غزل - (2024 - 11 - 02 )

غزل پیش ِخدمت ہے۔محترم اساتذہ کرام سے اصلاح کی درخواست ہے-
الف عین ، ظہیراحمدظہیر ، سید عاطف علی ، محمد احسن سمیع راحلؔ ، یاسر شاہ

پریشان ہوں وہ خفا ہو نہ جائے
مری زندگی بے مزا ہو نہ جائے

اُسی کے ہے دم سے مرے دل کی دھڑکن
یہ ڈر ہے کہ دھڑکن جدا ہو نہ جائے

سیہ فام آنکھوں کی مے کے نشے میں
کہیں آج کوئی خطا ہو نہ جائے

وفادار ہوتا نہیں جس کی بابت
یہ ڈر ہو کہ وہ بے وفا ہو نہ جائے

کرو چارہ فوراً مرے دردِ دل کا
کہیں درد حد سے سوا ہو نہ جائے

سفر تیرا جاری رہے گا یہ سالک
کہ جب تک تُو خود میں فنا ہو نہ جائے

گدا بن کے خورشید تب تک کھڑا ہے
ترا لطف جب تک عطا ہو نہ جائے
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
غزل پیش ِخدمت ہے۔محترم اساتذہ کرام سے اصلاح کی درخواست ہے-
الف عین ، ظہیراحمدظہیر ، سید عاطف علی ، محمد احسن سمیع راحلؔ ، یاسر شاہ

پریشان ہوں وہ خفا ہو نہ جائے
مری زندگی بے مزا ہو نہ جائے
دتست
اُسی کے ہے دم سے مرے دل کی دھڑکن
یہ ڈر ہے کہ دھڑکن جدا ہو نہ جائے
دھڑکن لفظ کا دہرایا جانا اچھا نہیں ۔ شعر واضح بھی نہیں
سیہ فام آنکھوں کی مے کے نشے میں
کہیں آج کوئی خطا ہو نہ جائے
فاعل؟ کس کی آنکھوں کا نشہ؟ کس سے خطا، واضح نہیں
وفادار ہوتا نہیں جس کی بابت
یہ ڈر ہو کہ وہ بے وفا ہو نہ جائے
یہ بھی واضح نہیں
کرو چارہ فوراً مرے دردِ دل کا
کہیں درد حد سے سوا ہو نہ جائے
ٹھیک اگرچہ درد لفظ دہرایا گیا ہے
سفر تیرا جاری رہے گا یہ سالک
کہ جب تک تُو خود میں فنا ہو نہ جائے
سالک سے خطاب ہے؟ "یہ سالک" سے یہ مطلب نہیں نکلتا، کسی طرح اے سالک لاؤ تو واضح ہو
دوسرا مصرع،
کہ تو خود میں جب تک.... بہتر ہو گا
کہ تو کو محض تُ بنا دینا درست نہیں
گدا بن کے خورشید تب تک کھڑا ہے
ترا لطف جب تک عطا ہو نہ جائے
کھڑا ہے یا کھڑا رہے گا؟ کسی طرح مستقبل کے صیغے میں لاؤ
 
اُسی کے ہے دم سے مرے دل کی دھڑکن
یہ ڈر ہے کہ دھڑکن جدا ہو نہ جائے

دھڑکن لفظ کا دہرایا جانا اچھا نہیں ۔ شعر واضح بھی نہیں
میں گل ہوں وہ خوشبُو مگر ڈر ہے مجھ کو
کہ گُل سے یہ خوشبُو جُدا ہو نہ جائے
سیہ فام آنکھوں کی مے کے نشے میں
کہیں آج کوئی خطا ہو نہ جائے

فاعل؟ کس کی آنکھوں کا نشہ؟ کس سے خطا، واضح نہیں
تری کالی آنکھوں کی مے کے نشے میں
کہیں آج مجھ سے خطا ہو نہ جائے
وفادار ہوتا نہیں جس کی بابت
یہ ڈر ہو کہ وہ بے وفا ہو نہ جائے
یہ بھی واضح نہیں
وفادار ہمدم نہیں جس کی بابت
یہ ڈر ہو کہ وہ بے وفا ہو نہ جائے
کرو چارہ فوراً مرے دردِ دل کا
کہیں درد حد سے سوا ہو نہ جائے

ٹھیک اگرچہ درد لفظ دہرایا گیا ہے
کرو چارہ فوراً مرے سوزِ دل کا
کہیں درد حد سے سوا ہو نہ جائے
سفر تیرا جاری رہے گا یہ سالک
کہ جب تک تُو خود میں فنا ہو نہ جائے

سالک سے خطاب ہے؟ "یہ سالک" سے یہ مطلب نہیں نکلتا، کسی طرح اے سالک لاؤ تو واضح ہو
دوسرا مصرع،
کہ تو خود میں جب تک.... بہتر ہو گا
کہ تو کو محض تُ بنا دینا درست نہیں
رہے گا سدا ایک سالک سفر میں
وہ خود میں ہی جب تک فنا ہو نہ جائے
یا
سدا ایک سالک ہے رہتا سفر میں
وہ خود میں ہی جب تک فنا ہو نہ جائے
یا
ہمیشہ ہی رہتا ہے سالک سفر میں
کہ وہ خود میں جب تک فنا ہو نہ جائے

گدا بن کے خورشید تب تک کھڑا ہے
ترا لطف جب تک عطا ہو نہ جائے

کھڑا ہے یا کھڑا رہے گا؟ کسی طرح مستقبل کے صیغے میں لاؤ
کھڑا ہی رہوں گا ترے در پہ تب تک
ترا لطف جب تک عطا ہو نہ جائے
استادِمحترم جناب الف عین صاحب!
آپ کی ہدایات کی روشنی میں دوبارہ کوشش کی ہے ! آپ سے نظرثانی کی درخواست ہے۔
 
Top