غزل (2 جون ، 2023)

ارشد رشید

محفلین
جہاں سے اب گزرنا چاہتے ہیں
کہ ہم جنت میں رہنا چاہتے ہیں
جناب شکیل صاحب - ایک بات سمجھنا چاہوں گا - آپ نے کسی کے اس شعر کا حوالہ دیا ہے
اس میں لفظ نا تو مصدریہ ہے لہٰذا یہ تو قافیے کا حصہ نہیں ہو ا بلکہ ردیف کا حصہ ہوا-
اب باقی بچے گزر اور رہ - تو یہ قافیے کیسے ہوئے ؟
 
جناب شکیل صاحب - ایک بات سمجھنا چاہوں گا - آپ نے کسی کے اس شعر کا حوالہ دیا ہے
اس میں لفظ نا تو مصدریہ ہے لہٰذا یہ تو قافیے کا حصہ نہیں ہو ا بلکہ ردیف کا حصہ ہوا-
اب باقی بچے گزر اور رہ - تو یہ قافیے کیسے ہوئے ؟
آپ اور محترم راحل صاحب نے غزل کے قافیوں یعنی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔گزرنا اور رہنا کو غلط قرار دیا ہے تو
آپ حضرات دُرست ہیں اور جیسا کہ راحل صاحب نے کہا
کہ عصرِ حاضر کے مشاہیرشعرانے بھی قافیوں کے سلسلے میں
خاصی ٹھوکریں کھائیں ہیں تومنصورخوشتر کی یہ غزل بھی جو میں
نے ریختہ سے کاپی پیسٹ کی تھی ، کسی ایسی ہی ٹھوکر کا شاخسانہ
ہوگی۔۔۔۔۔۔۔۔
 
میں تو مطلع ہی نہیں سمجھ سکا، پانی بھرنا محاورہ ہے کیا؟ بہر حال یہ روز مرہ کا کوئی محاورہ نہیں جس کا مطلب ہر کسی پر واضح ہو.۔
سر الف عین !یہ محاورہ ہے جس کے معنی ہیں غلامی یا اطاعت کرنا
فاجروں کا دم بھرنا چھوڑو
محض فاجر تقطیع ہوتا ہے، وں دونوں کا اسقاط گوارا نہیں۔( ں تو تقطیع میں نہیں آتا، لیکن و کا اسقاط ضرور نا گوار ہے)
یہ شعرحذف کرکے مطلع تبدیل کردیتے ہیں (اس شعرمیں قافیہ بھرنا کی تکرار بھی ہے)
جابر کا دم بھرنا چھوڑو
گھُٹ گھُٹ کر تم مرنا چھوڑو
یار حسد تُم کرنا چھوڑو ---- اس میں بھی یار بھرتی ہی لگتا ہے۔ اس کے بغیر باندھنے کی کوشش کرو
فی الحال اس شعر کو بھی حذف ہی سمجھیں۔ اس شعر میں بھی قافیہ کرنا کی تکرار ہے۔
اب غزل پانچ اشعار کی رہ گئی ہے۔
 
Top