میر غصے سے اٹھ چلے ہوجو دامن کو جھاڑ کر - میر تقی میرؔ

سعدی غالب

محفلین
پنکج اداس کا ایک البم "ان سرچ آف میرؔ" ہاتھ لگا، اس کی یہ غزل سنی تو بہت مزا آیا، سوچا شیئر کیتی جائے، ویسے میرے پسندیدہ کلام کا 90٪ اس زمرے میں موجود ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے، کہ یا تو میری پسند اعلی ہے یا لوگوں کا ذوق انتہائی اعلی ہے:laugh:

غصے سے اٹھ چلے ہو جو دامن کو جھاڑ کر
جاتے رہیں گے ہم بھی گریباں پھاڑ کر

دل وہ نگر نہیں کہ پھر آباد ہوسکے
پچھتاؤ گے سنو ہویہ بستی اجاڑ کر

یا رب رہ طلب میں کوئی کب تلک پھرے
تسکین دے کہ بیٹھ رہوں پاؤں گاڑ کر

منظور ہو نہ پاس ہمارا تو حیف ہے
آئے ہیں آج دور سے ہم تجھ کو تاڑ کر

غالب کہ دیوے قوت اس ضعیف کو
تنکے جو دکھاوے ہے پل میں پہاڑ کر

یاداشت میں یہ دو شعر بھی اسی غزل کے محفوظ ہیں (غلطی کی صورت میں پیشگی معذرت)

نکلیں گے کام دل کچھ اب اہل ریش سے
کچھ ڈھیر کر چکے ہیں یہ آگے اکھاڑ کر

اس فن کے پہلوانوں سے کشتی رہی ہے میرؔ
بہتوں کو ہم نے زیر کیا ہے پچھاڑ کر
 
غصے سے اٹھ چلے ہو جو دامن کو جھاڑ کر
جاتے رہیں گے ہم بھی گریباں پھاڑ کر
دل وہ نگر نہیں کہ پھر آباد ہو سکے
پچھتاؤ گے سنو ہو یہ بستی اجاڑ کر
یارب رہ طلب میں کوئی کب تک پھرے
تسکیں دے کر بیٹھ رہوں گا پاؤں گاڑ کر
منظور نہ ہو پاس ہمارا تو حیف ہے
آئے ہیں آج دور سےہم تجھ کو تاڑ کر
غالب کہ دیوے قوت دل اس ضعیف کو
تنکے جو دکھاوے ہے پل میں پہاڑ کر
نکلیں گے کام دل کے کچھ اب اہل ریش سے
کچھ ڈھیر کر چکے ہیں یہ آگے اکھاڑ کر
اس فن کے پہلوانوں سے کشتی رہی ہے میر
بہتوں کو ہم نے زیر کیا ہے بچھاڑ کر
 
Top