غلطی ہائے مضامین: اس عمر میں بھی ’’سمجھ نہیں آئی‘‘ تو کب آئے گی؟ ابو نثر

اس عمر میں بھی ’’سمجھ نہیں آئی‘‘ تو کب آئے گی؟
ابو نثر (احمد حاطب صدیقی)

چند روز پہلے کی بات ہے، ایک دانا و بینا دانشور نہایت سنجیدگی سے برسرِ ٹیلی وژن یہ اعتراف کرتے نظر آئے کہ:۔
’’مجھے سمجھ نہیں آئی‘‘۔
ہم تو دنگ ہی رہ گئے۔ ہمارا تجربہ اور مشاہدہ تو یہ ہے (آپ کا بھی ہو گا) کہ ناسمجھ بچہ جب اپنے بچپن سے لڑکپن کی طرف پیش قدمی کرنے لگتا ہے تب ہی سے ’’سمجھ آنا‘‘ شروع ہوجاتی ہے۔ ہوتے ہوتے لڑکا اچھا خاصا سمجھ دار ہو جاتا ہے۔ پھر ایک دن ماں باپ کو اس کے بیاہ کی فکر لاحق ہو جاتی ہے کہ مُنڈا سمجھ دار ہوگیا ہے، اب اس کو کسی کھونٹے سے باندھ دینا چاہیے۔ ہم حیران تھے کہ بزرگوار کو اس عمر میں بھی ’’سمجھ نہیں آئی‘‘ تو آخر کب آئے گی؟ پھر یہ سوچ کر چپ ہو رہے کہ سمجھ آئے بغیر جہاں انھوں نے اتنی عمر گزار لی ہے، وہیں باقی بھی بسر کرلیں گے۔
’’سمجھ‘‘ کا مطلب ہے عقل، فہم، شعور۔ یہ اسم ہے۔ اس اسم سے فعل بنا ہے: ’’سمجھنا‘‘، اور ایک قابلِ قدر صفت بنی ’’سمجھ دار‘‘، جس کا مطلب ہے عاقل، بالغ اور باشعور۔ جب کوئی چیز عقل و شعور میں آجائے توکہا جاتا ہے کہ ’’سمجھ میں آگئی‘‘۔ جو نہیں آسکی اُس کے متعلق سمجھ دار لوگ کھل کر اعتراف کرلیتے ہیں کہ: ’’یہ بات سمجھ میں آئی نہیں‘‘۔

بعض حقائق سمجھ سے بالاتر یا سمجھ کی پہنچ سے بلند تر ہوتے ہیں۔ عقل ان کے ادراک سے عاجز رہتی ہے۔ ایسی ہی ایک حقیقت کی بابت احسان دانشؔ کہتے ہیں:۔

کبھی صانع سما سکتا نہیں صنعت کے دامن میں
سمجھ کا دینے والا خود سمجھ میں آ نہیں سکتا
(صانع کہتے ہیں تخلیق کرنے والے کو، اور صنعت اُس چیز کو جو تخلیق کی جائے)
اسی موضوع کو اکبرؔ الٰہ آبادی نے بھی یوں باندھا ہے:۔

بس جان گیا میں، تری پہچان یہی ہے
تُو دل میں تو آتا ہے، سمجھ میں نہیں آتا
ایک دوست نے ہمیں سمجھانا چاہا کہ کشورِ پنجاب میں ’’روزمرّہ‘‘ یہی ہے۔ سمجھ میں آنے یا نہ آنے کو ’’سمجھ آنا‘‘ یا ’’سمجھ نہ آنا‘‘ کہا جاتا ہے۔ بعض شکّی مزاج بزرگ ہر ہر جملے کے بعد اپنے سامع سے احتیاطاً دریافت کرتے رہتے ہیں کہ ’’سمجھ آ گئی؟…یا…سمجھ آئی؟‘‘
ہم نے دوست کو دلیل دی کہ کشورِ پنجاب کی وادیٔ سون سکیسر کے گاؤں انگہ ضلع خوشاب کا شاعر احمد شاہ اعوان تو یوں کہتا ہے:۔

نا رسائی کی قَسم اتنا سمجھ میں آیا
حُسن جب ہاتھ نہ آیا تو خدا کہلایا

قبل اس کے کہ اس دیہاتی شاعر کی شان میں وہ کوئی گستاخی کرتے، انھیں جلدی سے بتا دیا کہ دنیائے شعر و ادب میں یہ شاعر احمد ندیمؔ قاسمی کے نام سے مشہور ہے۔ پس اہلِ پنجاب کو بھی جان لینا چاہیے کہ درست روزمرّہ ’’سمجھ میں آنا‘‘ ہے، ’’سمجھ آنا ‘‘نہیں۔ (اہلِ زبان اپنی روزمرہ بول چال میں الفاظ کو جس طرح استعمال کرتے ہیں، قواعد کی زبان میں اُسے ’’روزمرّہ‘‘ کہا جاتا ہے۔)
حرف ’’میں‘‘ کا شمار حروفِ ربط میں ہوتا ہے۔ ’’حرفِ ربط‘‘ اُس حرف کو کہا جاتا ہے جو دو الفاظ یا دو فقروں کو ملائے۔ جیسے ’’کا، کی، کے، کو، نے، پر، میں، سے‘‘ وغیرہ۔ اگر کوئی شخص کسی حرفِ ربط کو ’’حرفِ جار‘‘ کہتا ہوا پکڑا جائے تو اُس کی حرف گیری نہ کیجیے۔ ’’حروفِ ربط‘‘ کی متعدد اقسام ہیں، جن میں سے ایک قِسم ’’حرفِ جار‘‘ بھی ہے۔
حرف ’’میں‘‘ بالعموم کسی چیز کے محلِ وقوع، مقام یا ظرف کو ظاہر کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ مثلاً: ’’علامہ سید سلیمان ندویؒ کا مزار کراچی میں ہے‘‘ … ’’اخبار والا چوک میں کھڑا ہے‘‘ … یا … ’’کتاب میز کی دراز میں رکھی ہے‘‘۔ ان فقروں سے ’’میں‘‘ نکال دیا جائے تو جملہ مہمل ہوجائے گا۔ یہاں ضمناً یہ ذکر بھی کرتے چلیں کہ اُردو زبان نے انگریزی کے لفظ “Drawers” کو شرفِ قبولیت بخشتے ہوئے اس کی ’’تارید‘‘ کر لی۔ یعنی اسے ’’اُردُوا‘‘کر اپنا لیا اور نیا لفظ ’’دراز‘‘ بنا لیا۔ جس کے شکریے کے طور پر انگریزوں نے ہماری پوری کی پوری الماری ہی کو “Almirah” کہہ کہہ کرسر پر اُٹھا لیا اور لے کر چلتے بنے۔
’’تارید‘‘ کرنے، یعنی کسی لفظ کو اُردو کے مزاج کے مطابق ڈھالنے اور نیا تلفظ بنانے کی بہت سی مثالیں ہمارے اردگرد پھیلی ہوئی ہیں۔ عربی، فارسی، ترکی اور ہندی سمیت متعدد زبانوں کے الفاظ کی تارید کی گئی ہے۔ اردو کے الفاظ ماچس، بَکس، فروری، مئی، پلاس اور بوتل وغیرہ بھی انگریزی الفاظ کی تارید کر کے بنائے گئے ہیں۔

حرف ’’میں‘‘ کو استعمال نہ کرنے کی ایک اور غلطی خواص و عوام میں آکاس بیل کی طرح پھیل چکی ہے۔ اخبارات و جرائد ہوں، کتابیں ہوں، ریڈیو ہو، ٹیلی وژن ہو یا سماجی ذرائع ابلاغ سے پھیلائی جانے والی تحریریں… ہر جگہ دیکھا گیا ہے کہ اردو سے ناواقف لوگ ہی نہیں، اردو زبان کا نسبتاً بہتر ذوق رکھنے والے افراد بھی ’’دوران‘‘ کے بعد ’’میں‘‘ نہیں لکھتے۔
’’دوران‘‘ کے معنی زمانہ، عہد، گردش،چکّر اور تسلسل کے ہیں۔ جب کوئی واقعہ کسی زمانے میں، کسی عہد میں یا کسی تسلسل میں پیش آتا ہے تو ہم اس واقعے کو اس کے ’’دوران میں‘‘ پیش آنا کہتے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ جملے دیکھیے:
’’دوسری جنگِ عظیم کے دوران میں سائنس اور ٹیکنالوجی کا بکثرت استعمال کیا گیا‘‘۔
’’مغلیہ عہد کے دوران میں اسلام ہی ریاست کا سرکاری مذہب تھا‘‘۔
’’گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران میں موسم کی صورتِ حال یہ رہی…‘‘
’’ملزم پر تشدد پولیس کی حراست کے دوران میں کیا گیا‘‘۔
’’ابن بطوطہ نے دنیا کے گرد چار چکر لگائے، کسی ایک چکر کے دوران میں اس کا انتقال ہوگیا۔ وہ کون سا چکر تھا؟‘‘وغیرہ وغیرہ۔
پس کورونا کی ’’وبا کے دوران ‘‘ نہیں، بلکہ کورونا کی ’’وبا کے دوران میں‘‘ دنیا بھر میں لاکھوں افراد ہلاک ہوئے۔
اسی طرح ایک اور مظلوم لفظ ’’ذریعہ‘‘ بھی ہے، جس کا مطلب ہے وسیلہ یا واسطہ۔ سفارشی حضرات کسی کے ’’وسیلے سے‘‘ حکام تک سفارش پہنچاتے ہیں، یا اگر خود پہنچنا ہو تو کسی کے ’’واسطے سے‘‘ رسائی حاصل کرتے ہیں۔ مگر نہ جانے کیوں کسی کے ’’ذریعے سے‘‘ کوئی کام نہیں کیا جاتا۔ کہا جاتا ہے کہ ’’ہم نے آپ کو کتابیں ڈاک کے ذریعے بھجوا دیں‘‘۔ یقیناً کتابیں تو پہنچ جاتی ہیں، مگر ’’ڈاک کے ذریعے سے‘‘ پہنچتی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب اسی لفظ کی جمع ’’ذرائع‘‘ استعمال کی جاتی ہے، تب کوئی کہتا ہے نہ لکھتا ہے کہ ہمیں یہ بات باوثوق ’’ذرائع معلوم‘‘ ہوئی ہے۔ ’’ذرائع‘‘ کے ساتھ ہمیشہ ’’سے‘‘ استعمال کیا جاتا ہے اور بات کا ’’باوثوق یا باخبر ذرائع سے‘‘ معلوم ہونا بتایا جاتا ہے۔ آپ کو ایک شہر سے دوسرے شہر پہنچنا ہو تو ’’بس سے‘‘ یا ’’ریل گاڑی سے‘‘ یا ’’ہوائی جہاز سے‘‘ پہنچنے کی کوشش کریں گے۔ یعنی کسی ’’ذریعے سے‘‘ پہنچیں گے۔ کسی کو کوئی پیغام بھیجنا ہو تو’’خط سے‘‘ یا ’’قاصد سے‘‘ یا ’’ٹیلی فون سے‘‘ مراد یہ کہ پیغام بھی کسی ’’ذریعے سے‘‘ بھیجا جائے گا۔ یہی حال خبر معلوم ہونے کا ہے۔ آج کل ’’اخبار سے‘‘، ’’ریڈیو سے‘‘، ’’ٹیلی وژن سے‘‘ یا ’’سماجی ذرائع ابلاغ سے‘‘ خبر مل جاتی ہے۔ آپ سے پوچھا جائے تو آپ فوراً بتا سکتے ہیں کہ کس ’’ذریعے سے‘‘ خبر ملی ہے۔ حاصلِ کلام یہ کہ ’’ذریعے‘‘ کے بعد حرفِ جار ’’سے‘‘ لکھنا یا بولنا لازم ہے۔
امید ہے کہ اب نہ صرف ’’سمجھ آ گئی‘‘ ہوگی بلکہ بات بھی ’’سمجھ میں‘‘ آ گئی ہوگی۔ حالاں کہ فرید جاویدؔ تو یہ کہتے ہیں کہ:۔

بات کو سمجھ لینا عام بات ہے، لیکن
بات کی نزاکت کو لوگ کم سمجھتے ہیں
 
کچھ لوگوں کو واقعی ساری عمر سمجھ نہیں آتی۔
کچھ لوگوں کو واقعی ساری عمر سمجھ میں نہیں آتا۔

۔ پس اہلِ پنجاب کو بھی جان لینا چاہیے کہ درست روزمرّہ ’’سمجھ میں آنا‘‘ ہے، ’’سمجھ آنا ‘‘نہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
ہماری بات کسی کی سمجھ میں کیوں آتی
خود اپنی بات کو کتنا سمجھ رہے ہیں ہم
بھارت بھوشن پنت

سمجھ میں آتی ہے بادل کی آہ و زاری اب
وہ مہربان مجھے بھی بہت رلاتا ہے
شائستہ یوسف
 

شمشاد

لائبریرین
صد فی صد متفق۔

یہیں کہیں قصہ پڑھا تھا کسی صاحب نے پروفیسر صاحب سے بلبل مذکر ہے یا مؤنث پوچھ لیا تھا، پھر ان کا کیا حشر ہوا، اسی کی بنا پر میں فوراً متفق ہو گیا ہوں۔
 
صد فی صد متفق۔

یہیں کہیں قصہ پڑھا تھا کسی صاحب نے پروفیسر صاحب سے بلبل مذکر ہے یا مؤنث پوچھ لیا تھا، پھر ان کا کیا حشر ہوا، اسی کی بنا پر میں فوراً متفق ہو گیا ہوں۔
قائل ہوکر متفق ہوتے تو کچھ اور بات ہوتی۔
 

شمشاد

لائبریرین
حضرت میں کیا اور میری بساط کیا۔ آپ ٹھہرے اہل زبان اور میں اکھڑ پنجابی بلکہ پھوٹوہاری بولنے والا۔ آساں جاساں کرنے والا۔
 
حضرت میں کیا اور میری بساط کیا۔ آپ ٹھہرے اہل زبان اور میں اکھڑ پنجابی بلکہ پھوٹوہاری بولنے والا۔ آساں جاساں کرنے والا۔
یوں کہنے کو ہم اہل زبان ہیں لیکن ہماری مادری و پدری زبانیں دکنی و میسوری اردو ہیں لہذا ہماری زبان بھی سند نہیں کہلائی جاسکتی۔

اسی طرح اس حقیقت کے باوجود کہ اردو کی سب سے زیادہ خدمت اہلِ پنجاب نے کی ہے، اس استحقاق کی بناء پر ان کی زبان سند نہیں کہلائی جا سکتی۔
 
Top