غلامی کی نئی دستاویز ۔ حامد میر

محمداحمد

لائبریرین
یہ زیادہ پرانی بات نہیں…یہ اس دن کی بات ہے جب صدر آصف علی زرداری امریکہ کے دورے پر روانہ ہوئے اور اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے کو سیکورٹی فراہم کرنے والے ایک پرائیویٹ ادارے کے دفتر پر چھاپہ مارا گیا۔ چھاپہ مارنے کا فیصلہ ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں کیا گیا جس میں تین بڑے خفیہ اداروں نے اسلام آباد میں امریکیوں کی پراسرار سرگرمیوں کے بارے میں اپنی اپنی رپورٹیں پیش کیں۔ یہ رپورٹیں سامنے آنے کے بعد اجلاس میں موجود وزیر داخلہ رحمٰن ملک کو پانی سر سے اوپر جاتا ہوا محسوس ہوا اور انہوں نے فوری طور پر انٹر رسک نامی پرائیویٹ سیکورٹی ایجنسی کے دفتر پر چھاپے مارنے کا حکم دیدیا کیونکہ اطلاعات کے مطابق اس ادارے سے وابستہ کچھ سابق فوجی افسران ایک امریکی ادارے کے ساتھ مل کر پاکستان میں جاسوسی کا ایک نیٹ ورک بنا رہے تھے۔ جس دن اسلام آباد میں انٹر رسک کے دفتر پر چھاپہ مارا گیا اس دن اسلام آباد کی سڑکوں پر ایسی درجنوں جیپیں نمودار ہوئیں جن میں مسلح گورے ہتھیاروں سمیت موجود تھے۔ ان جیپوں میں سوارگورے عام طور پر ٹریفک قوانین کی کوئی پروا نہیں کرتے اس وقت ایف سکس کے علاقے میں ایک چوراہے پر ریڈ سگنل کے باعث ٹریفک بند تھی لیکن ایک جیپ میں سوار گورے اپنے آگے موجود گاڑیوں کو ہٹانے کیلئے مسلسل ہارن بجائے جا رہے تھے۔ کچھ گاڑیاں ہٹ گئیں لیکن ایک گاڑی والے نے گوروں کو راستہ دینے سے انکار کردیا۔ اس گستاخی پر ایک مسلح گورا جیپ سے نیچے اترا اور اپنے آگے موجود گاڑی کے ڈرائیور کو باہر آنے کیلئے کہا۔ ڈرائیور نے شیشہ اوپرچڑھا دیا اور گورے کو نظر انداز کردیا۔ یہ دیکھ کر گورے نے اپنے ہتھیار سے گاڑی کے شیشے کو کھٹکھٹانا شروع کردیا۔ شاید پاکستانی ڈرائیور اس صورت حال کیلئے تیار تھا۔ اس نے اپنی گاڑی کے ڈیش بورڈ سے پستول نکالا اور گورے کو دکھا کر اپنی جھولی میں رکھ لیا۔ اس دوران ٹریفک سگنل کی لائٹ گرین ہوچکی تھی لیکن گوروں نے پاکستانی ڈرائیور کو گھیر لیا اور اپنے مزید ساتھی بلا لئے۔ موقع پر ہجوم اکٹھا ہوچکا تھا۔ یہ پاکستانی ڈرائیور پیپلز پارٹی کے ایک سینیٹر کا بھتیجا تھا اور لائسنس یافتہ ہتھیار کے ساتھ گوروں کو آنکھیں دکھا رہا تھا۔ مسلح گورے اسے اپنے ساتھ ”بیس کیمپ چلنے کیلئے کہہ رہے تھے لیکن پاکستانی نوجوان انکاری تھا۔ پولیس موقع پر پہنچ چکی تھی۔ پولیس نے گوروں سے ان کے ہتھیاروں کے لائسنس مانگے لیکن انہوں نے لائسنس دکھانے سے انکار کردیا جبکہ پاکستانی نوجوان نے فوراً اپنا لائسنس دکھا دیا۔ گورے مصر تھے کہ پاکستانی نوجوان کو تحقیقات کے لئے ان کے ساتھ جانا ہوگا لیکن اسلام آباد پولیس کے ایک افسر نے گوروں سے کہا کہ وہ ایسا نہیں کرسکتے اور یوں سینیٹر کا بھتیجا گمشدہ افراد کی فہرست میں شامل ہونے سے بال بال بچ گیا۔ مجبوراً گورے اس نوجوان کے بغیر ہی موقع سے چلے گئے۔

معاملہ یہیں ختم نہیں ہوا۔ اگلے دن اس نوجوان کو ایف ایٹ کے ایک پٹرول پمپ پر انہی گوروں نے دوبارہ گھیر لیا اور اس کی تصاویر بنا کر موقع سے غائب ہوگئے۔ اس قسم کے واقعات آئے دن اسلام آباد میں پیش آ رہے ہیں۔ اسلام آباد پولیس شدید دباؤ میں ہے۔ دہشت گردوں کی کارروائی روکنے کیلئے اسلام آباد پولیس نے شہر میں جگہ جگہ ناکے لگا رکھے ہیں ان ناکوں پر جب عام پاکستانی یہ دیکھتے ہیں کہ ان کی گاڑیوں کی تلاشی تو لی جاتی ہے لیکن کالے شیشوں والی بڑی جیپوں کو چھوڑ دیا جاتا ہے تو وہ اپنی پولیس پر برسنے لگتے ہیں۔ ایک طرف اسلام آباد میں ایک پرائیویٹ سیکورٹی ایجنسی کے دفتر پر چھاپہ مار کر بڑی تعداد میں ناجائز اسلحہ برآمد کیا جاتا ہے اور ایجنسی کا این او سی منسوخ کردیا جاتا ہے لیکن دوسری طرف اسی شہر میں جیپوں پر ہتھیار لیکر گھومنے والے گوروں کو روکنے والا کوئی نہیں۔

کیا اسلام آباد میں غیر ملکیوں کیلئے قانون کی پابندی ختم ہوچکی ہے؟ اگر ہم واشنگٹن یا لندن جا کر وہاں کے قانون کی پابندی کرتے ہیں تو وہاں کے رہنے والے ہمارے ملک میں آ کر پاکستانی قوانین کی پابندی کیوں نہیں کرتے؟ امریکی حکومت بار بار تردید کررہی ہے کہ پاکستان میں بلیک واٹر کا کوئی وجود نہیں لیکن پاکستان کے بچے بچے کو پتہ چل چکا ہے کہ بلیک واٹر کا نام بدل دیا گیا ہے اور اب ایک امریکی پرائیویٹ سیکورٹی ایجنسی نہیں بلکہ کم از کم تین امریکی پرائیویٹ سیکورٹی ایجنسیاں پاکستان میں سرگرم ہیں۔ امریکی حکام دراصل پاکستان کو افغانستان سمجھ بیٹھے ہیں۔ امریکیوں کا خیال ہے کہ جس طرح ان کے اہلکار کابل میں اسلحہ کے ساتھ جیپوں میں بلاروک ٹوک گھوم سکتے ہیں اسی طرح اسلام آباد میں گھومنا ان کا حق ہے۔ انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ وہ افغانستان میں اقوام متحدہ کی ایک قرارداد کی آڑ لیکر داخل ہوئے تھے اور شمالی اتحاد نے انہیں خوش آمدید کہا تھا۔ پاکستان میں امریکی فوج کے داخلے کو جائز ثابت کرنے کے لئے نہ تو اقوام متحدہ کی کوئی قرارداد موجود ہے اور نہ ہی پاکستان میں امریکیوں کو خوش آمدید کہنے کے لئے کوئی شمالی اتحاد موجود ہے۔ اسلام آباد میں امریکیوں کی مشکوک سرگرمیاں امریکہ کے اپنے مفاد کیلئے خطرات پیدا کررہی ہیں کیونکہ اسلام آباد کے پڑھے لکھے اور معتدل مزاج طبقے میں امریکیوں کے خلاف بڑھتی ہوئی بے چینی نہ تو امریکہ کے فائدے میں ہے اور نہ ہی نئی جمہوری حکومت کے فائدے میں ہے جس کے گلے میں کیری لوگر بل کا پھندا ڈال دیا گیا ہے۔ سچی بات ہمیشہ کڑوی ہوتی ہے اور سچائی یہ ہے کہ کیری لوگر بل کے باعث پاکستان میں ایک طرف امریکہ کے خلاف منفی جذبات میں مزید اضافہ ہوگا اور دوسری طرف صدر آصف علی زرداری کی ساکھ کو بھی مزید نقصان پہنچے گا۔ اس بل کے تحت پاکستانی سیاست میں فوج کی مداخلت کو روکنے کی کوشش بالکل درست ہے کیونکہ ماضی میں امریکہ نے ہر پاکستانی فوجی ڈکٹیٹر کی حمایت کی لیکن اس بل کے ذریعہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان تک رسائی کی کوششوں کو پاکستان میں پذیرائی نہیں مل سکتی۔ امریکہ نے اس بل کے ذریعہ افغانستان میں اتحادی افواج پر حملوں میں ملوث عناصر کے خلاف پاکستان میں کارروائی کا تقاضا کیا ہے لیکن کیا پاکستان نے افغانستان میں بھارت کے ان تربیتی کیمپوں کو بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے جو امریکہ کی ناک کے نیچے چلائے جا رہے ہیں؟ عام پاکستانی یہ سمجھتا ہے کہ امریکہ کی پالیسیاں ان کی سلامتی کیلئے خطرہ بنتی جارہی ہیں۔ پاکستانیوں کو امریکہ کے ساتھ دوستانہ تعلقات پر کوئی اعتراض نہیں لیکن امریکہ کی غلامی ننانوے اعشاریہ نو فیصد پاکستانیوں کو کسی قیمت پر قبول نہیں۔ کیری لوگر بل دوستی کی نہیں غلامی کی دستاویز ہے اور پاکستان کی پارلیمینٹ کو یہ دستاویز مسترد کردینی چاہئے۔
 
اپنی قیمت بڑھانےکی بات ہے
ورنہ پاکستانی تو ترلے کرکے غلامی کرنے پر تیار ہیں
دیکھ لینا لوگر کی شرائط کیسے خوشی خوشی مانتے ہیں۔ پہلے ہی پاکستانی سفیر امریکہ نے کہہ دیا ہے کہ لوگر امریکی حکومت پر شرائط عائد کرتا ہے پاکستان پر نہیں‌ تو پھر ججھک کیسی۔
نوکری کی تو نخرہ کیا؟
 

محمداحمد

لائبریرین
سمجھ نہیں آتا اس دفعہ حکومت، اپوزیشن اور جماعت اسلامی جیسی احتجاج پسند جماعت سب ایک ساتھ کیسے فروخت ہوگئے؟ اچھی بڑی قیمت لگی ہوگی یقیناً۔

رہی ایم کیو ایم تو وہ بولتے ہی جب ہیں جب اُن کے اپنے مفاد پر ضرب لگے پاکستان سے اُنہیں کیا لینا دینا۔


 

محمداحمد

لائبریرین
حیراں ہوں‌ دل کو پیٹوں کے روؤں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں، نوحہ گر کو میں

زرداری صاحب، بہادر شاہ ظفر کا کردار احسن طریقے سے نبھا رہے ہیں۔
 

محمداحمد

لائبریرین
امریکی اشیرباد کے بغیر تو یہ صاحب بھی ہرگز نہیں آ سکتے تھے۔

رہی عوام! تو وہ تو یوں بھی لائنوں میں لگ کر آٹا اور چینی خرید رہی ہے، بجلی کی کنڈے لگا رہی ہے ۔ عوام کو یوں بھی کوئی خبر نہیں ہے کسی سُن گن پہ تشویش ہوتی بھی ہے تو وہ بھی اپنا ہی دل مسوس کر رہ جاتی ہے۔

یعنی قہرِ درویش برجانِ درویش
 

زیک

مسافر
ان جیپوں میں سوارگورے عام طور پر ٹریفک قوانین کی کوئی پروا نہیں کرتے اس وقت ایف سکس کے علاقے میں ایک چوراہے پر ریڈ سگنل کے باعث ٹریفک بند تھی لیکن ایک جیپ میں سوار گورے اپنے آگے موجود گاڑیوں کو ہٹانے کیلئے مسلسل ہارن بجائے جا رہے تھے۔ کچھ گاڑیاں ہٹ گئیں لیکن ایک گاڑی والے نے گوروں کو راستہ دینے سے انکار کردیا۔ اس گستاخی پر ایک مسلح گورا جیپ سے نیچے اترا اور اپنے آگے موجود گاڑی کے ڈرائیور کو باہر آنے کیلئے کہا۔ ڈرائیور نے شیشہ اوپرچڑھا دیا اور گورے کو نظر انداز کردیا۔ یہ دیکھ کر گورے نے اپنے ہتھیار سے گاڑی کے شیشے کو کھٹکھٹانا شروع کردیا۔

پاکستانی جرنیل اور ان کے حواری تو یہ کام بہت سالوں سے کرتے آئے تھے ان اوروں (گوروں؟) نے بھی شروع کر دیا۔ :rolleyes:
 

فرخ منظور

لائبریرین
پاکستانی جرنیل اور ان کے حواری تو یہ کام بہت سالوں سے کرتے آئے تھے ان اوروں (گوروں؟) نے بھی شروع کر دیا۔ :rolleyes:

میرے خیال میں آپ کو برصغیر کی تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہیے کہ گورے، مقامیوں سے کیا رویہّ اختیار کرتے تھے۔ شاید اب پاکستان دوبارہ گوروں کی کالونی بننے جا رہا ہے۔ ظاہر ہے جب ہم بے دریغ امداد لیں گے تو چاہے کوئی سگا بھائی بھی امداد دے وہ ہم کو اپنے سے کمتر ہی سمجھے گا۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

ميں نے کبھی يہ دعوی نہيں کيا کہ امريکی امداد پاکستانی قوم کی تقدير بدل سکتی ہے۔ يہ توقع بھی حقيقت پر مبنی نہيں ہے کہ امريکہ پاکستان کو کوئ ايسا نظام دے سکتا ہے جس کی بدولت پاکستان کو درپيش تعليم، بجلی، خوراک اور صحت سے متعلق تمام مسائل حل کيے جا سکتے ہيں۔ اس ضمن ميں فيصلہ کن کردار اور ذمہ داری پاکستانی عوام، ان کے منتخب قائدين اور پارليمنٹ ميں موجود ان افراد کی ہے جو قانون بناتے ہيں۔ اسی مقصد کے لیے انھيں ووٹ ڈالے جاتے ہيں۔

امريکی امداد کا مقصد ذرائع اور وسائل کا اشتراک اور ترسيل ہے جس کی بدولت ممالک کے مابين مضبوط تعلقات استوار کيے جا سکيں۔ عالمی سطح پر دو ممالک کے درميان تعلقات کی نوعيت اس بات کی غماز ہوتی ہے کہ باہمی مفاد کے ايسے پروگرام اور مقاصد پر اتفاق رائے کیا جائے جس سے دونوں ممالک کے عوام کو فائدہ پہنچے۔ اسی تناظر ميں وہی روابط برقرار رہ سکتے ہيں جس ميں دونوں ممالک کا مفاد شامل ہو۔ دنيا ميں آپ کے جتنے دوست ہوں گے، عوام کے معيار زندگی کو بہتر کرنے کے اتنے ہی زيادہ مواقع آپ کے پاس ہوں گے۔ اس اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے امداد کے عالمی پروگرامز دو ممالک کے عوام کے مفاد اور بہتر زندگی کے مواقع فراہم کرنے کے ليے ايک دوسرے کی مشاورت سے تشکيل ديے جاتے ہيں۔

موجودہ دور ميں جبکہ ساری دنيا ايک "گلوبل وليج" کی شکل اختيار کر چکی ہے پاکستان جيسے نوزائيدہ ملک کے ليے امداد کا انکار کسی بھی طرح عوام کی بہتری کا سبب نہيں بن سکتا۔ يہ بھی ياد رہے کہ يہ بھی باہمی امداد کے پروگرامز کا ہی نتيجہ ہے پاکستانی طالب علم اور کاروباری حضرات امريکہ سميت ديگر ممالک کا سفر کرتے ہيں اور وہاں سے تجربہ حاصل کر کے پاکستانی معاشرے کی بہتری کا موجب بنتے ہيں۔

پاکستان وہ واحد ملک نہيں ہے جسے امريکی امداد ملتی ہے۔ کئ ممالک اس امداد سے استفادہ حاصل کرتے ہيں۔ اس کے علاوہ يہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ امداد صرف امريکی حکومت ہی فراہم نہيں کرتی بلکہ کئ نجی تنظيميں اور ادارے بھی اس ضمن ميں کليدی کردار ادا کرتے ہیں۔

امريکی امداد کی پاکستان ميں تقسيم اور اس عمل میں کرپشن کے حوالے سے سوالات اور تحفظات جائز اور انصاف پر مبنی ہيں۔ يہ نقطہ يقينی طور پر قابل توجہ ہے کہ مالی بے ضابطگيوں کے سبب بعض اوقات يہ امداد علاقے کے غريب لوگوں تک نہيں پہنچ پاتی۔ حقيقت يہ ہے کہ 100 فيصد کرپشن سے پاک نظام جس ميں ہر چيز قاعدے اور قانون کے مطابق ہو، ممکن نہيں ہے۔ ليکن يہ حقيقت دنيا کے تمام ممالک اور اداروں پر لاگو ہوتی ہے۔ مالی بے ضابطگياں ہر جگہ ہوتی ہيں۔ ليکن يہ بھی ناقابل ترديد حقيقت ہے کہ اس امداد کی وجہ سے بہت سے مستحق لوگوں کے حالات زندگی بہتر کرنے ميں مدد ملتی ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

فرخ منظور

لائبریرین
ميں نے کبھی يہ دعوی نہيں کيا کہ امريکی امداد پاکستانی قوم کی تقدير بدل سکتی ہے۔ يہ توقع بھی حقيقت پر مبنی نہيں ہے کہ امريکہ پاکستان کو کوئ ايسا نظام دے سکتا ہے جس کی بدولت پاکستان کو درپيش تعليم، بجلی، خوراک اور صحت سے متعلق تمام مسائل حل کيے جا سکتے ہيں۔ اس ضمن ميں فيصلہ کن کردار اور ذمہ داری پاکستانی عوام، ان کے منتخب قائدين اور پارليمنٹ ميں موجود ان افراد کی ہے جو قانون بناتے ہيں۔ اسی مقصد کے لیے انھيں ووٹ ڈالے جاتے ہيں۔

امريکی امداد کا مقصد ذرائع اور وسائل کا اشتراک اور ترسيل ہے جس کی بدولت ممالک کے مابين مضبوط تعلقات استوار کيے جا سکيں۔ عالمی سطح پر دو ممالک کے درميان تعلقات کی نوعيت اس بات کی غماز ہوتی ہے کہ باہمی مفاد کے ايسے پروگرام اور مقاصد پر اتفاق رائے کیا جائے جس سے دونوں ممالک کے عوام کو فائدہ پہنچے۔ اسی تناظر ميں وہی روابط برقرار رہ سکتے ہيں جس ميں دونوں ممالک کا مفاد شامل ہو۔ دنيا ميں آپ کے جتنے دوست ہوں گے، عوام کے معيار زندگی کو بہتر کرنے کے اتنے ہی زيادہ مواقع آپ کے پاس ہوں گے۔ اس اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے امداد کے عالمی پروگرامز دو ممالک کے عوام کے مفاد اور بہتر زندگی کے مواقع فراہم کرنے کے ليے ايک دوسرے کی مشاورت سے تشکيل ديے جاتے ہيں۔

موجودہ دور ميں جبکہ ساری دنيا ايک "گلوبل وليج" کی شکل اختيار کر چکی ہے پاکستان جيسے نوزائيدہ ملک کے ليے امداد کا انکار کسی بھی طرح عوام کی بہتری کا سبب نہيں بن سکتا۔ يہ بھی ياد رہے کہ يہ بھی باہمی امداد کے پروگرامز کا ہی نتيجہ ہے پاکستانی طالب علم اور کاروباری حضرات امريکہ سميت ديگر ممالک کا سفر کرتے ہيں اور وہاں سے تجربہ حاصل کر کے پاکستانی معاشرے کی بہتری کا موجب بنتے ہيں۔

پاکستان وہ واحد ملک نہيں ہے جسے امريکی امداد ملتی ہے۔ کئ ممالک اس امداد سے استفادہ حاصل کرتے ہيں۔ اس کے علاوہ يہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ امداد صرف امريکی حکومت ہی فراہم نہيں کرتی بلکہ کئ نجی تنظيميں اور ادارے بھی اس ضمن ميں کليدی کردار ادا کرتے ہیں۔

امريکی امداد کی پاکستان ميں تقسيم اور اس عمل میں کرپشن کے حوالے سے سوالات اور تحفظات جائز اور انصاف پر مبنی ہيں۔ يہ نقطہ يقينی طور پر قابل توجہ ہے کہ مالی بے ضابطگيوں کے سبب بعض اوقات يہ امداد علاقے کے غريب لوگوں تک نہيں پہنچ پاتی۔ حقيقت يہ ہے کہ 100 فيصد کرپشن سے پاک نظام جس ميں ہر چيز قاعدے اور قانون کے مطابق ہو، ممکن نہيں ہے۔ ليکن يہ حقيقت دنيا کے تمام ممالک اور اداروں پر لاگو ہوتی ہے۔ مالی بے ضابطگياں ہر جگہ ہوتی ہيں۔ ليکن يہ بھی ناقابل ترديد حقيقت ہے کہ اس امداد کی وجہ سے بہت سے مستحق لوگوں کے حالات زندگی بہتر کرنے ميں مدد ملتی ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

سڈنی شیلڈن کا ایک چھوٹا سا ناول Windmills of the gods پڑھ لیں تو امریکہ کی سیاست آپ پر واضح ہو جائے گی۔
 
امداد پاکستانی قوم کی تقدير بدل نہیں سکتی ۔ پاکستانی قوم کو خود محنت کرنا ہوگی تاکہ ہم بھی غیروں کو آنکھیں دکھا سکیں
 

آبی ٹوکول

محفلین
بل امریکن سینٹ نے پاس کیا کہ جس کہ ہر ہر رکن نے امریکی مفادات کے تحفظ کی قسم کھا رکھی ہے تو ایسے میں ایسا بل پاکستان کے لیے کیسے مفید ہوسکتا ہے للوز ۔ ۔ ۔ ۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

بل امریکن سینٹ نے پاس کیا کہ جس کہ ہر ہر رکن نے امریکی مفادات کے تحفظ کی قسم کھا رکھی ہے تو ایسے میں ایسا بل پاکستان کے لیے کیسے مفید ہوسکتا ہے للوز ۔ ۔ ۔ ۔

اس ميں کوئ شک نہيں کہ کيری لوگر بل کانگريس کی جانب سے منظور کيا گيا ہے اور کانگريس کے ہر رکن نے دنيا بھر ميں امريکہ کے تحفظ کا حلف اٹھا رکھا ہے۔ ليکن اہم نقطہ يہ ہے کہ آج کے جديد دور ميں دنيا کے لیے "گلوبل وليج" کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے جہاں رونما ہونے والے واقعات اور ترقی کے مواقعوں کا اثر ہر جگہ محسوس کيا جاتا ہے۔

اس حقیقت کو مد نظر رکھتے ہوئے دنيا بھر ميں امريکی مفادات کے تحفظ کو کس طرح يقينی بنايا جا سکتا ہے؟

باہمی مفادات اور دوستی کے اصولوں پر مبنی ديرپا تعلقات کا فروغ يا متنوع ثقافت اور روايات کے حامل معاشروں سے قطع تعلق اور اس کے نتيجے ميں عالمی سطح پر تنہائ؟

جيسا کہ صدر اوبامہ نے اقوام متحدہ کی جرنل اسمبلی ميں اپنی تقرير کے دوران يہ واضح کيا تھا کہ "ہم مثبت روابط کی کوششيں جاری رکھيں گے جس کے نتيجے ميں مختلف مذاہب کے مابين رائج رکاوٹيں دور کرنے کے علاوہ ترقی کے ضمن ميں نئ شراکت داری کے مواقع ميسر آتے ہيں"۔

پاکستان کے ساتھ ہمارے تعلقات کی کاميابی صرف اسی صورت ميں ممکن ہے جب يہ ديرپا اور امريکہ اور پاکستان ميں متفقہ سياسی حمايت کے نتيجے ميں تشکيل پائيں۔ کيری لوگر بل اسی مقصد کے حصول کی جانب ايک اہم پيش رفت ہے کيونکہ اس سے دونوں ممالک کے عوام کو فائدہ پہنچے گا۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

عسکری

معطل
لعنت ہے حکومت فوج عوام پر جو 200 گورے 14 کروڑ پاکستانیوں کے ساتھ ایسا کر رہے ہیں ان کے اپنے ملک میں اور کیا فرق ہے عراق پاکستان مین؟
 

عسکری

معطل
جب مکہ پر دہشت گرد کاروائی ہوئی تھے پاکستانی عوام نے امریکی سفارت خانہ مسمار کر دیا تھا ۔جبکہ اس کی کوئی ضرورت نہیں تھی آج جب امریکی سفارت خانے کو اسلام آباد کے نقشے سے مٹانے کی اشد ضرارت ہے کوئی مولوی صحافی وکیل سیاستدان سٹوڈنٹ باہر نہیں نکل رہا ۔اگر ایسا رہا تو آنے والے دنوں میں یہ گورے گھر گھر تلاشیاں ریپ فائرنگ اغوا کریں گے تب کیا ہو گا؟
 

arifkarim

معطل
امداد پاکستانی قوم کی تقدير بدل نہیں سکتی ۔ پاکستانی قوم کو خود محنت کرنا ہوگی تاکہ ہم بھی غیروں کو آنکھیں دکھا سکیں

پاکستانیوں کو کیا ضرورت ہے کچھ کرنے کے کی؟ آپکے الطاف بھائی تو ویسے ہی ہر پاکستانی کی آنکھیں نکال دیتے ہیں :grin:

اور یہ غلامی کی دستاویزات 1949 میں شائع ہونی چاہئے تھیں جب ایوب انکل امریکیوں کیساتھ تعلقات بڑھا رہے تھے۔ 2009 میں پاکستان کا بدحال 1949 سے شروع ہوا تھا! :laughing:
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team - US State Department

کيری لوگر بل جس کے تحت آئندہ پانچ سالوں ميں پاکستان کی سالانہ ترقياتی امداد ميں ڈيڑھ ارب ڈالر تک کا تخمينہ لگايا گيا ہے، دونوں ممالک کے مابين مضبوط تعلقات قائم کرنے کی کوششوں کے ضمن ميں اہم قدم ہے

يہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ ميڈيا پر بعض عناصر کی جانب سے ديے جانے والے تاثر کے برعکس کيری لوگر بل دراصل پاکستان کی معاشی اور ترقياتی امداد اور ديرپا تعلقات کے ضمن ميں صرف ايک کڑی ہے۔

آج ہی امريکہ اور پاکستان کی حکومتوں نے صحت عامہ، تعليم، حکمرانی اور 2005 کے زلزلہ سے متاثرہ علاقوں ميں تعمير نو کے منصوبوں کے لیے 899 ملين ڈالر ماليت کے سمجھوتوں پر دستخط بھی کيے ہيں۔ اس اعانت سے رواں سال کے دوران يو – ايس ايڈ کے ذريعے دی جانے والی امداد کی کل ماليت 920 ملين ڈالرز ہو جائے گی۔

ان فنڈز کا ايک بڑا حصہ حکومت پاکستان اور غير سرکاری اداروں کو پروگراموں پر عمل درآمد کے لیے ديا جائے گا۔ ان سمجھوتوں میں بے نظير انکم سپورٹ پروگرام، اندرون ملک بے گھر ہونے والے افراد کی آمدن ميں اعانت کے پروگرام اور ہائيرايجوکيشن کميشن کے تحت ٹيکنيکل اور ووکيشنل تعليمی سرگرميوں کے لیے 174 ملين ڈالر کی براہراست بجٹ اعانت شامل ہے۔

پاکستان ميں امريکہ کے نائب سفير جيرالڈفيرسٹائن نے کہا ہے کہ يہ سمجھوتے امريکہ کے اس مصمم عزم کو ظاہر کرتے ہيں جس کے تحت وہ خدمات کی بہتر فراہمی کے ذريعے پاکستانی شہريوں کا معيار زندگی بلند کرنے کے لیے مدد فراہم کرتا ہے۔ ان سمجھوتوں کے تحت امريکہ توانائ کے شعبے سميت معاشی ترقی کی شرح بڑھانے والے شعبوں کے لیے وسائل ميں اضافہ کرے گا۔ يہ اشد ضروری امداد صحت عامہ، تعليم، حکمرانی، انسانی ہمدردی کی بنيادوں پر مہيا کی جانے والی اعانت اور 2005 کے زلزلے سے متاثر ہونے والے علاقوں کی تعمير نو جيسے ترجيحی شعبوں ميں بھی مدد دے گی۔

يہ سمجھوتے پاکستان کے ساتھ اضافی شراکت داری کے ايکٹ 2009 جسے عام طور پر کيری لوگر بل بھی کہا جاتا ہے، کے علاوہ ہيں۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 
Top