غزل

سرِ بازار نہ دستار اچھالی جائے۔
جو سنبھل سکتی ہے اب بات سنبھالی جائے۔
٭ ٭ ٭
در و دیوار کا کیا دوش تھا، کیا چھت کی خطا۔
ان پہ بنیاد کی تہمت نہیں ڈالی جائے۔
٭ ٭ ٭
بادباں ڈھونڈھ کے، سمتوں کا تعین کیا جائے۔
ناخداؤں سے اب امید اٹھا لی جائے۔
٭ ٭ ٭
گھر کی تنگی ہوئی، اک وسعتِ صحرا نہ ہوئی۔
لوٹ جانے کی کوئی راہ نکالی جائے۔
٭ ٭ ٭
دل میں جو لہر اٹھے، اس سے کنارا کیا جائے۔
نیند تعبیر کے خوابوں سے بچا لی جائے۔
٭ ٭ ٭
دیکھنا کوئی ہدف تیر سے ہٹ کر نہ رہے۔
دیکھنا اس کا کوئی وار نہ خالی جائے۔
٭ ٭ ٭
ایسے رکتا ہے، کہو ایک کماں سی تنی ہے۔
ایسے چلتا ہے، کہو پھولوں کی ڈالی جائے۔
٭ ٭ ٭
نیا موسم ہے، ہوا بادۂِ سِن خوردہ سی۔
شعرِحافظ سے کوئی فال نکالی جائے۔
٭ ٭ ٭
ابر ہے، آب ہے، بادہ ہے، ہوا ہے، ہم ہیں۔
سب اشارے ہیں کوئی پیاس بجھا لی جائے۔
 

نایاب

لائبریرین
واہہہہہہہہ
بہت خوب
ایسے رکتا ہے، کہو ایک کماں سی تنی ہے۔
ایسے چلتا ہے، کہو پھولوں کی ڈالی جائے۔

بہت سی دعاؤں بھری داد
 

طارق شاہ

محفلین
سرِ بازار نہ دستار اچھالی جائے۔
جو سنبھل سکتی ہے اب بات سنبھالی جائے۔
٭ ٭ ٭
در و دیوار کا کیا دوش تھا، کیا چھت کی خطا۔
ان پہ بنیاد کی تہمت نہیں ڈالی جائے۔
٭ ٭ ٭
بادباں ڈھونڈھ کے، سمتوں کا تعین کیا جائے۔
ناخداؤں سے اب امید اٹھا لی جائے۔
٭ ٭ ٭
گھر کی تنگی ہوئی، اک وسعتِ صحرا نہ ہوئی۔
لوٹ جانے کی کوئی راہ نکالی جائے۔
٭ ٭ ٭
دل میں جو لہر اٹھے، اس سے کنارا کیا جائے۔
نیند تعبیر کے خوابوں سے بچا لی جائے۔
٭ ٭ ٭
دیکھنا کوئی ہدف تیر سے ہٹ کر نہ رہے۔
دیکھنا اس کا کوئی وار نہ خالی جائے۔
٭ ٭ ٭
ایسے رکتا ہے، کہو ایک کماں سی تنی ہے۔
ایسے چلتا ہے، کہو پھولوں کی ڈالی جائے۔
٭ ٭ ٭
نیا موسم ہے، ہوا بادۂِ سِن خوردہ سی۔
شعرِحافظ سے کوئی فال نکالی جائے۔
٭ ٭ ٭
ابر ہے، آب ہے، بادہ ہے، ہوا ہے، ہم ہیں۔
سب اشارے ہیں کوئی پیاس بجھا لی جائے۔
گیلانی صاحب !
زمین زرخیز چنی ہے اور خیالات بھی اچھے ہیں ، داد قبول کیجئے
بستگی بہترکرکے اشعار سے ابہام دُور اور تفہیم واضح کئے جاسکتے ہیں
مثال کے طور یہ کہ
مطلع میں :

سرِ بازار نہ دستار اچھالی جائے
اِس سے یہ مفہوم ملتا ہے کہ سرِ بازار پر اعتراض ہے گھر یا کسی اور جگہ نہیں !
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بادباں ڈھونڈھ کے، سمتوں کا تعین کیا جائے۔
ناخداؤں سے اب امید اٹھا لی جائے
بادباں کھُول کے ۔۔۔۔۔۔۔ بہتر رہے گا
کہ کھُلے پانی میں کہاں سے ڈھونڈیں گے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھر کی تنگی ہوئی، اک وسعتِ صحرا نہ ہوئی
لوٹ جانے کی کوئی راہ نکالی جائے

لوٹ جانا تنگی سے خلاصی نہیں دیتا ۔ یعنی کوئی مطلب اخذ نہیں ہوا
دوسرے مصرع کچھ یوں کرنے سے معنی خیز ہوگا کہ:

ڈھونڈ کر اور کوئی راہ نکالی جائے
میں کہتا تو کچھ یوں یا اس طرح کا کہ :

زندگی تنگ ہے گھر ہی کی طرح صحرا میں
ڈھونڈ کر اور کوئی راہ نکالی جائے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دل میں جو لہر اٹھے، اس سے کنارا کیا جائے۔
نیند تعبیر کے خوابوں سے بچا لی جائے

شعر تفہیم اور معنی میں گنجلک ہے ، یا مجھ پر نہیں کُھلا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیکھنا کوئی ہدف تیر سے ہٹ کر نہ رہے
دیکھنا اس کا کوئی وار نہ خالی جائے
ہدف کون اور کیا ہیں، اور کس کو تنبیہ کی جارہی ہے ؟
کیا ہدف عوام ہیں اور آپ کے ذمے یہ کام ہے کے انھیں سامنے لائے یا گھیرے رکھنا
اور کسی اور نے ان پر تیر برسانے ہیں
پہلا مصرع کچھ یوں یا اس طرح کا کردینے سے صحیح اور واضح مفہوم دے گا کہ:

بن کے تُو اُس کا ہدف سامنے ڈٹ کر رہنا
دیکھنا اُس کا کوئی وار نہ خالی جائے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسے رکتا ہے، کہو ایک کماں سی تنی ہے۔
ایسے چلتا ہے، کہو پھولوں کی ڈالی جائے

کماں سی ، یا کماں کی تشبیہ خمیدہ کمر یا بوڑھوں کے لئے دی جاتی ہے یا استعمال ہوتی ہے
جب کےمحبوب کےلئے استادہ ، استوارشے کا تصورہے ،کچھ اسطرح سوچیں:

جب رُکے ، سرو بھی کیا چیز مقابل اُس کے
جب چلے وہ تو لگے پھولوں کی ڈالی جائے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیا موسم ہے، ہوا بادۂِ سِن خوردہ سی۔
شعرِحافظ سے کوئی فال نکالی جائے

مفہوم واضح نہیں مجھ پر
جو بھی سوچیں ، موسمِ گل ہے ۔۔۔۔۔ نیا موسم سے صحیح ہوگا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابر ہے، آب ہے، بادہ ہے، ہوا ہے، ہم ہیں
سب اشارے ہیں کوئی پیاس بجھا لی جائے

ابر ہے اب ہے، متضاد ہے
سب اشارے میں" ہم ہیں" بھی شامل ہوگیا ہے ۔ اسے نکالنا پڑے گا

کیوں نہ کچھ پیاس بجھالی جائے

داد ایک بار پھر سے
بہت خوش رہیں اور لکھتے رہیں :):)
 
آخری تدوین:

ابن رضا

لائبریرین
گیلانی صاحبہ !
زمین زرخیز اور خیالات اچھے ہیں ، داد قبول کیجئے
بستگی بہترکرکے اشعار سے ابہام دُور اور تفہیم واضح کئے جاسکتے ہیں
بہت خوش رہیں اور لکھتی رہیں :):)
باقی تو ساری باتوں پر اتفاق کے علاوہ کلام ممکن نہیں طارق بھائی ، مگر یہ کہ لکھتی رہیں کو اگر لکھتے رہیں کر دیں تو ہی عافیت گردانی جائے گی ورنہ بشارت گیلانی صاحب آپ کی اچھی خبر بھی لے سکتے ہیں کہ ماشااللہ اب تلک تو انہوں نے ایک دنیا دیکھ رکھی ہوگی۔:thinking::heehee::idontknow:
 
آخری تدوین:
بہت بہت شکریہ اتنی گراں قدر اور مفید تنقید کے لئے۔ غزل پر ان آراء کی روشنی میں نظرِ ثانی کی جائے گی۔
میں ایک مرد ہوں، اگرچہ نام بلا شبہ مشکوک سا ہے۔
سلامت رہیں۔
 
طارق جی، ابر ہے، آب ہے ۔۔۔ والے شعر کے بارے میں ذرا تصور کیجے ۔۔۔ نہر کا کنارا ہو، بادل چھائے ہوئے ہوں، ہلکی ہلکی ہوا چل رہی ہو، بادہ بھی ہو اور آپ کسی خاص ہستی سے کہہ سکتے ہوں کہ ۔۔۔ دیکھو یہ سماں ہے اور ہم دونوں یہاں ہیں ۔۔۔ تو پھر یقیناً یہ تمام قدرت کی نشانیاں ہیں کہ پیاس کے دن ختم ہوئے۔
 

طارق شاہ

محفلین
باقی تو ساری باتوں پر اتفاق کے علاوہ کلام ممکن نہیں طارق بھائی ، مگر یہ کہ لکھتی رہیں کو اگر لکھتے رہیں کر دیں تو ہی عافیت گردانی جائے گی ورنہ بشارت گیلانی صاحب آپ کی اچھی خبر بھی لے سکتے ہیں کہ ماشااللہ اب تلک تو انہوں نے ایک دنیا دیکھ رکھی ہوگی۔:thinking::heehee::idontknow:
تشکّر ابن رضا بھائی
کچھ غور نہیں کیا، یا یوں کہیں کبھی پروفائل کھول کرہی نہیں دیکھاکسی کا
ویسے آپ کی تصویر کی وجہ سے یہ غلطی ممکن ہی نہیں
گیلانی صاحب نے بھی نشاندھی کردی اور ناراض بھی نہیں ہوئے میرے انھیں صاحبہ لکھنے پر
آپ نےتو سوچ رکھا تھا کہ ڈانت پڑے گی :)
 
Top