ذیشان خالق
محفلین
یہ میری پہلی غزل ہے آپ سب سے اصلاح کی درخواست ہے
کبھی جو تھے ہمدم ہمارے وہ پیارے کہاں گئے
مسیحا تھے میرے درد کے وہ سہارے کہاں گٰئے
عمر دراز سے ھیں پڑے اسی دشت جنون میں
اترے جہاں سے تھے یہاں وہ کنارے کہاں گٰئے
نہٰیں جانتے اب کیسے ہو گا زندگی کا سفر رواں
رہنما تھے بنے جو میرے وہ ستارے کہاں گئے
کبھی جھکتی ہوئی نظریں کبھی اٹھتی ہوئی پلکیں
تری مست نظروں کے جاناں وہ اشارے کہاں گئے
حال دل اپنا سنا کر محبت سے جو روکتے تھے
قیس، رانجھا اور مجنوں وہ بیچارے کہا ں گئے
ہاں رنگینیوں سے شانی نہیں دنیااب بھی خالی
مگر اس میں محبت کے وہ اشارے کہاں گئے
کبھی جو تھے ہمدم ہمارے وہ پیارے کہاں گئے
مسیحا تھے میرے درد کے وہ سہارے کہاں گٰئے
عمر دراز سے ھیں پڑے اسی دشت جنون میں
اترے جہاں سے تھے یہاں وہ کنارے کہاں گٰئے
نہٰیں جانتے اب کیسے ہو گا زندگی کا سفر رواں
رہنما تھے بنے جو میرے وہ ستارے کہاں گئے
کبھی جھکتی ہوئی نظریں کبھی اٹھتی ہوئی پلکیں
تری مست نظروں کے جاناں وہ اشارے کہاں گئے
حال دل اپنا سنا کر محبت سے جو روکتے تھے
قیس، رانجھا اور مجنوں وہ بیچارے کہا ں گئے
ہاں رنگینیوں سے شانی نہیں دنیااب بھی خالی
مگر اس میں محبت کے وہ اشارے کہاں گئے