غزل (2024 - 11 - 15)

غزل پیش ِخدمت ہے۔محترم اساتذہ کرام سے اصلاح کی درخواست ہے-
الف عین ، ظہیراحمدظہیر ، سید عاطف علی ، محمد احسن سمیع راحلؔ ، یاسر شاہ

بُو ئے گُل کہتی ہے جب، ہیں کھل گئے تازہ گلاب
دل نظارے کو مچلتا ہے مرا، خانہ خراب

ہے بہارِ نو، گلوں سے ہے چمن مہکا ہوا
جب مدھر سی ہے ہوا چلتی تو بجتا ہے رباب

اس طرح اُس پر رہی غالب سدا فکرِ معاش
وہ رہی غافل کہ اُس پر تھا کبھی آیا شباب

ہے تلوّن اس طرح اس کی طبیعت میں بھرا
کَل قریبی تھے جو اس کے آج ہیں زیرِ عتاب

وہ تو ہوتی ہیں اثاثہ، ہوں اگر یادیں حسین
تلخ ہو ماضی تو ہوتا حافظہ ہے پھر عذاب

یہ دوائے دل ہے اے واعظ نشہ تو یہ نہیں
دردِ کو وہ ہے بھلانے کے لیے پیتا شراب

ہے عدم دنیا، صداقت ہے مگر اس کا وجود
محوِ حیرت ہوں کہ یہ سب ہے حقیقت یا سراب
 

الف عین

لائبریرین
اکثر اشعار میں " ہے ہوا چلتی" اور "ہے پیتا" جیسے الفاظ روانی میں بہت مزاحم ہیں، ایک ایک شعر کی اصلاح کی بجائے بہتر ہے کہ مکمل غزل کو تم خود ہی ترمیم کر کے دوبارہ نظر ثانی کے لئے دو
 
اکثر اشعار میں " ہے ہوا چلتی" اور "ہے پیتا" جیسے الفاظ روانی میں بہت مزاحم ہیں، ایک ایک شعر کی اصلاح کی بجائے بہتر ہے کہ مکمل غزل کو تم خود ہی ترمیم کر کے دوبارہ نظر ثانی کے لئے دو
محترم استاد الف عین صاحب ترمیم کے بعد غزل نظرثانی کے لیے حاضر ہے:

بُو ئے گُل کہتی ہے جب، ہیں کھل گئے تازہ گلاب
دل نظارے کو مچلتا ہے مرا، خانہ خراب

موسمِ گل ہے، گلوں سے ہے چمن مہکا ہوا
ہے مدھر سی جب ہوا چلتی تو بجتا ہے رباب
یا
جب ہوا چلتی مدھر سی ہے تو بجتا ہے رباب

اس طرح اُس پر رہی غالب سدا فکرِ معاش
وہ رہی غافل کہ اُس پر تھا کبھی آیا شباب

وہ تو ہوتی ہیں اثاثہ، ہوں اگر یادیں حسین
تلخ ہو ماضی تو ہوتا حافظہ ہے پھر عذاب

اس قدر اس کی طبیعت میں تلوّن ہے بھرا
کَل قریبی تھے جو اس کے آج ہیں زیرِ عتاب

یہ دوائے دل ہے اے واعظ نشہ تو یہ نہیں
دردِ اپنا ہی بھلانے کو وہ پیتا ہے شراب

یہ عدم دنیا، صداقت ہے مگر اس کا وجود
محوِ حیرت ہوں کہ یہ سب ہے حقیقت یا سراب
 

الف عین

لائبریرین
ابھی بھی بیانیہ میں ویسی ہی عدم روانی ہے، بہر حال
محترم استاد الف عین صاحب ترمیم کے بعد غزل نظرثانی کے لیے حاضر ہے:

بُو ئے گُل کہتی ہے جب، ہیں کھل گئے تازہ گلاب
دل نظارے کو مچلتا ہے مرا، خانہ خراب
دلِ خانہ خراب کو پھولوں کے نظارے کے لئے مچلنا غلط نہیں لگتا؟
ہیں کھل گئے... کی جگہ "پھر کھل گئے" یا "اب کھل گئے/اٹھے" بہتر ہو گا
موسمِ گل ہے، گلوں سے ہے چمن مہکا ہوا
ہے مدھر سی جب ہوا چلتی تو بجتا ہے رباب
یا
جب ہوا چلتی مدھر سی ہے تو بجتا ہے رباب
مدھر بمعنی میٹھی ہوا؟
موسم گل ہے، مہک اٹھا ہےساراگلستاں
یوں ہوا چلتی ہے، لگتا ہے کہ بجتا ہو رباب

اس طرح اُس پر رہی غالب سدا فکرِ معاش
وہ رہی غافل کہ اُس پر تھا کبھی آیا شباب
وہ رہی غافل کہ آیا تھا کبھی اس پر شباب

وہ تو ہوتی ہیں اثاثہ، ہوں اگر یادیں حسین
تلخ ہو ماضی تو ہوتا حافظہ ہے پھر عذاب
ایک مشورہ
تلخ ہو ماضی تو ہو گا حافظہ جیسے عذاب

اس قدر اس کی طبیعت میں تلوّن ہے بھرا
کَل قریبی تھے جو اس کے آج ہیں زیرِ عتاب
ٹھیک ہی ہے

یہ دوائے دل ہے اے واعظ نشہ تو یہ نہیں
دردِ اپنا ہی بھلانے کو وہ پیتا ہے شراب
یہ دوائے دل ہے واعظ، کوئی نشّہ تو نہیں
وہ پیتا ہے... کیوں؟ میں پیتا ہوں... کیوں نہیں؟

یہ عدم دنیا، صداقت ہے مگر اس کا وجود
محوِ حیرت ہوں کہ یہ سب ہے حقیقت یا سراب
پہلا مصرع بے معنی لگتا ہے جس سے شعر گنجلک ہو گیا ہے
صداقت ہے مراد حق ہے؟ تو حق ہی استعمال کیا جائے
 
ابھی بھی بیانیہ میں ویسی ہی عدم روانی ہے، بہر حال
سر الف عین صاحب! اصلاح کے لیے شکریہ! شاید یہ عدم روانی اس قافیے کی وجہ سے ہے۔
بُو ئے گُل کہتی ہے جب، ہیں کھل گئے تازہ گلاب
دل نظارے کو مچلتا ہے مرا، خانہ خراب

دلِ خانہ خراب کو پھولوں کے نظارے کے لئے مچلنا غلط نہیں لگتا؟
ہیں کھل گئے... کی جگہ "پھر کھل گئے" یا "اب کھل گئے/اٹھے" بہتر ہو گا
سر! یہ عام پھول نہیں ہیں۔ اس لیے دلِ خانہ خراب کا ذکر ہے۔ (ایک بھنورا صفت انسان کا دلِ خانہ خراب اور تازہ کھلتے پھول)
بُو ئے گُل کہتی ہے جب، پھر کھل گئے تازہ گلاب
دل نظارے کو مچلتا ہے مرا، خانہ خراب
موسمِ گل ہے، گلوں سے ہے چمن مہکا ہوا
ہے مدھر سی جب ہوا چلتی تو بجتا ہے رباب
یا
جب ہوا چلتی مدھر سی ہے تو بجتا ہے رباب

مدھر بمعنی میٹھی ہوا؟
موسم گل ہے، مہک اٹھا ہےساراگلستاں
یوں ہوا چلتی ہے، لگتا ہے کہ بجتا ہو رباب
آپ کی تجویز بہتر ہے
موسمِ گل ہے، مہک اٹھا ہے سارا گلستاں
یوں ہوا چلتی ہے، لگتا ہے کہ بجتا ہو رباب
اس طرح اُس پر رہی غالب سدا فکرِ معاش
وہ رہی غافل کہ اُس پر تھا کبھی آیا شباب

وہ رہی غافل کہ آیا تھا کبھی اس پر شباب
آپ کی تجویز بہتر ہے سر!
اس طرح اُس پر رہی غالب سدا فکرِ معاش
وہ رہی غافل کہ آیا تھا کبھی اُس پر شباب
وہ تو ہوتی ہیں اثاثہ، ہوں اگر یادیں حسین
تلخ ہو ماضی تو ہوتا حافظہ ہے پھر عذاب

ایک مشورہ
تلخ ہو ماضی تو ہو گا حافظہ جیسے عذاب
یہ بھی آپ کا مشورہ ہی بہتر ہے
وہ تو ہوتی ہیں اثاثہ، ہوں اگر یادیں حسین
تلخ ہو ماضی تو ہوگا حافظہ جیسے عذاب
یہ دوائے دل ہے اے واعظ نشہ تو یہ نہیں
دردِ اپنا ہی بھلانے کو وہ پیتا ہے شراب

یہ دوائے دل ہے واعظ، کوئی نشّہ تو نہیں
وہ پیتا ہے... کیوں؟ میں پیتا ہوں... کیوں نہیں؟
آپ کی تجویز ٹھیک ہے سر!
یہ دوائے دل ہے واعظ کوئی نشّہ تو نہیں
دردِ اپنا ہی بھلانے کو میں پیتا ہوں شراب
یہ عدم دنیا، صداقت ہے مگر اس کا وجود
محوِ حیرت ہوں کہ یہ سب ہے حقیقت یا سراب

پہلا مصرع بے معنی لگتا ہے جس سے شعر گنجلک ہو گیا ہے
صداقت ہے مراد حق ہے؟ تو حق ہی استعمال کیا جائے
یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ
یہ دنیا نابود ہونے والی ہے (اس کی کوئی حیثیت نہیں) مگر اس کا وجود ایک سچائی ہے۔
محوِ حیرت ہوں کہ یہ سب (دنیاوی حقیقتیں ) حقیقت ہیں یا سراب۔
دوسرا مصرعہ شاید اس طرح کہا جائے تو مفہوم بہتر ہو جائے گا:
یہ عدم دنیا، صداقت ہے مگر اس کا وجود
میں ہوں الجھن میں کہ دنیا ہے حقیقت یا سراب
 
یہ عدم دنیا، صداقت ہے مگر اس کا وجود
میں ہوں الجھن میں کہ دنیا ہے حقیقت یا سراب

عدم کا وجود بھی عجیب ہے۔ دوسرا مصرع البتہ بہتر ہو گیا ہے
سر الف عین صاحب!یہی تو الجھن ہے۔
دنیا عدم سے وجود میں آئی اور پھر عدم ہو جائے گی۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ دنیا کو عدم سمجھ کر دینا میں رہو یعنی دنیا پر زیادہ توجہ نہ دو۔
جبکہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ دنیا کا وجود ایک حقیقت ہے اور اس حقیقت کو مدنظر رکھ کر زندگی گذارو۔
یہی الجھن ہے۔
 
Top