غزل

گما بجا ہے مگر اعتبار مت کرنا
چمکتی ریت کو پانی شمار مت کرنا

کوئی جو اچھا ملے مجھ سے اس کے ہو جانا
تجھے قسم ہے دکھاوے کا پیار مت کرنا

تمام جھیل کے پانی کو پی گیا سورج
پرندے پیاسے ہیں ان کا شکار مت کرنا

میں روشنی کی بلندی کو چھونے نکلا ہوں
دیا سنبھالے مرا انتظار مت کرنا

حسین لوگ بڑے بے وفا نکلتے ہیں
حسین لوگوں پہ تم اعتبار مت کرنا

ملیں گے مطلبی بھی زندگی کی راہوں
ہر شخص پہ تم جانثار مت کرنا

مزاج لہروں کا خورشید آج ٹھیک نہیں
کسی بھی حال میں دریا کو پار مت کرنا
 
بہت دنوں کے بعد زبان و بیان کے اعتبار سے خوب صورت ، اُسلوب اور طرزِ اداکے لحاظ سے بہترین،فکر وخیال کے حوالے سے مبنی بر حق اور روانی وسلاست میں بہتے پانی کی طرح،ایک لاجواب غزل پڑھنے کو ملی :​
مؔیر دریا ہے سنے شعر زبانی اُس کی
اللہ اللہ رے طبیعت کی روانی اُسکی​
مطلع ایسا حسیں، دلکش ، پُراثراورزوردار ہے کہ طبیعت کھنچ کر پوری غزل پڑھنے پر مائل ہوتی ہے اور مزاج پر ذرابار کہیں محسوس نہیں ہوتا:​
گماں بجا ہے مگر اعتبار مت کرنا
چمکتی ریت کو پانی شُمار مت کرنا​
واہ!قوافی بالکل سامنے کے یعنی اجنبیت،نامانوسیت اور غرابت سے دُور ،محدود ہونے کے الزام سے مبراو مستثنی ٰ وپاک نیز مترنم اورنغمہ ریز :​
کوئی جو اچھا ملے مجھ سے اُس کے ہوجانا
تجھے قسم ہے دکھاوے کا پیار مت کرنا​
مطلعے کے فوراً بعد ایک خوبصورت شعر دامن ِ دل کو اپنی طرف کھینچتا ہے حریفانہ نہیں بڑے والہانہ انداز میں مگر یہاں دوسرے مصرعے میں لفظ ’’تجھے ‘‘ کی بجائے ’’تمھیں ‘‘ہونا چاہیے وگرنہ اِس خوبصورت شعر کو بیکار میں شتر گربگی کی تہمت قبول کرنا پڑے گی ۔​
تمام جھیل ۔کے ۔پانی ۔کو پی گیا سُورج
پرندے پیاسے ہیں اُن کا شکار مت کرنا​
واہ !خوبصورت نکتہ ، اِس شعر کو پڑھ کر توجہ اُن شکاریوں کی طرف جاتی ہے ، جن کے سبب زمین کا امن وامان متاثر ہوا مگر اِن کی سیری نہیں ہوتی اور اب اُن کی شکاری نظریں فضا کے سکھ چین کے درپے ہیں۔​
میں روشنی کی بلندی کو چھونے نکلا ہوں
دیا ۔ سنبھالے ۔ مرا ۔انتظار ،مت کرنا​
بیشک آج جبکہ ہر اچھی چیز کا قحط ہے کوئی تو ہو کہ چراغ ِ طُور جلائے بہت اندھیرا ہے۔​
حسین لوگ بڑے بے وفا نکلتے ہیں
حسین لوگوں پہ ۔تم اعتبار مت کرنا​
یہ ایک عام سی بات معلوم ہوئی جو فلمی قوالیوں میں ٹیپ کے شعر سے لگا کھارہی ہے مگر اِس شعر میں بھی غزل کی فضا میں سماجانے کی بھرپور صلاحیت بہرحال ہے۔​
ملیں گے مطلبی ،بھی زندگی کی راہوں
ہر ایک شخص پہ تم جاں نثار مت کرنا
یہ شعر غزل کے بیانیوں کو آگے بڑھانے میں تو ممد ہے ، ہے مگر عام سا ۔غزل کے ماحول اور فضا کوبہرحال اِس سے ہندُستانیوں کی زبان میں کہیں تو کوئی دقت نہیں ہے۔
مزاج لہروں کا خورشؔید آج ٹھیک نہیں
کسی بھی ۔حال میں۔ دریا کو پار مت کرنا​
مقطع اپنی غزل کے مطلعےکی طرح نہایت خوبصورت ، حاصلِ کلام اور جانِ غزل ہے بہت پسند آیا ،بہت سی داد حاضر ہے اور اِس ضمن میں وہی روایتی دعا کہ اللہ کرے ۔۔۔۔۔۔۔۔زیادہ!​
ہے دعا یاد مگر حرفِ دعا یاد نہیں
(شکیل احمد خان، کراچی)​
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
یہ اور ایک مزید غزل سَمت میں شامل کرنے کے لئے کاپی کر رہا ہوں۔ مزید کلام ذاتی مکالمے میں ارسال کریں
 
گما بجا ہے مگر اعتبار مت کرنا
چمکتی ریت کو پانی شمار مت کرنا

کوئی جو اچھا ملے مجھ سے اس کے ہو جانا
تجھے قسم ہے دکھاوے کا پیار مت کرنا

تمام جھیل کے پانی کو پی گیا سورج
پرندے پیاسے ہیں ان کا شکار مت کرنا

میں روشنی کی بلندی کو چھونے نکلا ہوں
دیا سنبھالے مرا انتظار مت کرنا

حسین لوگ بڑے بے وفا نکلتے ہیں
حسین لوگوں پہ تم اعتبار مت کرنا

ملیں گے مطلبی بھی زندگی کی راہوں
ہر شخص پہ تم جانثار مت کرنا

مزاج لہروں کا خورشید آج ٹھیک نہیں
کسی بھی حال میں دریا کو پار مت کرنا
بہت اعلیٰ غزل ، داد قبول کیجیئے
 
اندازِ بیاں میں روانی اور خیالات خوبصورت ہیں۔ بہت خُوب۔
ماشااللہ محفل میں میری گنتی کے مطابق شاعری کےتین سورج چمک رہے ہیں:)
ان میں سے دو کا شمار سکہ بند شاعروں میں ہوتا ہے جبکہ زیرِدستخطی (undersigned) اصلاحِ سخن کے مرحلے میں ایک طالب علم ہے۔ اور اسی آزادی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اساتذہ کرام سے ایک سوال :
مطلع ہے
گماں بجا ہے مگر اعتبار مت کرنا
چمکتی ریت کو پانی شُمار مت کرنا
دوسرا مصرع کہ رہا ہے کہ چمکتی ریت کو پانی مت سمجھنا۔سوال یہ ہے کہ کیا شمار کرنا صرف ان چیزوں کے لیے استعمال نہیں ہوتا جن کو گنا جاسکے؟
 
Top