غزل

فرحان عباس

محفلین
السلام علیکم.

الف عین ابن رضا

ﻭﻗﺖ ﭘﺮ ﺟﻮ ﺍﭨﮭﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ
ﺗﺎﺯﮦ ﺩﻥ ﺑﮭﺮ ﮨﻮﺍ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ
ﺟﺒﺮ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺧﺪﺍ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ
ﺧﻮﺩ ﺳﮯ ﺟﻮ ﺧﻮﺩ ﺟﻔﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ
ﮈﮬﻮﻧﮉﺗﮯ ﭘﮭﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﺳﺐ ﺗﻌﻮﯾﺰ
ﮐﻮﺋﯽ ﺻﺪﻗﮧ ﺍﺩﺍ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ
ﺍﮎ ﮐﺴﮏ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺭﮦ ﮨﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ
ﻣﯿﮟ ﺍﮔﺮﭼﮧ ﮔﻠﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ
ﮐﯿﺎ ﻗﯿﺎﻣﺖ ﮨﮯ ﯾﮧ ، ﮐﮧ ﺗﯿﺮﮮ ﺧﻼﻑ
ﺩﻝ ﺑﮭﯽ ﻣﯿﺮﯼ ﺳﻨﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ
ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﻢ ﺑﮭﯽ ﻋﺸﻖ ﮐﺮ ﺑﯿﮭﭩﮯ
ﮐﻮﻥ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺧﻄﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ
ﺩﻭﺩﮪ ﭘﯿﻨﮯ ﮐﻮ ﺭﻭﺗﺎ ﮨﮯ ﺑﭽﮧ
ﻣﻔﺖ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﻣﻼ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ
ﺍﺳﮑﻮ ﺗﻨﻘﯿﺪ ﮐﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﺣﻖ
ﻣﻠﮏ ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﺭﮨﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ
ﺳﺮﺧﺮﻭ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﻭﮦ ﺟﻮ ﺍﻭﺳﺎﻥ
ﻣﺸﮑﻠﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺧﻄﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ

ﻓﺮﺣﺎﻥ ﻋﺒﺎﺱ ﻓﺮﺣﺎﻥ
 

ابن رضا

لائبریرین
خوب غزل ہے ماشاءاللہ

اب کچھ صلاح مشورے

ﻭﻗﺖ ﭘﺮ ﺟﻮ ﺍﭨﮭﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ
ﺗﺎﺯﮦ ﺩﻥ ﺑﮭﺮ ﮨﻮﺍ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ
تازہ دم وہ رہا نہیں کرتا​


ﺟﺒﺮ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺧﺪﺍ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ
ﺧﻮﺩ ﺳﮯ ﺟﻮ ﺧﻮﺩ ﺟﻔﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ
دوسرا مصرع بدلنے کی ضرورت ہے واضح نہیں

ﮈﮬﻮﻧﮉﺗﮯ ﭘﮭﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﺳﺐ ﺗﻌﻮﯾﺰ
ﮐﻮﺋﯽ ﺻﺪﻗﮧ ﺍﺩﺍ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ​
خوب ہے

ﺍﮎ ﮐﺴﮏ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺭﮦ ﮨﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ
ﻣﯿﮟ ﺍﮔﺮﭼﮧ ﮔﻠﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ​
رہ ہی میں عیب تنافر ہے

ﮐﯿﺎ ﻗﯿﺎﻣﺖ ﮨﮯ ﯾﮧ ، ﮐﮧ ﺗﯿﺮﮮ ﺧﻼﻑ
ﺩﻝ ﺑﮭﯽ ﻣﯿﺮﯼ ﺳﻨﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ
پہلا مصرع رواں نہیں ردوبدل کی ضرورت ہے​

ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﻢ ﺑﮭﯽ ﻋﺸﻖ ﮐﺮ ﺑﯿﮭﭩﮯ
ﮐﻮﻥ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺧﻄﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ​
پہلا مصرع مزید بہتر بنایں

ﺩﻭﺩﮪ ﭘﯿﻨﮯ ﮐﻮ ﺭﻭﺗﺎ ﮨﮯ ﺑﭽﮧ
ﻣﻔﺖ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﻣﻼ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ
بچہ کا رونا اس کی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے نہ کہ رونا قیمت کی ادائیگی سمجھا جاتا کہ مفت میں کچھ ملا نہیں کرتا​


ﺍﺳﮑﻮ ﺗﻨﻘﯿﺪ ﮐﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﺣﻖ
ﻣﻠﮏ ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﺭﮨﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ​
ہے حق میں تنافر ہے

ﺳﺮﺧﺮﻭ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﻭﮦ ﺟﻮ ﺍﻭﺳﺎﻥ
ﻣﺸﮑﻠﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺧﻄﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ

اوسان کی جگہ شاید آپ انساں لکھنا چاہ رہے ہونگے
لفظ "جو" بے محل ہے ، دوسرے مصرع میں مشکلوں کے ساتھ خطا کی بجائے ڈرا وغیرہ لائیے
 
آخری تدوین:

فرحان عباس

محفلین
بہت بہت شکریہ بھائی نشاندہی کا پہلا شعر کا مصرع جو آپ نے بتایا وہی کردیا :) الف عین سر بھی دیکھ لیں پھر کچھ کرتا ہوں. آخری شعر میں اوسان ہی ہے.
 

الف عین

لائبریرین
باقی اصلاح تو درست ہئ ابن رضا کی۔
اوسان کئ لحاظ سے ’خطا‘ تو درست ہے۔ لیکن مسئلہ یہ نہیں، بلکہ یہ ہے کہ اوسان خود بخود ’خطا‘ ہوتے ہیں۔ خطا کئے نہیں جاتے!!
 

فرحان عباس

محفلین
[ﺟﺒﺮ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺧﺪﺍ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ
ﺧﻮﺩ ﺳﮯ ﺟﻮ ﺧﻮﺩ ﺟﻔﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ
ﺩﻭﺳﺮﺍ ﻣﺼﺮﻉ ﺑﺪﻟﻨﮯ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ
ﮨﮯ ﻭﺍﺿﺢ ﻧﮩﯿﮟ
‏]


اسے اگر اسطرح کرلوں.

خود جو اپنا برا نہیں کرتا

جبر اس پر خدا نہیں کرتا
 

فرحان عباس

محفلین
[ﺍﮎ ﮐﺴﮏ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺭﮦ ﮨﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ
ﻣﯿﮟ ﺍﮔﺮﭼﮧ ﮔﻠﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ
ﺭﮦ ﮨﯽ ﻣﯿﮟ ﻋﯿﺐ ﺗﻨﺎﻓﺮ ﮨﮯ]

اگر اسطرح کرلوں


ٹھیس تو دل کو لگتی ہے فرحان

میں اگرچہ گلہ نہیں کرتا
یا
وہ اگرچہ گلہ نہیں کرتا


اور "گلہ" قافیہ ٹھیک ہے؟
 

فرحان عباس

محفلین
[ﮐﯿﺎ ﻗﯿﺎﻣﺖ ﮨﮯ ﯾﮧ ، ﮐﮧ ﺗﯿﺮﮮ ﺧﻼﻑ
ﺩﻝ ﺑﮭﯽ ﻣﯿﺮﯼ ﺳﻨﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ
ﭘﮩﻼ ﻣﺼﺮﻉ ﺭﻭﺍﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﺩﻭﺑﺪﻝ
ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮨﮯ]


کیا قیامت ہے کچھ بھی تیرے خلاف

دل ہماری سنا نہیں کرتا
 

فرحان عباس

محفلین
[ﺍﺳﮑﻮ ﺗﻨﻘﯿﺪ ﮐﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﺣﻖ
ﻣﻠﮏ ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﺭﮨﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ
ﮨﮯ ﺣﻖ ﻣﯿﮟ ﺗﻨﺎﻓﺮ ﮨﮯ]

اسکو تنقید کا نہیں کچھ حق
ملک میں جو رہا نہیں کرتا
 

فرحان عباس

محفلین
ﺳﺮﺧﺮﻭ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﻭﮦ ﺟﻮ ﺍﻭﺳﺎﻥ
ﻣﺸﮑﻠﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺧﻄﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ

میرے دوست کہتے ہیں اگر کتا سامنے آجائے تو گھبرانہ مت سامنے کھڑے رہنا کتا کچھ نہیں کریگا اسکے برعکس کتا لازمی کاٹے گا.‏‎:)

اسکا تو مطلب ہوا کہ اوسان ہم خود خطا کرتے ہیں. ہاہاہاہا ‏‎:D
 

الف عین

لائبریرین
میرے تو اوسان ہی خطا ہو گئے کتے کی بات سن کر!!!
اس شعر کو نکال ہی دو، کوئی ایسا خاص نہیں۔
باقی ترمیمات قبول کی جا سکتی ہیں۔
یہ شعر
ٹھیس تو دل کو لگتی ہے فرحان
میں اگرچہ گلہ نہیں کرتا
کو اگر یوں کہیں
گرچہ میں کچھ گلہ۔۔۔
فرق یہ ہئ کہ پہلے مصرع کے ’تو‘ کی وجہ سے دوسرے مصرع میں بھی کوئی ایسا لفظ ہو تو اچھا لگتا ہے۔
گلہ کا قافیہ درست ہے۔ کہ یہاں ’ہ‘ کی آواز نہیں، الف کی آواز ہے۔ لیکن ’وجہ‘ (محض مثال کے لئے ورنہ اس کا تلفظ ایسا نہیں کہ گلہ کا قافیہ بن سکے) یا ’رہ‘ قافئے نہیں ہو سکتے کہ وہاں ہ کی با قاعدہ آواز ہے۔
 

فرحان عباس

محفلین
اصلاح شدہ.

ﻭﻗﺖ ﭘﺮ ﺟﻮ ﺍﭨﮭﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ
ﺗﺎﺯﮦ ﺩم وہ رہا ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ

خود جو اپنا برا نہیں کرتا
ﺟﺒﺮ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺧﺪﺍ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ

ﮈﮬﻮﻧﮉﺗﮯ ﭘﮭﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﺳﺐ ﺗﻌﻮﯾﺰ
ﮐﻮﺋﯽ ﺻﺪﻗﮧ ﺍﺩﺍ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ

ﮐﯿﺎ ﻗﯿﺎﻣﺖ ﮨﮯ کچھ بھی ﺗﯿﺮﮮ ﺧﻼﻑ
دل ہماری سنا نہیں کرتا

ٹھیس تو دل کو لگتی ہے فرحان
گرچہ میں کچھ گلہ نہیں کرتا

ﻓﺮﺣﺎﻥ ﻋﺒﺎﺱ ﻓﺮﺣﺎﻥ
 
Top