غزل - (2024 - 10 - 04)

حضرت غالب اور جناب جون ایلیا سے نیاز مندی کے ساتھ
غزل پیش ِخدمت ہے۔محترم اساتذہ کرام سے اصلاح کی درخواست ہے:
الف عین ، ظہیراحمدظہیر ، سید عاطف علی ، محمد احسن سمیع راحلؔ ، یاسر شاہ

نہ رقیبوں سے بھی دغا کیجے
بےوفاؤں سے بھی وفا کیجے

یوں تو روشن ہے گھر چراغوں سے
تیرہ بختی ہو گر تو کیا کیجے

ہو جو شفاف شیشہِ دل تو
دل میں پھر جھانکتے رہا کیجے

راستے بھر گئے ہیں کانٹوں سے
ہر قدم سوچ کر رکھا کیجے

روشنی بھی چُبھے گی آنکھوں میں
تیرگی میں نہ یوں رہا کیجے

وقتِ رخصت قریب ہے ان کا
آپ ان کے لیے دعا کیجے

آپ ہیں رُو برُو حجابوں میں
یہ غضب تو نہ با خدا کیجے

دردِ فرقت ہے رک نہ پائے گا
جو بھی اس درد کی دوا کیجے
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
حضرت غالب اور جناب جون ایلیا سے نیاز مندی کے ساتھ
غزل پیش ِخدمت ہے۔محترم اساتذہ کرام سے اصلاح کی درخواست ہے:
الف عین ، ظہیراحمدظہیر ، سید عاطف علی ، محمد احسن سمیع راحلؔ ، یاسر شاہ

نہ رقیبوں سے بھی دغا کیجے
بےوفاؤں سے بھی وفا کیجے
درست
یوں تو روشن ہے گھر چراغوں سے
تیرہ بختی ہو گر تو کیا کیجے
درست
ہو جو شفاف شیشہِ دل تو
دل میں پھر جھانکتے رہا کیجے
'تو' اور 'پھر' کے دہرانے کی ضرورت؟
ہو جو شفاف دل کا آئینہ
اس میں بھی/بس جھانکتے رہا کیجے
یا اس قسم کی ترمیم بہتر ہو گی
راستے بھر گئے ہیں کانٹوں سے
ہر قدم سوچ کر رکھا کیجے
دو لختی ہے، "بھر گئے" کی وجہ سے۔ راستہ کانٹوں سے بھرا جیسا بیان ہونا چاہیے۔
روشنی بھی چُبھے گی آنکھوں میں
تیرگی میں نہ یوں رہا کیجے
درست
وقتِ رخصت قریب ہے ان کا
آپ ان کے لیے دعا کیجے
کس کی طرف اشارہ ہے؟ واضح نہیں
آپ ہیں رُو برُو حجابوں میں
یہ غضب تو نہ با خدا کیجے
قسم کے لئے بخدا ہی استعمال کیا جا سکتا ہے، با خدا مجھے عجیب لگتا ہے
دردِ فرقت ہے رک نہ پائے گا
جو بھی اس درد کی دوا کیجے
جو بھی؟ شاید "کچھ بھی" سے معنی خیز لگے
 
سر الف عین صاحب!توجہ فرمانے کا شکریہ۔ آپ کے ارشادات کے مطابق دوبارہ کوشش کی ہے۔ آپ سے نظرثانی کی درخواست ہے۔
ہو جو شفاف شیشہِ دل تو
دل میں پھر جھانکتے رہا کیجے

'تو' اور 'پھر' کے دہرانے کی ضرورت؟
ہو جو شفاف دل کا آئینہ
اس میں بھی/بس جھانکتے رہا کیجے
کر کے شفاف آئینہ دل کا
اس میں بس جھانکتے رہا کیجے
یا اس قسم کی ترمیم بہتر ہو گی
راستے بھر گئے ہیں کانٹوں سے

ہر قدم سوچ کر رکھا کیجے
دو لختی ہے، "بھر گئے" کی وجہ سے۔ راستہ کانٹوں سے بھرا جیسا بیان ہونا چاہیے۔
راہ کانٹوں بھری جنوں کی ہے
ہر قدم سوچ کر رکھا کیجے
وقتِ رخصت قریب ہے ان کا
آپ ان کے لیے دعا کیجے

کس کی طرف اشارہ ہے؟ واضح نہیں
عشق کا روگ ان کو لاحق ہے
آپ ان کے لیے دعا کیجے
آپ ہیں رُو برُو حجابوں میں
یہ غضب تو نہ با خدا کیجے

قسم کے لئے بخدا ہی استعمال کیا جا سکتا ہے، با خدا مجھے عجیب لگتا ہے
باخدا کا مطلب ریختہ لغت میں۔
دردِ فرقت ہے رک نہ پائے گا
جو بھی اس درد کی دوا کیجے

جو بھی؟ شاید "کچھ بھی" سے معنی خیز لگے
اسے مقطع بنادیاہے۔
دردِ فرقت ہے رک نہ پائے گا
کچھ بھی خورشید اب دوا کیجے
 

صریر

محفلین
راہ کانٹوں بھری جنوں کی ہے
ہر قدم سوچ کر رکھا کیجے
محاورہ تو درست ہو گیا، لیکن لفظ 'جنوں' سے معنی میں تضاد پیدا ہو رہا ہے۔ جنوں کی راہ میں 'سوچنے' سے کام؟

بہتر متبادل تو نہیں، لیکن ایسا کچھ،
'راہ یہ عشق کی ہے کانٹوں بھری '
 
آخری تدوین:

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
خورشید بھائی، میں اس قابل تو نہیں کہ آپ کی اصلاح کر سکوں لیکن چند مشورے ہیں اگر برے لگیں تو درگزر فرمائیے گا۔

کر کے شفاف آئینہ دل کا
اس میں بس جھانکتے رہا کیجے
"آئینہ" وزن میں نہیں آئے گا اسے "آئنہ" کر دیں
راہ کانٹوں بھری جنوں کی ہے
ہر قدم سوچ کر رکھا کیجے
خار ہی خار ہے جنوں کی راہ / رہِ الفت

عشق کا روگ ان کو لاحق ہے
آپ ان کے لیے دعا کیجے
پہلے مصرعے میں "ان" کے بجائے "جن" مناسب رہے گا۔

اور مزید یہ کہ مجھے مطلع کے دونوں مصرعوں میں "سے" کی بڑی ے کا گرنا عجیب لگ رہا ہے۔ خدا جانے صرف مجھے ہی ایسا محسوس ہو رہا ہے یا باقی احباب کو بھی۔
 

الف عین

لائبریرین
آئنہ دل کا... بہتر ہوگیا
جنوں کی راہ میں روفی کے مشورے کا سوچیں
عشق کا روگ والے شعر میں "جن" بہتر ہے جیسا روفی ے کہا ہے
دوسرا مصرع بھی اگر
ان کے حق میں( بھی کچھ/ذرا) دعا کیجے
یا اس قسم کی گرہ بہتر ہو گی
با خدا مجھے بہر حال عجیب لگتا ہے۔ ویسے قبول کیا جا سکتا ہے
 
محاورہ تو درست ہو گیا، لیکن لفظ 'جنوں' سے معنی میں تضاد پیدا ہو رہا ہے۔ جنوں کی راہ میں 'سوچنے' سے کام؟

بہتر متبادل تو نہیں، لیکن ایسا کچھ،
'راہ یہ عشق کی ہے کانٹوں بھری '
خورشید بھائی، میں اس قابل تو نہیں کہ آپ کی اصلاح کر سکوں لیکن چند مشورے ہیں اگر برے لگیں تو درگزر فرمائیے گا۔

کر کے شفاف آئینہ دل کا
اس میں بس جھانکتے رہا کیجے
"آئینہ" وزن میں نہیں آئے گا اسے "آئنہ" کر دیں
راہ کانٹوں بھری جنوں کی ہے
ہر قدم سوچ کر رکھا کیجے
خار ہی خار ہے جنوں کی راہ / رہِ الفت
عشق کا روگ ان کو لاحق ہے
آپ ان کے لیے دعا کیجے
پہلے مصرعے میں "ان" کے بجائے "جن" مناسب رہے گا۔
اور مزید یہ کہ مجھے مطلع کے دونوں مصرعوں میں "سے" کی بڑی ے کا گرنا عجیب لگ رہا ہے۔ خدا جانے صرف مجھے ہی ایسا محسوس ہو رہا ہے یا باقی احباب کو بھی۔
آئنہ دل کا... بہتر ہوگیا
جنوں کی راہ میں روفی کے مشورے کا سوچیں
عشق کا روگ والے شعر میں "جن" بہتر ہے جیسا روفی ے کہا ہے
دوسرا مصرع بھی اگر
ان کے حق میں( بھی کچھ/ذرا) دعا کیجے
یا اس قسم کی گرہ بہتر ہو گی
با خدا مجھے بہر حال عجیب لگتا ہے۔ ویسے قبول کیا جا سکتا ہے
جناب صریر صاحب، بھائی محمد عبدالرؤوف صاحب اور استادِ محترم الف عین صاحب!
شکریے کے ساتھ آپ سب کی تجاویز سے استفادہ کرتے ہوئے دوبارہ کوشش کی ہے:

کر کے شفاف آئنہ دل کا
اس میں بس جھانکتے رہا کیجے

پیار کا راستہ ہے کانٹوں بھرا -----یا----- عشق کا راستہ ہے کانٹوں بھرا
ہر قدم سوچ کر رکھا کیجے

عشق کا روگ جن کو لاحق ہے
مل کے ان کے لیے دعا کیجے -----یا -----ان کے حق میں سبھی دعا کیجے
 
Top