نایاب
لائبریرین
غفور صاحب کون تھے؟
وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
خان عبدالولی خان، مولانا مفتی محمود، غوث بخش بزنجو، عبدالصمد اچکزئی، جی ایم سید، شاہ احمد نورانی، نوابزادہ نصراللہ خان، پروفیسر غفور احمد۔ بظاہر ان ناموں میں کوئی نظریاتی قدرِ مشترک نہیں۔ نسلی و ثقافتی پس منظر بھی مشترک نہیں۔مگر یہ سب اس سیاسی نسل کے لوگ ہیں جو بنی اسرائیل کے بارہویں قبیلے کی طرح کہیں کھو گئی۔
یہ دلائل کے اسلحے سے لڑنے والے بامروت، وضع دار، حریفوں کی پڑھی لکھی، گرم و سرد کی آزمائش سے گذری کندن پیڑھی تھی۔ سیاست ان کا پیشہ نہیں تھا اوڑھنا بچھونا تھا۔آپ کا نظریہ بھلے کچھ بھی ہو مگر ان لوگوں سے مل کر آپ کچھ نہ کچھ سیکھ کر اٹھتے تھے، کچھ دے کر نہیں لے کر اٹھتے تھے۔ یہ سب کے سب ہر شخص کے لیے قابلِ رسائی تھے۔
ان کے آگے پیچھے نہ کلاشنکوف بردار ڈشکرے تھے، نہ ہی ہٹو بچو کی صدائیں، نہ یہ آنے والے کو طویل انتظار سے گذار کر ’دیکھو میں کتنا اہم اور مصروف آدمی ہوں‘ ثابت کرتے تھے اور نہ ہی ’برخوردار تمہیں کیا پتا میں تمھیں بتاتا ہوں‘ کے مرض میں مبتلا تھے۔
مجھے واقعی یاد نہیں کہ غفور صاحب سے پہلی بار کس تقریب میں ملا تھا۔ مگر یہ یاد ہے کہ جب ایک دفعہ ان کے گھر فون کیا تو پہلی حیرت یہ ہوئی کہ کسی سیکرٹری کے بجائے انہوں نے فون اٹھایا۔ دوسری حیرت یہ ہوئی کہ فوراً اسی روز شام کا وقت دے دیا۔تیسری حیرت یہ ہوئی کہ دروازے پر تالہ تو کجا مین گیٹ کے دونوں دروازے بھی چوپٹ تھے۔
چوتھی حیرت یہ ہوئی کہ گھنٹی کا بٹن دباتے ہی کوئی اور گیٹ پر نہیں آیا خود غفور صاحب باہر نکل آئے۔ پانچویں حیرت یہ ہوئی کہ اپنے بیڈ روم میں ایک معمولی سی مسہری پر بٹھا دیا اور خود اندر چلے گئے۔ بیڈ روم میں فرنیچر کے نام پر بید کی دو آرام کرسیاں، ایک سیدھی سی میز، ایک رائٹنگ ٹیبل، چند کتابیں اور ایک جائے نماز۔۔۔
چھٹی حیرت یہ ہوئی کہ نائبِ امیرِ جماعتِ اسلامی، دو دفعہ کا منتخب رکنِ قومی اسمبلی، ایک دفعہ کا منتخب سینیٹر، انیس سو تہتر کی آئین ساز کمیٹی کا رکن، پی این اے اور آئی جے آئی کا سابق سیکریٹری جنرل، ستتر کے انتخابات دوبارہ کروانے کے لیے ذوالفقار علی بھٹو کی ٹیم سے مذاکرات کرنے والی اپوزیشن کمیٹی کا سربراہ، سابق وفاقی وزیرِ صنعت، چارٹرڈ اینڈ انڈسٹریل اکاؤنٹینسی کا استاد، پانچ کتابوں کا مصنف ہاتھ میں چائے کے ٹرے اور بسکٹ کی رکابی پکڑے دوسرے کمرے سے واپس آتا ہے، میز پر رکھتا ہے اور مجھ جیسے چھٹ بھئیے صحافی سے کہتا ہے کہ معاف کیجئے گا اہلیہ کی طبیعت ناساز ہے لہٰذا صرف چائے ہی میسر ہے۔۔۔
اور پھر میں ہر تیسرے چوتھے مہینے غفور صاحب کے پاس جانے لگا۔ ضعیفی کے سبب ان کی نقل و حرکت پہلے جیسی نہیں رہی تھی لہٰذا میں نے ان کی جبری فراغت سے خوب فائدہ اٹھایا۔ ان کے پاس بیٹھ کے بہت سکون ملتا تھا۔ وہ پاکستانی سیاست کے اندرون و بیرون کے ایک اہم شاہد تھے مگر مجھ جیسوں کی بچگانہ بقراطیاں بھی بات کاٹے بغیر سنتے رہتے۔
کسی بھی طرح کے سوال کا جواب دیتے وقت نہ غفور صاحب کو ادھر ادھر دیکھ کر لفظوں کو مشینی انداز سے ناپنے تولنے کی عادت تھی، نہ ہی وہ بات کو اہم اور پراسرار ثابت کرنے کے لیے سرگوشی کی اداکاری کر پاتے تھے، نہ ہی ’نو کمنٹس‘ کہہ کے بات بدلنا جانتے تھے۔
مجھے نہیں معلوم کہ جماعتِ اسلامی کی موجودہ قیادت کا جنرل ضیا کا ساتھ دینے کے بارے میں آج کیا موقف ہے۔ مگر غفور صاحب تسلیم کرتے تھے کہ پی این اے اور بھٹو صاحب میں معاہدہ طے پا جانے کے بعد فوج کی مداخلت بلاجواز، غیر ضروری اور سمجھ سے بالا تر تھی۔ وہ یہ بھی اعتراف کرتے تھے کہ جنرل ضیا کا ساتھ دینا جماعتِ کی ناسمجھی تھی۔ جماعت نےضیا اور اس کے ارادوں کو سمجھنے میں غلطی کی۔ مگر جماعت چونکہ امارت کے ڈسپلن کےتابع ہوتی ہے، لہٰذا اندرونِ خانہ تو بے چینی تھی لیکن امیر ( میاں طفیل محمد ) نے چونکہ ایک فیصلہ کر لیا تھا لہٰذا اس فیصلے کے ساتھ چلنا تنظیمی ڈسپلن کی مجبوری تھی۔
ایک ملاقات میں ان سے میں نے پوچھا کہ ذوالفقار علی بھٹو اتنے برس بعد کیسا لگتا ہے۔ ان کا جواب تھا کہ بھٹو مزاجاً فاشسٹ، خوشامد پسند اور منتقم مزاج تھا لیکن ذہین اور قوم پرست تھا اور اس نے پاکستان کے لیے بین الاقوامی سطح پر بہت کچھ کیا۔ ہر انسان میں اچھائیاں برائیاں ہوتی ہیں مگر بھٹو نے کوئی مالی کرپشن نہیں کی نہ ہی ملک کو لوٹا۔یہ رجحان تو بعد میں شروع ہوا۔
پیشہ ورانہ ضروریات کے تحت جماعتِ اسلامی اور اس کے نظریات کے شدید مخالفین سے بھی میری ملاقاتیں ہوتی تھیں اور ہوتی ہیں۔ بہت سے جماعت کی قیادت کا نام لے کر بھی اچھی بری گفتگو کرتے ہیں۔ لیکن اب تک کوئی ایک سیاستداں یا کارکن ایسا نہیں ٹکرایا جس نے غفور صاحب کی برائی یا غیبت کی ہو۔
شاید غفور صاحب ان گنے چنے سیاستدانوں کی صف کے آخری آدمی تھے جن کی اصول پسندی، آگہی، اخلاص، سادگی اور عوامیت شک و شبہے سے بالا تھی۔ موجود لوگوں میں کیا ایسا کوئی ہے ؟ شاید سردار شیر باز مزاری اور اصغر خان۔۔۔
چراغ بجھتے چلے جارہے ہیں سلسلہ وار
میں خود کو دیکھ رہا ہوں فسانہ ہوتے ہوئے
وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
یہ دلائل کے اسلحے سے لڑنے والے بامروت، وضع دار، حریفوں کی پڑھی لکھی، گرم و سرد کی آزمائش سے گذری کندن پیڑھی تھی۔ سیاست ان کا پیشہ نہیں تھا اوڑھنا بچھونا تھا۔آپ کا نظریہ بھلے کچھ بھی ہو مگر ان لوگوں سے مل کر آپ کچھ نہ کچھ سیکھ کر اٹھتے تھے، کچھ دے کر نہیں لے کر اٹھتے تھے۔ یہ سب کے سب ہر شخص کے لیے قابلِ رسائی تھے۔
ان کے آگے پیچھے نہ کلاشنکوف بردار ڈشکرے تھے، نہ ہی ہٹو بچو کی صدائیں، نہ یہ آنے والے کو طویل انتظار سے گذار کر ’دیکھو میں کتنا اہم اور مصروف آدمی ہوں‘ ثابت کرتے تھے اور نہ ہی ’برخوردار تمہیں کیا پتا میں تمھیں بتاتا ہوں‘ کے مرض میں مبتلا تھے۔
مجھے واقعی یاد نہیں کہ غفور صاحب سے پہلی بار کس تقریب میں ملا تھا۔ مگر یہ یاد ہے کہ جب ایک دفعہ ان کے گھر فون کیا تو پہلی حیرت یہ ہوئی کہ کسی سیکرٹری کے بجائے انہوں نے فون اٹھایا۔ دوسری حیرت یہ ہوئی کہ فوراً اسی روز شام کا وقت دے دیا۔تیسری حیرت یہ ہوئی کہ دروازے پر تالہ تو کجا مین گیٹ کے دونوں دروازے بھی چوپٹ تھے۔
چوتھی حیرت یہ ہوئی کہ گھنٹی کا بٹن دباتے ہی کوئی اور گیٹ پر نہیں آیا خود غفور صاحب باہر نکل آئے۔ پانچویں حیرت یہ ہوئی کہ اپنے بیڈ روم میں ایک معمولی سی مسہری پر بٹھا دیا اور خود اندر چلے گئے۔ بیڈ روم میں فرنیچر کے نام پر بید کی دو آرام کرسیاں، ایک سیدھی سی میز، ایک رائٹنگ ٹیبل، چند کتابیں اور ایک جائے نماز۔۔۔
چھٹی حیرت یہ ہوئی کہ نائبِ امیرِ جماعتِ اسلامی، دو دفعہ کا منتخب رکنِ قومی اسمبلی، ایک دفعہ کا منتخب سینیٹر، انیس سو تہتر کی آئین ساز کمیٹی کا رکن، پی این اے اور آئی جے آئی کا سابق سیکریٹری جنرل، ستتر کے انتخابات دوبارہ کروانے کے لیے ذوالفقار علی بھٹو کی ٹیم سے مذاکرات کرنے والی اپوزیشن کمیٹی کا سربراہ، سابق وفاقی وزیرِ صنعت، چارٹرڈ اینڈ انڈسٹریل اکاؤنٹینسی کا استاد، پانچ کتابوں کا مصنف ہاتھ میں چائے کے ٹرے اور بسکٹ کی رکابی پکڑے دوسرے کمرے سے واپس آتا ہے، میز پر رکھتا ہے اور مجھ جیسے چھٹ بھئیے صحافی سے کہتا ہے کہ معاف کیجئے گا اہلیہ کی طبیعت ناساز ہے لہٰذا صرف چائے ہی میسر ہے۔۔۔
اور پھر میں ہر تیسرے چوتھے مہینے غفور صاحب کے پاس جانے لگا۔ ضعیفی کے سبب ان کی نقل و حرکت پہلے جیسی نہیں رہی تھی لہٰذا میں نے ان کی جبری فراغت سے خوب فائدہ اٹھایا۔ ان کے پاس بیٹھ کے بہت سکون ملتا تھا۔ وہ پاکستانی سیاست کے اندرون و بیرون کے ایک اہم شاہد تھے مگر مجھ جیسوں کی بچگانہ بقراطیاں بھی بات کاٹے بغیر سنتے رہتے۔
کسی بھی طرح کے سوال کا جواب دیتے وقت نہ غفور صاحب کو ادھر ادھر دیکھ کر لفظوں کو مشینی انداز سے ناپنے تولنے کی عادت تھی، نہ ہی وہ بات کو اہم اور پراسرار ثابت کرنے کے لیے سرگوشی کی اداکاری کر پاتے تھے، نہ ہی ’نو کمنٹس‘ کہہ کے بات بدلنا جانتے تھے۔
مجھے نہیں معلوم کہ جماعتِ اسلامی کی موجودہ قیادت کا جنرل ضیا کا ساتھ دینے کے بارے میں آج کیا موقف ہے۔ مگر غفور صاحب تسلیم کرتے تھے کہ پی این اے اور بھٹو صاحب میں معاہدہ طے پا جانے کے بعد فوج کی مداخلت بلاجواز، غیر ضروری اور سمجھ سے بالا تر تھی۔ وہ یہ بھی اعتراف کرتے تھے کہ جنرل ضیا کا ساتھ دینا جماعتِ کی ناسمجھی تھی۔ جماعت نےضیا اور اس کے ارادوں کو سمجھنے میں غلطی کی۔ مگر جماعت چونکہ امارت کے ڈسپلن کےتابع ہوتی ہے، لہٰذا اندرونِ خانہ تو بے چینی تھی لیکن امیر ( میاں طفیل محمد ) نے چونکہ ایک فیصلہ کر لیا تھا لہٰذا اس فیصلے کے ساتھ چلنا تنظیمی ڈسپلن کی مجبوری تھی۔
ایک ملاقات میں ان سے میں نے پوچھا کہ ذوالفقار علی بھٹو اتنے برس بعد کیسا لگتا ہے۔ ان کا جواب تھا کہ بھٹو مزاجاً فاشسٹ، خوشامد پسند اور منتقم مزاج تھا لیکن ذہین اور قوم پرست تھا اور اس نے پاکستان کے لیے بین الاقوامی سطح پر بہت کچھ کیا۔ ہر انسان میں اچھائیاں برائیاں ہوتی ہیں مگر بھٹو نے کوئی مالی کرپشن نہیں کی نہ ہی ملک کو لوٹا۔یہ رجحان تو بعد میں شروع ہوا۔
پیشہ ورانہ ضروریات کے تحت جماعتِ اسلامی اور اس کے نظریات کے شدید مخالفین سے بھی میری ملاقاتیں ہوتی تھیں اور ہوتی ہیں۔ بہت سے جماعت کی قیادت کا نام لے کر بھی اچھی بری گفتگو کرتے ہیں۔ لیکن اب تک کوئی ایک سیاستداں یا کارکن ایسا نہیں ٹکرایا جس نے غفور صاحب کی برائی یا غیبت کی ہو۔
شاید غفور صاحب ان گنے چنے سیاستدانوں کی صف کے آخری آدمی تھے جن کی اصول پسندی، آگہی، اخلاص، سادگی اور عوامیت شک و شبہے سے بالا تھی۔ موجود لوگوں میں کیا ایسا کوئی ہے ؟ شاید سردار شیر باز مزاری اور اصغر خان۔۔۔
چراغ بجھتے چلے جارہے ہیں سلسلہ وار
میں خود کو دیکھ رہا ہوں فسانہ ہوتے ہوئے