غفور صاحب کون تھے؟

نایاب

لائبریرین
غفور صاحب کون تھے؟
وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
121226164539_prof_ghafoor304.jpg
خان عبدالولی خان، مولانا مفتی محمود، غوث بخش بزنجو، عبدالصمد اچکزئی، جی ایم سید، شاہ احمد نورانی، نوابزادہ نصراللہ خان، پروفیسر غفور احمد۔ بظاہر ان ناموں میں کوئی نظریاتی قدرِ مشترک نہیں۔ نسلی و ثقافتی پس منظر بھی مشترک نہیں۔مگر یہ سب اس سیاسی نسل کے لوگ ہیں جو بنی اسرائیل کے بارہویں قبیلے کی طرح کہیں کھو گئی۔
یہ دلائل کے اسلحے سے لڑنے والے بامروت، وضع دار، حریفوں کی پڑھی لکھی، گرم و سرد کی آزمائش سے گذری کندن پیڑھی تھی۔ سیاست ان کا پیشہ نہیں تھا اوڑھنا بچھونا تھا۔آپ کا نظریہ بھلے کچھ بھی ہو مگر ان لوگوں سے مل کر آپ کچھ نہ کچھ سیکھ کر اٹھتے تھے، کچھ دے کر نہیں لے کر اٹھتے تھے۔ یہ سب کے سب ہر شخص کے لیے قابلِ رسائی تھے۔

ان کے آگے پیچھے نہ کلاشنکوف بردار ڈشکرے تھے، نہ ہی ہٹو بچو کی صدائیں، نہ یہ آنے والے کو طویل انتظار سے گذار کر ’دیکھو میں کتنا اہم اور مصروف آدمی ہوں‘ ثابت کرتے تھے اور نہ ہی ’برخوردار تمہیں کیا پتا میں تمھیں بتاتا ہوں‘ کے مرض میں مبتلا تھے۔
مجھے واقعی یاد نہیں کہ غفور صاحب سے پہلی بار کس تقریب میں ملا تھا۔ مگر یہ یاد ہے کہ جب ایک دفعہ ان کے گھر فون کیا تو پہلی حیرت یہ ہوئی کہ کسی سیکرٹری کے بجائے انہوں نے فون اٹھایا۔ دوسری حیرت یہ ہوئی کہ فوراً اسی روز شام کا وقت دے دیا۔تیسری حیرت یہ ہوئی کہ دروازے پر تالہ تو کجا مین گیٹ کے دونوں دروازے بھی چوپٹ تھے۔
چوتھی حیرت یہ ہوئی کہ گھنٹی کا بٹن دباتے ہی کوئی اور گیٹ پر نہیں آیا خود غفور صاحب باہر نکل آئے۔ پانچویں حیرت یہ ہوئی کہ اپنے بیڈ روم میں ایک معمولی سی مسہری پر بٹھا دیا اور خود اندر چلے گئے۔ بیڈ روم میں فرنیچر کے نام پر بید کی دو آرام کرسیاں، ایک سیدھی سی میز، ایک رائٹنگ ٹیبل، چند کتابیں اور ایک جائے نماز۔۔۔
چھٹی حیرت یہ ہوئی کہ نائبِ امیرِ جماعتِ اسلامی، دو دفعہ کا منتخب رکنِ قومی اسمبلی، ایک دفعہ کا منتخب سینیٹر، انیس سو تہتر کی آئین ساز کمیٹی کا رکن، پی این اے اور آئی جے آئی کا سابق سیکریٹری جنرل، ستتر کے انتخابات دوبارہ کروانے کے لیے ذوالفقار علی بھٹو کی ٹیم سے مذاکرات کرنے والی اپوزیشن کمیٹی کا سربراہ، سابق وفاقی وزیرِ صنعت، چارٹرڈ اینڈ انڈسٹریل اکاؤنٹینسی کا استاد، پانچ کتابوں کا مصنف ہاتھ میں چائے کے ٹرے اور بسکٹ کی رکابی پکڑے دوسرے کمرے سے واپس آتا ہے، میز پر رکھتا ہے اور مجھ جیسے چھٹ بھئیے صحافی سے کہتا ہے کہ معاف کیجئے گا اہلیہ کی طبیعت ناساز ہے لہٰذا صرف چائے ہی میسر ہے۔۔۔

اور پھر میں ہر تیسرے چوتھے مہینے غفور صاحب کے پاس جانے لگا۔ ضعیفی کے سبب ان کی نقل و حرکت پہلے جیسی نہیں رہی تھی لہٰذا میں نے ان کی جبری فراغت سے خوب فائدہ اٹھایا۔ ان کے پاس بیٹھ کے بہت سکون ملتا تھا۔ وہ پاکستانی سیاست کے اندرون و بیرون کے ایک اہم شاہد تھے مگر مجھ جیسوں کی بچگانہ بقراطیاں بھی بات کاٹے بغیر سنتے رہتے۔
کسی بھی طرح کے سوال کا جواب دیتے وقت نہ غفور صاحب کو ادھر ادھر دیکھ کر لفظوں کو مشینی انداز سے ناپنے تولنے کی عادت تھی، نہ ہی وہ بات کو اہم اور پراسرار ثابت کرنے کے لیے سرگوشی کی اداکاری کر پاتے تھے، نہ ہی ’نو کمنٹس‘ کہہ کے بات بدلنا جانتے تھے۔
مجھے نہیں معلوم کہ جماعتِ اسلامی کی موجودہ قیادت کا جنرل ضیا کا ساتھ دینے کے بارے میں آج کیا موقف ہے۔ مگر غفور صاحب تسلیم کرتے تھے کہ پی این اے اور بھٹو صاحب میں معاہدہ طے پا جانے کے بعد فوج کی مداخلت بلاجواز، غیر ضروری اور سمجھ سے بالا تر تھی۔ وہ یہ بھی اعتراف کرتے تھے کہ جنرل ضیا کا ساتھ دینا جماعتِ کی ناسمجھی تھی۔ جماعت نےضیا اور اس کے ارادوں کو سمجھنے میں غلطی کی۔ مگر جماعت چونکہ امارت کے ڈسپلن کےتابع ہوتی ہے، لہٰذا اندرونِ خانہ تو بے چینی تھی لیکن امیر ( میاں طفیل محمد ) نے چونکہ ایک فیصلہ کر لیا تھا لہٰذا اس فیصلے کے ساتھ چلنا تنظیمی ڈسپلن کی مجبوری تھی۔
ایک ملاقات میں ان سے میں نے پوچھا کہ ذوالفقار علی بھٹو اتنے برس بعد کیسا لگتا ہے۔ ان کا جواب تھا کہ بھٹو مزاجاً فاشسٹ، خوشامد پسند اور منتقم مزاج تھا لیکن ذہین اور قوم پرست تھا اور اس نے پاکستان کے لیے بین الاقوامی سطح پر بہت کچھ کیا۔ ہر انسان میں اچھائیاں برائیاں ہوتی ہیں مگر بھٹو نے کوئی مالی کرپشن نہیں کی نہ ہی ملک کو لوٹا۔یہ رجحان تو بعد میں شروع ہوا۔
پیشہ ورانہ ضروریات کے تحت جماعتِ اسلامی اور اس کے نظریات کے شدید مخالفین سے بھی میری ملاقاتیں ہوتی تھیں اور ہوتی ہیں۔ بہت سے جماعت کی قیادت کا نام لے کر بھی اچھی بری گفتگو کرتے ہیں۔ لیکن اب تک کوئی ایک سیاستداں یا کارکن ایسا نہیں ٹکرایا جس نے غفور صاحب کی برائی یا غیبت کی ہو۔
شاید غفور صاحب ان گنے چنے سیاستدانوں کی صف کے آخری آدمی تھے جن کی اصول پسندی، آگہی، اخلاص، سادگی اور عوامیت شک و شبہے سے بالا تھی۔ موجود لوگوں میں کیا ایسا کوئی ہے ؟ شاید سردار شیر باز مزاری اور اصغر خان۔۔۔
چراغ بجھتے چلے جارہے ہیں سلسلہ وار
میں خود کو دیکھ رہا ہوں فسانہ ہوتے ہوئے
 

فلک شیر

محفلین
پروفیسر صاحب واقعی سیاستدانوں کی اس نسل کے آخری لوگوں میں سے تھے.........سادگی، علم اور سچی دانش جن کا اثاثہ تھا........ناکہ تصنّع، جہل اور فکری افلاس کے مارے آج کل کے لُٹیرے........اگلی نسلیں ہماری گردنوں پہ مسلّط کرتے تاجر..............
وسعت اللہ خاں کو لکھنے کا ڈھنگ جانے کہاں سے ودیعت ہوا.........سبحان اللہ........بہت اچھا لکھتے ہیں
شکریہ نایاب بھائی
 

نایاب

لائبریرین
26 جون1927ء کوبریلی یوپی انڈیا میں پیدا ہوئے۔ 1948ء میں لکھنؤ یونیورسٹی سے کامرس میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔ بعد ازاں انڈسٹریل اکاؤنٹس کا کورس مکمل کیا اور انسٹیٹیوٹ آف کاسٹ اینڈ مینیجمنٹ اکاؤنٹس کے فیلو ہوگئے۔
تجارتی اداروں میں کام کرنے کے علاوہ آپ نے متعدد تعلیمی اداروں میں بھی پڑھایا۔ ان میں انسٹیٹیوٹ آف چارٹرڈ اکاؤنٹس پاکستان،انسٹیٹیوٹ آف انڈسٹریل اکاؤنٹس اور اردو کالج کراچی شامل ہیں۔ تعلیمی و تدریسی سرگرمیوں میں دلچسپی اور شغف کی بنا پرآپ کئی برس تک سندھ یونیورسٹی ، کراچی یونیورسٹی اور سندھ یونیورسٹی بورڈ فار کامرس کے نصاب سے منسلک رہے۔
پروفیسرغفوراحمد1950 ء میں23 برس کی عمر میں جماعت اسلامی کے رکن بنے۔ آپ کئی برس تک کراچی جماعت کے امیر رہےاوراب مدت دراز سے مرکزی نائب امیر جماعت کے طور پر کام کر رہے تھے
شروع ہی سے سیاست میں سرگرمی سے حصہ لیا۔ 1958 ء میں کراچی میونسپل کارپوریشن کے ممبر منتخب ہوئے۔ بعد میں 1970 ء میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 1977ء میں وہ دوبارہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئےاور جماعت اسلامی کی پارلیمانی پارٹی کے قائد بھی بنائے گئے۔آپ یونائیٹڈ ڈیموکریٹک الائنس اور پاکستان قومی اتحاد کے سیکرٹری جنرل بھی رہے۔ آپ قومی اتحاد کی اس مذاکرتی ٹیم میں شامل تھے کہ جس نے ذوالفقارعلی بھٹو سے مارشل لا کے نفاذ سے پہلے فیصلہ کن مذاکرات کیے۔
1978 ء سے لے کر1979ء تک آپ محض پاکستان قومی اتحاد کی قیادت میں وفاقی وزیر صنعت رہے۔ پروفیسر صاحب نے اپنی اس دور وزارت کو اپنی زندگی کا تاریک باب قرار دیا ہے۔ بعد ازاں 1988 ء سے لے کر1992 ء تک اسلامی جمہوری محاذ کے سیکرٹری جنرل کے طور پرکام کیا۔ اپنے طویل سیاسی سفر میں وہ متعدد بار گرفتار ہوئے۔ گرفتاری کا طویل ترین دورانیہ نومہینے کا وہ عرصہ ہے جب جماعت اسلامی کو غیر قانونی قرار دیاگیا تھا اور پھر سپریم کورٹ آف پاکستان نے اسے بحال کیا تھا۔ پروفیسر غفوراحمد پانچ کتابوں کے مصنف ہیں جوپاکستانی سیاست سے متعلق ہیں۔
26 دسمبر 2012ء کو کراچی میں طویل علالت کے بعد انتقال کر گئے۔

بشکریہ
 

ساجد

محفلین
انا للہ و انا الیہ راجعون۔
مرحوم ، وضع داری اور شرافت کی ایک بہترین مثال تھے۔ حق تعالیٰ مغفرت فرمائے۔
 

کاشفی

محفلین
اناللہ و انا الیہ راجعون۔​
اللہ رب العزت مرحوم کے گناہ بخش دے اور ان کی مغفرت فرمائے۔۔۔آمین ثم آمین​
 

یوسف-2

محفلین
سجاد میر کا کالم: نئی بات 29 دسمبر 2012
وہ ایک ہیرا تھا جس نے ہماری سیاست کو مالا مال کر رکھا تھا۔ میں نے کم لوگ دیکھے ہیں جو پروفیسر غفور احمد کی طرح صاف ستھری زندگی کے ساتھ سیاست کرتے ہوں۔ انہوں نے اس زمانے میں سیاست کی جب ملک پر بھٹو کا راج تھا اور جماعت اسلامی پر میاں طفیل محمد جیسے سادہ لوح مرد درویش کی امارت کا دور دورہ تھا۔اس بات کا کیا مطلب ہے؟ یہ میں بتانے کی کوشش کروں گا۔ ذاتی طور پر میرا ان سے بہت ہی محبت اور احترام کا رشتہ تھا۔ کراچی میں، میں نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ گزارا ہے۔ اس وقت لاہور میں بیٹھا اس بات پر افسردہ ہوں کہ ان کی آخری رسومات میں شرکت سے محروم رہا۔ ارادہ تھا کہ منور حسن کے بیٹے کی شادی کی تقریب کے لئے کراچی جاؤں گا۔ یوں ہو جاتا تو کم از کم اس سعادت سے محروم نہ رہتا۔
بات کہاں سے شروع کروں، کچھ سمجھ نہیں آرہا۔ مجھے یاد ہے کہ ستر کے انتخابات کے نتائج نے جماعت اسلامی ہی نہیں، ملک بھر میں اسلامی ذہن رکھنے والوں کو مضطرب کر دیا تھا۔ ملک میں صرف چار افراد قومی اسمبلی تک پہنچے تھے۔ کراچی سے محمود اعظم فاروقی اور پروفیسر غفور صاحب، پنجاب سے ڈاکٹر نذیر احمد اور اس زمانے کے سرحد سے صاحبزادہ صفی اللہ۔ پنجاب کے لوگ محمود اعظم فاروقی سے ان کے پہلے سے موجود پارلیمانی پس منظر کی وجہ سے تو واقف تھے مگر پروفیسر غفور احمد کا نام عام آدمی کے لئے نیا تھا۔ بعض لوگوں کو حیرانی ہوئی کہ جماعت نے ان کو اسمبلی میں پارلیمانی قائد مقرر کیا ہے۔ ادھر ڈاکٹر نذیر احمد بھی اس زمانے کی دریافت تھے، وہ بھی دلوں کو مسخر کر رہے تھے۔ ایسے میں سب لوگوں کی توجہ پروفیسر صاحب پر مرکوز ہوئیں کہ ہو نہ ہو ان میں ضرور کوئی ایسا جوہر قابل ہوگا کہ جماعت نے انہیں اپنا پارلیمانی قائد مقرر کیا ہے۔ وقت نے ثابت کیا یہ خدائی فیصلہ تھا، آسمانوں سے دلوں پر اتارا گیا تھا۔ رفتار زمانہ نے جس کی اہمیت کو جلد ہی واضح کر دیا۔
پروفیسر صاحب سے میری پہلی ملاقات اسلام آباد میں ہوئی جب اسمبلی کا پہلا اجلاس ہونے والا تھا۔ میں بھی وہاں زندگی اور اردو ڈائجسٹ کا مقدمہ لے کر پہنچا ہوا تھا۔ وہ بھی کیا اسمبلی تھی۔ شیرباز مزاری، شاہ احمد نورانی، مولانا ظفر احمد انصاری، کراچی نے حزب اختلاف کو کیسے قد آور لوگ فراہم کئے تھے۔ پروفیسر غفور احمد نے دھیرے دھیرے اپنے جوہر دکھانا شروع کر دیئے تھے۔ ایک طرف آئین سازی کا مرحلہ، دوسری طرف بھٹو کی آمرانہ روش اور تیسری طرف انتہائی احترام سے یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ میاں طفیل محمد کی امارت جو اپنے تقویٰ اور پارسائی کے باوصف سیاست کے خم دپیچ میں بھی صراط مستقیم کی تلاش میں رہتی تھی۔ چند دنوں کے اندر معلوم ہوگیا کہ جماعت کو سیاسی میدان میں ایک لیڈر مل گیا ہے۔ جماعت نے غالباً اپنے نظام کے تحت پروفیسر صاحب کو سیاسی معاملات میں آزادانہ کام کرنے کی اجازت دے دی تھی۔ وہ بڑے ہی تحمل اور احتیاط سے یہ ذمہ داری نبھاتے رہے۔ پارلیمنٹ میں ان کی دھوم تھی۔ ملک بھر میں بالخصوص نوجوانوں کی نگاہیں ان کی طرف اٹھ رہی تھیں۔ جماعت کے اندر ان کی رائے کا احترام کیا جاتاتھا۔ میں انہی دنوں کراچی چلا گیا تھا۔ وہاں مجھے غفور صاحب کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ میں ان دنوں کہا کرتا تھا کہ پاکستان میں قومی سطح پر بس دو اڑھائی سیاستدان ہی ایسے ہیں جو صاف ستھری سیاست کرتے ہیں۔ شیرباز مزاری اور اصغر خاں کا نام پتا تھا۔ پروفیسر صاحب کی خوبی اس کے ساتھ یہ بھی تھی کہ انہوں نے بڑی کامیاب سیاست کی، مطلب یہ کہ وہ جس مقصد کے لئے اس خارزار میں اترے تھے اس کی طرف قدم بہ قدم بڑھتے ہی رہے۔
اصل میں مجھے اپنے قائداعظم جن خوبیوں کی وجہ سے پسند ہیں، ان میں بنیادی بات یہ ہے کہ وہ ایک راست باز اور صاف ستھرے سیاست دان تھے۔ جھوٹ نہیں بولتے تھے، ان پر چکر بازی کا کوئی گمان نہ تھا، اس کے باوجود حریفوں کے چھکے چھڑا دیتے تھے کیونکہ ان کی ہر چال کو سمجھتے تھے۔ بددیانتی ان کے قریب بھی بھٹک نہیں سکتی تھی۔ میں انہیں بیسیویں صدی میں مسلم سیاست دان کی ایک آئیڈیل مثال کہتا ہوں۔ میری بات واضح ہوگئی ہوگی کہ میں پروفیسر صاحب کی شخصیت کے حوالے سے کس بات پر زور دے رہا ہوں۔
مجھے ان کی ایک تقریر اب بھی یاد ہے۔ وہ امریکہ اور یورپ کے دورے کے بعد واپس آئے تھے۔ ویسے تو جماعت کے قائدین جماعتی سرگرمیوں کے لئے آتے جاتے رہتے ہیں، مگر غالباً غفور صاحب کا یہ پہلادورہ تھا۔ مجھے یاد ہے، انہوں نے بھٹو کو مخاطب کرتے ہوئے کہا جو شخص اپنی ایک ہی پرانی شیروانی میں یورپ اور امریکہ گھوم کر آسکتا ہو، اسے تم کس بات پر ڈرا رہے ہو۔ وہ چھوٹی چھوٹی باتیں کارکنوں کو سمجھا رہے تھے کہ حلال حرام کے خوف سے وہ سفر میں پنیر اور ڈبل روٹی پر گزارہ کرتے تھے۔ انہوں نے کہا یہاں تو پنیر باہر سے آتا ہے اور مہنگا ہوتاہے، مگر وہاں عام ہے اور سستا ہے۔ میں اسی شام ان کے ہاں پہنچا، ساہیوال میں ان دنوں پنیر کی فیکٹری نئی نئی لگی تھی۔ ساتھ دو ایک ڈبے لئے اورجا کر انہیں پیش کئے کہ یہ پاکستان ہی میں بنتا ہے اور سستا بھی ہے۔ ہنسنے لگے، بھئی میرا یہ مطلب نہیں تھا۔ ان کا چہرہ آج بھی میرے سامنے ہے جیسے کوئی شرمندہ ہو کہ میں نے یہ کیوں کہا، کہیں یہ حسن طلب نہ سمجھا جائے اور اس کے ساتھ یہ خیال کہ یہ بچہ ہے اس کو انکار بھی اچھا نہیں اور شاید کچھ میری ستائش بھی کہ دیکھو اسے کیا خیال آیا۔ یوں سمجھئے یہی ان سے میرا رشتہ تھا اور یہی ان کی شخصیت کا حسن تھا۔
اس وقت ذاتی باتوں کا ہجوم ہے جو امڈا چلا آرہا ہے۔ ان کا زیادہ تذکرہ نہیں کرنا چاہتا۔ مجھے قومی اتحاد یعنی پی این اے کے وہ دن بھی یاد ہیں جب انہیں اس اتحاد کا سیکرٹری جنرل بنایا گیا۔ نورانی میاں کی خواہش پر یہ منصب ان کی پارٹی کے رفیق احمد باجوہ کو دیا گیا، وہ اپنی سادگی یا بقول ان کے نواب زادہ نصر اللہ کے کہنے پر بھٹو صاحب سے ملنے اسلام آباد چلے گئے۔ ان دنوں بھٹو مخالف تحریک اپنے عروج پر تھی۔ یہ گویا بہت بڑا سانحہ گنا گیا۔ ساری محنت اکارت جاتی نظر آئی۔ نورانی میاں نے انہیں پارٹی سے فارغ کر دیا۔ پھر اس اتفاق رائے میں شامل ہوگئے کہ سیکرٹری جنرل کا منصب ان کی پارٹی کے کسی فرد کو ملنے کے بجائے پروفیسر غفور صاحب کے سپرد کر دیا جائے۔ غفور صاحب نے بھٹو سے مذاکرات کرنے والی سہ فریقی ٹیم میں جس طرح کردار ادا کیا، وہ اب تاریخ کا حصہ ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب قاضی حسین احمد امیر جماعت اسلامی تھے تو کراچی میں ایک اجتماع میں انہوں نے پروفیسر صاحب کا تذکرہ یہ کہہ کر کیا کہ یہاں میرے مربی اور محسن پروفیسر غفور بھی موجود ہیں۔ منور حسن اس بات پر فخر کرتے تھے کہ وہ ان کے ساتھ سیاسی مذاکرات میں ایک جونیئر پارٹنر کے طور پر شریک ہوتے رہے ہیں۔ پروفیسر صاحب آئی جے آئی کے بھی سیکرٹری جنرل رہے۔ وہ لاہور آئے تو دیکھا باہر ایک پجارو ٹائپ گاڑی کھڑی ہے۔ پوچھا، یہ کیا ہے۔ پتا چلا، سیکرٹری جنرل کے استعمال کے لئے ہے، فوراً واپس بھیج دی۔ اور جب دیکھا کہ آئی جے آئی کو فعال کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے، تو اس سے مستعفی ہوگئے۔ نواز شریف کو اقتدار میں آنے کے بعد اس تنظیم کے سہارے کی ضرورت نہ تھی۔ ہوسکتا ہے، سیاسی طور پر میاں صاحب کا فیصلہ درست ہو، مگر اس نے ملک کی سیاست پر نظریاتی گرفت کو اتنا کمزور کر دیا کہ پھر وہ روح کبھی تو انا نہ ہو سکی جو تحریک نظام مصطفیؐ سے لے کر اس مرحلے تک بہت طاقتور رہی ہے اور دائیں بازو کی سیاست کی جان تھی۔
مجھے یاد ہے کہ جب وہ سینیٹر تھے تو سب سے پہلے انہوں نے آکر بتایا تھا کہ بلوچستان کے حالات ٹھیک نہیں ہیں حالانکہ ان دنوں ایسی کوئی خاص تشویشناک خبریں نہیں آرہی تھیں۔ وہ کہتے تھے بلوچستان کے بیس میں سے ایک سینیٹر بھی ایسا نہیں جو مطمئن ہو۔ پہلی بار مجھے اس بات پر تشویش ہوئی۔ پروفیسر صاحب کی بصیرت اور سچائی پر سب کو اعتبار تھا۔
ایک بات اور یاد آئی۔ قومی اسمبلی کے رکن بننے سے پہلے وہ ایک ادارے کے چیف اکاؤنٹنٹ تھے، غالباً چھ سات ہزار روپے تنخواہ لیتے تھے اور بہت سی مراعات بھی تھیں۔ یہ اس زمانے میں بہت بڑی تنخواہ تھی۔ اسی سے انہوں نے اپنا گھر بنایا تھا جو خاصا کشادہ تھا، غالباً ایک ہزار یا ڈیڑھ ہزار گز پر جہاں جماعت کے اجتماعات بھی ہوتے تھے۔ قومی اسمبلی کا ممبر بننے کے بعد جماعت نے انہیں ملازت چھوڑنے کا حکم دیا۔ باقی وقت انہوں نے اس معاوضے پر گزارا جو قومی اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے انہیں ملتا تھا۔ یہ ڈیڑھ ہزار روپے تھے۔ جماعت کے اصول کے مطابق یہ رقم جماعت کو منتقل کر دی جاتی ہے۔ ضرورت محسوس ہو تو جماعت اسے اپنے اس رکن کو استعمال کرنے کی اجازت دیتی ہے جس کا ذریعہ آمدنی اور کوئی نہ ہو۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار غفور صاحب نے ہنستے ہوئے کہا کہ بھئی اب تو گھر والے بھی تنگ آ چکے ہوں گے کہ جب میں اپنا ماہانہ خرچ چھ ہزار سے ڈیڑھ ہزار پر لے آؤں گا تو انہیں پریشانی تو ہوگی۔ یہ تو ان کا احساس تھا جو خاندان کے ایک اچھے سر براہ کا ہونا چاہئے، مگر یہ حقیقت ہے کہ اس خاندان نے بھی بڑی ہزیمت کا مظاہرہ کیا۔ ان کا بیٹا فوزی میرا دوست ہے۔ وہ کچھ عرصہ سعودی عرب گزار کر آیا تھا۔ یہاں آکرہاتھ پاؤں مار رہا تھا۔ کسی نے کہا کہ حفیظ پیرزادہ آپ کی بڑی عزت کرتے ہیں انہیں کہہ دیں تو آپ کے بیٹے کے لئے میرٹ پر ایک اچھی جگہ ان کے زیر کنٹرول موجود ہے، مگر پروفیسر صاحب خود کو اس پر آمادہ نہ کر سکے۔ میں نے فوزی کے وہ دن دیکھے ہیں۔ جب اسمبلی کی رکنیت ختم ہوئی تو پروفیسر صاحب کو ذریعہ معاش کی فکر ہوئی۔ دوست احباب نے مشورہ دیا، یہ دفتر حاضر ہے، ملک سے باہر قالینوں کے کاروبار کی گنجائش ہے، اپنے ہی لوگ ہیں، آپ دفتر سنبھالیں۔ وہ دفتر جاتے رہے، مگر کوئی لمبا چوڑ ا بزنس نہ کر پائے۔
ایک کام انہوں نے کمال کا کیا ہے۔ وہ اپنے نسبتاً فرصت کے اوقات میں باقاعدہ اسلامک ریسرچ اکیڈیمی کی لائبریری میں جا بیٹھتے۔ اس طرح پاکستان کی ہم عصر تاریخ کو اپنی کئی کتابوں میں جس غیر جانبداری اور سلیقہ مندی سے انہوں نے مبسوط شکل دی ہے، وہ اس عہد کی سب سے معتبر دستاویزات بن گئی ہیں۔ مستقبل کا مورخ ان کے بغیر ایک قدم نہیں اٹھا سکتا۔
غفور صاحب خود ہمارے عہد کی معتبر نشانی تھے۔ اس نشانی کے ر خصت ہونے سے لگتا ہے ہم سے بہت کچھ چھن گیا ہے
 
Top