کیا ہے آپ نے کہ غزل سے نکال دیا گیا ہے
پھر وہی بات معذرت کے ساتھ کہ ہرن والا شعر بھی غزل کا حصہ نہیں رہا یا ہے، مگر وضاحت کرتا چلوں کہ میری مراد یہ تھی کہ بہت صاف نہیں ہے کہ ہرن دیکھ رہا/رہی ہے دشت کو، معلوم تو واقعی پڑتا تھا جیسا آپ نے کہا لیکن بالکل صاف نہیں تھا
آخری شعر میں 'وہ'کی جگہ 'میں' یقیناً بہتر ہے
موضوع تو ہر شعر کا الگ الگ ہی لگتا ہے، نظم کس طرح بنے گی؟محترم و معظم اساتذہ کرام سے اصلاح کی درخواست کے ساتھ:
الف عین ، ظہیراحمدظہیر ، سید عاطف علی ، محمد احسن سمیع راحلؔ ، یاسر شاہ
اب یہ غزل تو رہی نہیں تو کیا اسےمعریٰ نظم کہا جاسکتا ہے؟
بہت شکریہ سر! یہ مشق ہی سہی۔اوپر والا پیغام خورشید کے مجھے ٹیگ کرنے والے مراسلے کے جواب میں تھا، اور اس وقت میں نے دیکھا نہین تھا کہ دوسرے صفحے پر قوافی بدل دئے ہیں۔
زمانے سخت اور رویے سخت دونوں غلط ہیں۔
جگر کے لخت پر بات ہو چکی
مکیں بد بخت بھی صحیح نہیں لگتا، مکینِ بد بخت، اضافت کے ساتھ لائیں
بخت کو دوش دینا بھی عجیب ترکیب لگ رہی ہے، دوش سنسکرت /ہندی ہے
"غنا کا سکون قلب سے ربط سمجھایا ہے" کی شعری صورت مضحکہ خیزہو گئی ہے
میرے خیال میں اس پر محنت کی مزید ضرورت نہیں، اسے مشق سمجھ لو
سر ظہیر صاحب اور سرراحیل صاحب کے اقوال کو دیکھتے ہوئے پہلے میرا خیال تھا کہ شاید درج بالا مطلع صحیح نہیں ہے۔ آج ناصر کاظمی صاحب کی مشہور غزل دوبارہ سنی جو میٹرک یا ایف اے کی اردو کے سلیبس میں بھی شامل تھی جس کا مطلع ہےحرف روی سے پہلے کاحرف اگر ساکن ہو تو اس کا قافیہ میں دہرایا جانا ضروری ہوتا ہے... سخت لخت بخت میں خ ساکن ہے اس لیے ہر قافیہ میں خت آنا ضروری ہے.
استاد محترم کے جس مراسلے کا آپ نے حوالہ دیا، وہاں زیر بحث غزل کے قوافی بیٹھی اور بُنتی تھے جہاں ی روی ہے اور اس سے ماقبل حروف متحرک ہیں. اگرچہ یہاں بھی افعال کے باب میں اصلا یہ اعتراض بنتا ہے کہ دونوں کے صیعہ امر ہم صوت نہیں، لیکن یہ دوسری بحث ہے. افعال کے بارے میں اصل اصول یہی ہے کہ ان کے صیغہ امر کو بھی ہم صوت ہونا چاہیے ... جیسے سُننا اور بُننا تو قافیہ ہو سکتے ہیں کیونکہ سن اور بن ہم صوت ہیں، لیکن سننا اور بیٹھا نہیں ہو سکتے ...