۔ اب سوال میرا یہ ہے کہ اگر استعمال کی گئی زبان میرااپنا اردو ورژن ہےتو پھر یہ الفاظ اردو کی لغت میں کیا کررہے ہیں۔ یقین کریں میں اتنا عالم فاضل نہیں ہوں کہ عربی اور فارسی کی لغات مجھے از بر ہیں اور میں نادانستگی میں دوسری زبانوں کے الفاظ کو استعمال کر بیٹھتا ہوں۔معروف اور غیر معروف کی پہچان لغت میں تو نہیں ملتی۔تو پھر کون فیصلہ کرے گا کہ یہ لفظ معروف ہے یا غیر معروف۔ اردو کو تو لشکری زبان بھی کہتے ہیں یعنی مسلمان مختلف خطوں سے آکر برصغیر میں اکٹھے ہوئے تو ان کے باہمی بول چال سے یہ زبان وجود میں آئی۔ تو اس میں بہت زیادہ آمیزش فارسی، عربی، ترکی اور ہندی کی ہے۔ جب اردو لغت میں ایک لفظ موجود ہے اپنے معانی کے ساتھ تو اسے آپ اردو سے کیسے خارج کر سکتے ہیں۔ اگر ہو سکے تو کھل کر راہنمائی بھی فرمادیں۔
جناب خورشید صاحب - آپ میرا مطلب نہیں سمجھے - میں نے ڈکشن کہا تھا ڈکشنری نہیں - ڈکشن کا مطلب ہے اسلوبِ نگارش - یعنی الفاظ کا چناؤ اور انکا رچاؤ- اسے طرزِ بیاں بھی کہتے ہیں - انگریزی میں زیادہ وضاحت سے اسے ڈکشن اینڈ اسٹائل بھی کہا جاتا ہے - یہی ایک شاعر کو دوسرے سے ممتاز بناتا ہے - آپ خودی کو کر بلند اتنا سن کر یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ فراز کا شعر ہو سکتا ہے - کیوںَ؟
کیونکہ اقبال اور فراز کا ڈکشن اور اسٹائل الگ ہے -
آپ کی غزل میں الفاظ تو سارے ہی ڈکشنری سے آئے ہیں اور آنے بھی چاہیئں ، مگر جیسے آپ نے انہیں برتا ہے ویسے انہیں معروف طریقوں میں نہیں برتا جاتا - اس لیئے میں نے کہا کہ یہ آپ کا اپنا ڈکشن ہے -
میں مثالیں دیتا ہوں
محفوظ جہاں ملک کا دستور نہیں ہے
جمہور وہاں صاحبِ مقدور نہیں ہے
== صاحب مقدور آپ کی اپنی اصطلاح ہے اردو میں صاحب قدرت ہوتا ہے صاحبِ مقدور نہیں - تو یہ آپ کا اپنا ڈکشن ہے
حابس نے ہے محبس کی جو وسعت کو بڑھایا
حابس اردو میں عربی سے ابھی تک آیا ہی نہیں ہے تو یہ بھی تو آپ کا اپنا ڈکشن ہے
مرحوم سخن ور تھا محبت کے سخن کا
== محبت کا سخن ور اردو میں کوئ اصطلاح نہیں ہے - سخن ور اور معنوں میں استعمال ہوتا ہے لہذا یہ بھی آپ کا اپنا ڈکشن ہے
واعظ کو یقیں ہے کہ وہ مبرور نہیں ہے
== مبرور کے بارے میں الف عین صاحب لکھ ہی چکے ہیں - اردو میں اول تو یہ لفظ استعمال ہی نہیں ہوتا اور اگر کریں بھی تو ان معنوں میں استعمال نہیں ہوگا مگر آپ نے کیا ہے تو پھر یہ آپ کا اپنا ڈکشن ہوا نا-
اس قوم کا شیرازہ بکھر ہی تو چکا ہے
احمق ہیں وہ جو یہ کہیں منشور نہیں ہے
== یہ تو شعر ہی دو لخت ہے
خوشیوں بھری اک زندگی کو آگ لگا کر
کہتا ہے طبیعت کا وہ محرور نہیں ہے
== وہی بات کہ محرور یعنی حرارت والا عربی کا لفظ ہے جو اردو میں نہیں استعمال ہوتا عموما- سو یہ بھی تو آپ کا اپنا ڈکشن ہے
باقی اس کے بعد غزل میں جو دیگر زبان کے مسئلے ہیں ان پر میں نے بات ہی نہیں کی تھی -
اب آپ سوچیں وہ الفاظ جو اردو میں آئے بھی نہیں یا زیادہ تر استعمال بھی نہیں ہوتے اسکا اپنی طرف سے استعمال کرنا - انکے خود سے جملے بنا کر پیش کرنا - آپ کا ڈکشن نہیں ہے تو اور کیا ہے - میں اس غزل کے بارے میں اور کیا کہہ سکتا تھا سوائے اس کے کہ یہ خورشید صاحب کا اپنا اسلوب ہے اردو کا اس سے علاقہ نہیں -