غزل (2025 - 01 - 19)

جناب نصرت فتح علی خان کے گائے ایک پرانے کلام ( جسے کچھ عرصہ پہلے پاکستان کے ایک ڈرامے دھانی میں اوایس ٹی کے طور پر بھی گایا گیا ) سے متاثر ہوکر لکھی ایک غزل پیش ِخدمت ہے۔محترم اساتذہ کرام سے اصلاح کی درخواست ہے-
الف عین ، ظہیراحمدظہیر ، سید عاطف علی ، محمد احسن سمیع راحلؔ ، یاسر شاہ

میرے جذبوں میں ہلچل مچی ہے اُن کا دل کیوں مچلتا نہیں ہے؟
کیسے سمجھاؤں میں اپنے دل کو عشق پر زور چلتا نہیں ہے

آتشِ عشق سے اب تو جل کر راکھ ہونے لگا ہے مرا دل
اس تپش سے نجانے ترا کیوں موم سا دل پگھلتا نہیں ہے

بے حجابی میں اُن کو مرا وہ روبرو اک نظر دیکھ لینا
نقش آنکھوں میں ایسے وہ منظر ہو گیا ہے بدلتا نہیں ہے

یاد کرکے بہلتا رہا ہے جس کو پردیس میں بھی مرا دل
وہ جہاں میں نہیں تو مرا دل اب سنبھالے سنبھلتا نہیں ہے

اب ترا کوئی خورشید اپنا اس جہاں میں نہیں کوئی شاید
اس لیے اس شکستہ لحد پر اب دیا کوئی جلتا نہیں ہے
 
بظاہر تو کوئی سقم نظر نہیں آتا
بے حجابی میں اُن کو مرا وہ روبرو اک نظر دیکھ لینا
نقش آنکھوں میں ایسے وہ منظر ہو گیا ہے بدلتا نہیں ہے

نقش آنکھوں ....منظر ہوگیا ہے ذرا فاصلے پر واقع ہو رہے ہیں، اگر الفاظ بدل کر قریب لا سکیں تو بہتر ہے
استادِ محترم الف عین صاحب! توجہ فرمانے کا شکریہ!
بے حجابی میں اُن کو مرا وہ روبرو اک نظر دیکھ لینا
نقش آنکھوں میں منظر وہ ایسے ہو گیا ہے بدلتا نہیں ہے

یا
اس طرح نقش آنکھوں میں منظر ہو گیا ہے بدلتا نہیں ہے
 
Top