محمد منظور فرید
محفلین
غلاف کعبہ تیری عظمتوں کا کیا کہنا
عروس حسن ازل کا لباس نور ہے تو
گناہ گار تیرا کیوں نہ چوم لے دامن
امین رازِ وفا جلوہ زار طور ہے تو
کمال فرض کا پیکر ہے تیری ہستی بھی
کسی کی یاد میں خود کو مٹا دیا تو نے
ہرآن سینہ سپر ہےحرم کی خدمت میں
دلوں میں نقش محبت جما دیا تو نے
یہ تیراجزبہ خدمت ہےرشک کےقابل
غبار دامن کعبہ کٹا نہیں سکتا
حوادثات کے طوفاں ہزار ٹکرائے
تواپنےفرض کولیکن بھلا نہیں سکتا
تجھےنصیب ہےقربت حرم کےسینےسے
حریم حسن عقیدت کا راز دار ہے تو
ہےتیرا مقصد ہستی حرم کی زیبائش
نگار حسن وتجلی کا پردہ دار ہے تو
درِحرم کے محافظ ادائے فرض اقبال
جہاں بھی اہل وفاتجھکودیکھ پائیں گے
سکون قلب کی خاطرلگا کےسینےسے
ہر ایک تار تیرا تار جاں بنائیں گے
غلاف کعبہ قسم مجھ کو رب کعبہ کی
تجھےجودیکھاتوآنکھوںمیں اشک بھرآئے
تصورات کی دنیا میں ایک ہلچل ہے
جو دل میں داغ تھے پوشیدہ وہ نکھر آئے
نہ پوچھ مجھ سےکہ میں گم ہوں کن خیالوں میں
گزر رہی ہے جو دل پر بتا نہیں سکتا
ٹپک رہے ہیں یہ کیوں اشک آج آنکھوں سے
تیری نظر سے نظر کیوں ملا نہیں سکتا
یہ سوچتا ہوں بھلا مجھ کو تجھ سے کیا نسبت
زمین عجز ہوں میں رشک آسماں تو ہے
میں ایک راہ محبت کا راہ گم گردا
حریم منزل محبوب کا نشان ہے تو
تھا میرا فرض حرم کا پیام پہنچانا
چمن میں,دشت میں, صحرامیں, خشک میں, تر میں
حرم سے خیر کی دولت لیئے ہوئے نکلا
الجھ کے رہ گیا لیکن میں دامن شر میں
گناہ گار محبت ہوں اے غلاف حرم
کھڑا ہوں شرم وندامت سے سر جھکائے ہوئے
مجھے سنبھال خدا کیلئے سنبھال مجھے
شکستہ دل ہوں قدم بھی ہیں لڑکھڑائے ہوئے
ادا شناس وفا اے حرم کے پیراہن
میرے لیئے بھی سر ملتزم دعا کرنا
عطا ہوپھرمجھےاحساس فرض کی دولت
نصیب پھر ہو حرم سے مجھے وفا کرنا
دیار حسن وتجلی کےراہ رو تجھ پر
یہ چند اشک ندامت نثار کرتا ہوں
خزاں نصیب چمن ہوں میں اے نصیب حرم
دعائے آمد وفصلِ بہار کرتا ہوں....!!!
عروس حسن ازل کا لباس نور ہے تو
گناہ گار تیرا کیوں نہ چوم لے دامن
امین رازِ وفا جلوہ زار طور ہے تو
کمال فرض کا پیکر ہے تیری ہستی بھی
کسی کی یاد میں خود کو مٹا دیا تو نے
ہرآن سینہ سپر ہےحرم کی خدمت میں
دلوں میں نقش محبت جما دیا تو نے
یہ تیراجزبہ خدمت ہےرشک کےقابل
غبار دامن کعبہ کٹا نہیں سکتا
حوادثات کے طوفاں ہزار ٹکرائے
تواپنےفرض کولیکن بھلا نہیں سکتا
تجھےنصیب ہےقربت حرم کےسینےسے
حریم حسن عقیدت کا راز دار ہے تو
ہےتیرا مقصد ہستی حرم کی زیبائش
نگار حسن وتجلی کا پردہ دار ہے تو
درِحرم کے محافظ ادائے فرض اقبال
جہاں بھی اہل وفاتجھکودیکھ پائیں گے
سکون قلب کی خاطرلگا کےسینےسے
ہر ایک تار تیرا تار جاں بنائیں گے
غلاف کعبہ قسم مجھ کو رب کعبہ کی
تجھےجودیکھاتوآنکھوںمیں اشک بھرآئے
تصورات کی دنیا میں ایک ہلچل ہے
جو دل میں داغ تھے پوشیدہ وہ نکھر آئے
نہ پوچھ مجھ سےکہ میں گم ہوں کن خیالوں میں
گزر رہی ہے جو دل پر بتا نہیں سکتا
ٹپک رہے ہیں یہ کیوں اشک آج آنکھوں سے
تیری نظر سے نظر کیوں ملا نہیں سکتا
یہ سوچتا ہوں بھلا مجھ کو تجھ سے کیا نسبت
زمین عجز ہوں میں رشک آسماں تو ہے
میں ایک راہ محبت کا راہ گم گردا
حریم منزل محبوب کا نشان ہے تو
تھا میرا فرض حرم کا پیام پہنچانا
چمن میں,دشت میں, صحرامیں, خشک میں, تر میں
حرم سے خیر کی دولت لیئے ہوئے نکلا
الجھ کے رہ گیا لیکن میں دامن شر میں
گناہ گار محبت ہوں اے غلاف حرم
کھڑا ہوں شرم وندامت سے سر جھکائے ہوئے
مجھے سنبھال خدا کیلئے سنبھال مجھے
شکستہ دل ہوں قدم بھی ہیں لڑکھڑائے ہوئے
ادا شناس وفا اے حرم کے پیراہن
میرے لیئے بھی سر ملتزم دعا کرنا
عطا ہوپھرمجھےاحساس فرض کی دولت
نصیب پھر ہو حرم سے مجھے وفا کرنا
دیار حسن وتجلی کےراہ رو تجھ پر
یہ چند اشک ندامت نثار کرتا ہوں
خزاں نصیب چمن ہوں میں اے نصیب حرم
دعائے آمد وفصلِ بہار کرتا ہوں....!!!