بشارت گیلانی
محفلین
سرِ بازار نہ دستار اچھالی جائے۔
جو سنبھل سکتی ہے اب بات سنبھالی جائے۔
٭ ٭ ٭
در و دیوار کا کیا دوش تھا، کیا چھت کی خطا۔
ان پہ بنیاد کی تہمت نہیں ڈالی جائے۔
٭ ٭ ٭
بادباں ڈھونڈھ کے، سمتوں کا تعین کیا جائے۔
ناخداؤں سے اب امید اٹھا لی جائے۔
٭ ٭ ٭
گھر کی تنگی ہوئی، اک وسعتِ صحرا نہ ہوئی۔
لوٹ جانے کی کوئی راہ نکالی جائے۔
٭ ٭ ٭
دل میں جو لہر اٹھے، اس سے کنارا کیا جائے۔
نیند تعبیر کے خوابوں سے بچا لی جائے۔
٭ ٭ ٭
دیکھنا کوئی ہدف تیر سے ہٹ کر نہ رہے۔
دیکھنا اس کا کوئی وار نہ خالی جائے۔
٭ ٭ ٭
ایسے رکتا ہے، کہو ایک کماں سی تنی ہے۔
ایسے چلتا ہے، کہو پھولوں کی ڈالی جائے۔
٭ ٭ ٭
نیا موسم ہے، ہوا بادۂِ سِن خوردہ سی۔
شعرِحافظ سے کوئی فال نکالی جائے۔
٭ ٭ ٭
ابر ہے، آب ہے، بادہ ہے، ہوا ہے، ہم ہیں۔
سب اشارے ہیں کوئی پیاس بجھا لی جائے۔
جو سنبھل سکتی ہے اب بات سنبھالی جائے۔
٭ ٭ ٭
در و دیوار کا کیا دوش تھا، کیا چھت کی خطا۔
ان پہ بنیاد کی تہمت نہیں ڈالی جائے۔
٭ ٭ ٭
بادباں ڈھونڈھ کے، سمتوں کا تعین کیا جائے۔
ناخداؤں سے اب امید اٹھا لی جائے۔
٭ ٭ ٭
گھر کی تنگی ہوئی، اک وسعتِ صحرا نہ ہوئی۔
لوٹ جانے کی کوئی راہ نکالی جائے۔
٭ ٭ ٭
دل میں جو لہر اٹھے، اس سے کنارا کیا جائے۔
نیند تعبیر کے خوابوں سے بچا لی جائے۔
٭ ٭ ٭
دیکھنا کوئی ہدف تیر سے ہٹ کر نہ رہے۔
دیکھنا اس کا کوئی وار نہ خالی جائے۔
٭ ٭ ٭
ایسے رکتا ہے، کہو ایک کماں سی تنی ہے۔
ایسے چلتا ہے، کہو پھولوں کی ڈالی جائے۔
٭ ٭ ٭
نیا موسم ہے، ہوا بادۂِ سِن خوردہ سی۔
شعرِحافظ سے کوئی فال نکالی جائے۔
٭ ٭ ٭
ابر ہے، آب ہے، بادہ ہے، ہوا ہے، ہم ہیں۔
سب اشارے ہیں کوئی پیاس بجھا لی جائے۔