ذیشان خالق

محفلین
یہ میری پہلی غزل ہے آپ سب سے اصلاح کی درخواست ہے
photo.php

کبھی جو تھے ہمدم ہمارے وہ پیارے کہاں گئے
مسیحا تھے میرے درد کے وہ سہارے کہاں گٰئے
عمر دراز سے ھیں پڑے اسی دشت جنون میں
اترے جہاں سے تھے یہاں وہ کنارے کہاں گٰئے
نہٰیں جانتے اب کیسے ہو گا زندگی کا سفر رواں
رہنما تھے بنے جو میرے وہ ستارے کہاں گئے
کبھی جھکتی ہوئی نظریں کبھی اٹھتی ہوئی پلکیں
تری مست نظروں کے جاناں وہ اشارے کہاں گئے
حال دل اپنا سنا کر محبت سے جو روکتے تھے
قیس، رانجھا اور مجنوں وہ بیچارے کہا ں گئے
ہاں رنگینیوں سے شانی نہیں دنیااب بھی خالی
مگر اس میں محبت کے وہ اشارے کہاں گئے
 

نایاب

لائبریرین
واہہہہہہہہہہہ
عمر دراز سے ھیں پڑے اسی دشت جنون میں
اترے جہاں سے تھے یہاں وہ کنارے کہاں گٰئے

بہت خوب بہت دعائیں
 
جنابِ ذیشان خالق ۔
آپ کو دو مشورے دوں گا۔
اول: شاعری ضرور کیجئے گا مگر تعلیم پہلے! رسمی یا غیر رسمی جو بھی ہو جیسی بھی ہو، وہ آپ بہتر جانتے ہیں۔
دوم: شعر میں آہنگ بہت بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ آپ ناصر کاظمی اور احمد فراز کی غزلیں پڑھئے، اور بار بار پڑھئے۔ پڑھتے میں آپ کی آواز اتنی ضرور ہو کہ آپ خود اس کو سن سکیں۔ پڑھنے میں کوشش کیجئے کہ ایک غزل کا ہر مصرع ایک سے اتار چڑھاؤ کے ساتھ ادا ہو۔ جب آپ یہ سمجھ لیں کہ آپ اپنے الفاظ میں یا شعر کہنے کی کوشش میں اس اتار چڑھاؤ کو قائم رکھ لیں گے، تب شعر کہئے اور جی بھر کر کہئے۔
آہنگ، لحن، سُر، لے، وزن، وغیرہ ۔۔۔ ایک ہی چیز ہے۔

جاری ہے ۔۔۔
 
مثال کے طور پر ہم یہ چند شعر پڑھتے ہیں۔

میں نے روکا بھی نہیں اور وہ ٹھہرا بھی نہیں
حادثہ کیا تھا جسے دل نے بھلایا بھی نہیں
جانے والوں کو کہاں روک سکا ہے کوئی
تم چلے ہو تو کوئی روکنے والا بھی نہیں
وہ تو صدیوں کا سفر کر کے یہاں پہنچا تھا
تو نے جس شخص کو منہ پھیر کے دیکھا بھی نہیں

ان کو پڑھنے میں ہم ایسا کریں گے کہ لکھے ہوئے الفاظ میں الف، واو، یے، اور چھوٹی ’’ے‘‘ کو ہر جگہ نہیں بلکہ جہاں ضروری محسوس ہو اس قدر تھوڑا ٹائم دیں کہ وہ الف واو یے کی بجائے زبر پیش اور زیر لگے تاکہ شعر کے اندر الفاظ کی ادائیگی میں ایک جیسا تموج پیدا ہو سکے۔ یاد رہے کہ نون غنہ صوتی لحاظ سے کچھ بھی نہیں سوائے اس کے کہ آواز ناک سے نکلتی ہے۔ ہم جس انداز میں ان شعروں کو پڑھیں گے اس کی فرض کیجئے املا بنائی جائے تو چلئے اس کو ’’املائے اصوات‘‘ کا نام دے لیجئے۔ وہ کچھ ایسی ہو گی:

مے نِ رو کا بھِ ن ہی او ر وُ ٹھہ را بھِ ن ہی

حا د ثہ کا تھ ج سے دل نِ بھ لا یا بھِ ن ہی

الفاظ ٹوٹ کر اجزا میں تقسیم ہو گئے۔ اس کو تقطیع کا نام دے لیتے ہیں۔

اب ان کا تجزیہ کیجئے: مے (دو حرف جو آپس میں جڑ کر ایک آواز بناتے ہیں)، نِ (اکیلا حرف)، رو (دو جڑے ہوئےحرف)، کا (دو جڑے ہوئے حرف)، بھِ ن (دو الگ الگ حرف)، ہی (دو جڑے ہوئے حرف)، او (دو جڑے ہوئے حرف)، ر وُ (دو الگ الگ حرف)، ٹھہ (دو جڑے ہوئے حرف)، را (دو جڑے ہوئے حرف)، بھِ ن (دو الگ الگ حرف)، ہی (دو الگ الگ حرف)۔ بالکل آخر میں ہی سے پہلے جو دو الگ الگ حرف ہیں ان کے مقابل دو جڑے ہوئے حرف آ سکتے ہیں۔

مزید تفصیلات کسی اور وقت پر اٹھائے رکھتے ہیں۔
 
ارکان کیا ہیں، بحر کا نام کیا ہے وغیرہ وہ بہت اہم ہے مگر یہاں تک ہم صرف ادائیگی کی بات کر رہے ہیں۔ دیے گئے سب مصرعوں کو اسی طرح ادا کیجئے۔ یہ سب اس آہنگ یا وزن پر پورے اترتے ہیں۔

اس طرح غزلوں کی غزلیں پڑھتے چلے جائیے۔ آپ کے اندر ’’وزن‘‘ کا ادراک پختہ ہو جائے گا۔ پھر آپ شعر کہیں تو الفاظ اور ان کی ترتیب ایسی رکھئے کہ وہ اپنی اکائی کے اندر کسی نہ کسی ایسی، اس سے ملتی جلتی، یا مختلف ترتیب میں ہوں مگر آپس میں ان کی یہ ترتیب مکمل طور پر ایک سی ہو۔
 
مثال کے طور پر ہم یہ چند شعر پڑھتے ہیں۔
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
ان کو پڑھنے میں ہم ایسا کریں گے کہ لکھے ہوئے الفاظ میں الف، واو، یے، اور چھوٹی ’’ے‘‘ کو ہر جگہ نہیں بلکہ جہاں ضروری محسوس ہو اس قدر تھوڑا ٹائم دیں کہ وہ الف واو یے کی بجائے زبر پیش اور زیر لگے تاکہ شعر کے اندر الفاظ کی ادائیگی میں ایک جیسا تموج پیدا ہو سکے۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
مزید تفصیلات کسی اور وقت پر اٹھائے رکھتے ہیں۔

ہر جگہ نہیں بلکہ جہاں ضروری محسوس ہو
یہ وہ ’’احساس‘‘ ہے جو بندے کے اندر یا تو موجود ہوتا ہے یا نہیں ہوتا۔ اور اسی کی بنا پر کہا جاتا ہے کہ:
شاعر یا تو ہوتا ہے یا نہیں ہوتا
اور یہ کہ

آپ کسی غیرشاعر کو شاعر بنا نہیں سکتے، ایک کمزور شاعر کو اچھا شاعر بنا سکتے ہیں۔
 

ذیشان خالق

محفلین
جی بہت بہتر میں عمل کروں گا اپ کی ہدایات راور بہت پیاری بات کہی ھے اپ نے کہ
یہ وہ ’’احساس‘‘ ہے جو بندے کے اندر یا تو موجود ہوتا ہے یا نہیں ہوتا۔ اور اسی کی بنا پر کہا جاتا ہے کہ:
شاعر یا تو ہوتا ہے یا نہیں ہوتا
اور یہ کہ
آپ کسی غیرشاعر کو شاعر بنا نہیں سکتے، ایک کمزور شاعر کو اچھا شاعر بنا سکتے ہیں۔
 
Top