محمد تابش صدیقی
منتظم
دستِ ہمشیر کی چوڑیوں کی قَسم
ابونثر (احمد حاطب صدیقی)
یاد نہیں کہ کون سا ٹی وی چینل تھا۔ اب تو اتنے ہیں کہ بقول ناصرؔکاظمی… ’’یاد آئیں بھی تو سب یاد نہیں‘‘… ہر روز کی طرح اُس روز بھی وہاں ایک سیاسی ملاکھڑا برپا تھا۔ ہمارے معزز سیاسی قائدین اصیل مرغوں اور مرغیوں کی طرح سینے پُھلا پُھلا کر اور اُچھل اُچھل کر ایک دوسرے سے چونچیں لڑا رہے تھے۔ اسی گھمسان میں ایک سیاسی رہنما نے یہ سنسنی خیز انکشاف کر ڈالا:۔
’’مریم، بلاول کی ہمشیرہ ہیں‘‘۔
مریم بنتِ نوازشریف، بلاول ابنِ آصف زرداری کی ’’ہمشیرہ‘‘ ہیں یا نہیں؟ ہم اس کی تصدیق کرنے کی توفیق رکھتے ہیں نہ تکذیب کرنے کی۔ کیا عجب کہ قوم کے غم میں کھائے جانے والے کسی ’’ڈِنر‘‘ کی شیرینی کا لذیذ شِیرہ بلاول سلّمہ نے پہلے خود نوش کیا ہو، پھر پیالہ مریم سلّمہا کی طرف بڑھا دیا ہو، اور اُن کا پیا ہوا باقی ماندہ شِیرہ پی کر مریم بی بی اُن کی ’’ہم شیرہ‘‘ ہوگئی ہوں۔
شِیرے کا ذکر آیا تو ہمیں ایک شیریں لطیفہ یاد آگیا۔ پہلے اس سے لطف اُٹھا لیجیے، پھرباقی باتیں ہوں گی۔
قصہ مشہور ہے کہ لکھنؤ میں کوئی غیر لکھنوی صاحب شیرہ خریدنے کے لیے حلوائی کی دُکان پر گئے۔ اپنے آپ کو ٹھیٹھ لکھنوی ثابت کرنے کے لیے حلق کی گہرائیوں سے پوچھا:۔
’’کیوں میاں! شعیرہ ہے؟‘‘
حاضر جواب حلوائی نے جواب دیا:
’’ہے تو حضور! مگر اتنا گاڑھا نہیں ہے‘‘۔
ضمیر جمع متکلم کے علاوہ ’ہم‘ کا استعمال کسی کام میں شرکت ظاہر کرنے کے لیے بھی کیا جاتا ہے۔ مثلاً شریکِ سفر کو ’’ہم سفر‘‘ کہا جاتا ہے۔ ایک ہی پیالے سے پینے اور ایک ہی رکابی میں کھانے والے ’’ہم پیالہ و ہم نوالہ‘‘ کہلاتے ہیں۔ ایک دوسرے کے رازوں میں شریک لوگ ’’ہمراز‘‘ ہوتے ہیں۔ توآخر اسی اصول کے مطابق ایک ہی شِیرے میں شریک کرکے کسی کو ’’ہمشیرہ‘‘ کیوں نہیں بنایا جاسکتا؟
یوں تو اصل لفظ ہے ’’ہم شِیر‘‘۔ جسے ’’ہمشیر‘‘ لکھا جاتا ہے۔ شِیر دودھ کو کہتے ہیں۔ ’’ہمشیر‘‘ کا مطلب ہے دودھ شریک… جو سگے بھائی بہن بھی ہوتے ہیں اور رضاعی بھائی بہن بھی۔ یعنی وہ بچے اور بچیاں جنھوں نے ایک ہی ماں کا دودھ پیا ہو۔ مگر ہمشیر کا مؤنث بنانے کی دُھن میں یاروں نے شِیر کا شیرہ ہی نکال ڈالا۔ پھر’’ہمشیرہ‘‘کا لفظ ایسا عام ہوا کہ لغات تک میں آگیا۔ تاہم فصحا کے نزدیک ’’ہمشیر‘‘ کہنا ہی درست ہے۔
رحمٰن کیانی کی نظم ’’یومِ آزادی‘‘ کا ایک بند ملاحظہ فرمائیے:۔
’’ہاں مری جان! مرے چاند سے خواہر زادے!
بجھ گئیں آج وہ آنکھیں کہ جہاں
تیرے سپنوں کے سوا کچھ بھی نہ رکھا اُس نے‘‘
(’’پروین کے گیتو کے لیے ایک نظم‘‘۔ از: امجد اسلام امجدؔ)
پنڈت دَیا شنکر نسیم لکھنوی کی مثنوی گلزارِ نسیم میں ایک دیو شہزادے کی سفارش کرنے کے لیے حمالہ نامی دیونی کی چھوٹی بہن کے نام خط لکھتا ہے۔ پنڈت جی اس خط کا احوال یوں بیان کرتے ہیں:۔
شِیر کا لفظ ہمارے لیے اجنبی تو نہیں۔ اس سے بننے والے کچھ مرکب الفاظ ضرور اجنبی ہوچکے ہیں۔ تاہم شِیر کا لفظ اب بھی ہماری روز مرہ بول چال کا حصہ ہے۔ دودھ پیتے بچے ’’شِیر خوار‘‘ کہلاتے ہیں۔ جو لوگ دودھ اور چینی کی طرح ایک دوسرے میں گھل مل جائیں وہ باہم ’’شِیر و شکر‘‘ ہوجاتے ہیں۔ خیانت کرنے والے دوسروں کا مال یا پوری قوم کا مال ’’شِیرِ مادر‘‘ (مُراد:اپنا حق) سمجھ کر ہضم کرلیتے ہیں۔ دودھ سے گُوندھ کر پکائی جانے والی میدے کی خمیری روغنی روٹی ’’شِیر مال‘‘کہلاتی ہے۔ دودھ کا کاروبار کرنے کے لیے دودھ دینے والے مویشیوں کی پرورش کا پیشہ ’’شِیر کاری‘‘ کہلاتا تھا، مگر اسے انگریزی اصطلاح ’’ڈیری فارمِنگ‘‘ کھاگئی۔ اسی طرح’’ مصنوعاتِ شِیر ‘‘کے لفظ کو ’’ڈیری پروڈکٹس‘‘ نے اجنبی بنا دیا۔ ’’پکے جو دودھ میں چاول اُسے ہم کھیر کہتے ہیں‘‘۔ جس کا ایک نام ’’شِیر برنج‘‘ بھی تھا، جو اَب اجنبی ہوچکا ہے۔ ہمارے مانوس الفاظ ایک ایک کرکے یوں تیزی سے غائب ہورہے ہیں کہ اب انھیں ڈھونڈ چراغِ رُخِ زیبا لے کر۔ ابھی کچھ زیادہ زمانہ تو نہیں گزرا جب ہمیں دودھ بیچنے والوں کی دُکانوں پر ’’شیر خان شِیر فروش‘‘ جیسے بورڈ آویزاں نظر آیا کرتے تھے۔ اب ایسی سب دُکانیں ’’مِلک شاپ‘‘ ہوگئی ہیں۔(بمثلِ فوٹو شاپ)۔
القصہ مختصر۔ دودھ سے بنے ہوئے پکوان ہوں یا دودھ کی مصنوعات، ہماری تمام اصطلاحات کے ساتھ ’’سگِ انگلیشیہ‘‘ نے وہی سلوک کیا جس کا ذکر امیر خسرو مرحوم کے اس شعر میں ہے: ۔
ابونثر (احمد حاطب صدیقی)
یاد نہیں کہ کون سا ٹی وی چینل تھا۔ اب تو اتنے ہیں کہ بقول ناصرؔکاظمی… ’’یاد آئیں بھی تو سب یاد نہیں‘‘… ہر روز کی طرح اُس روز بھی وہاں ایک سیاسی ملاکھڑا برپا تھا۔ ہمارے معزز سیاسی قائدین اصیل مرغوں اور مرغیوں کی طرح سینے پُھلا پُھلا کر اور اُچھل اُچھل کر ایک دوسرے سے چونچیں لڑا رہے تھے۔ اسی گھمسان میں ایک سیاسی رہنما نے یہ سنسنی خیز انکشاف کر ڈالا:۔
’’مریم، بلاول کی ہمشیرہ ہیں‘‘۔
مریم بنتِ نوازشریف، بلاول ابنِ آصف زرداری کی ’’ہمشیرہ‘‘ ہیں یا نہیں؟ ہم اس کی تصدیق کرنے کی توفیق رکھتے ہیں نہ تکذیب کرنے کی۔ کیا عجب کہ قوم کے غم میں کھائے جانے والے کسی ’’ڈِنر‘‘ کی شیرینی کا لذیذ شِیرہ بلاول سلّمہ نے پہلے خود نوش کیا ہو، پھر پیالہ مریم سلّمہا کی طرف بڑھا دیا ہو، اور اُن کا پیا ہوا باقی ماندہ شِیرہ پی کر مریم بی بی اُن کی ’’ہم شیرہ‘‘ ہوگئی ہوں۔
شِیرے کا ذکر آیا تو ہمیں ایک شیریں لطیفہ یاد آگیا۔ پہلے اس سے لطف اُٹھا لیجیے، پھرباقی باتیں ہوں گی۔
قصہ مشہور ہے کہ لکھنؤ میں کوئی غیر لکھنوی صاحب شیرہ خریدنے کے لیے حلوائی کی دُکان پر گئے۔ اپنے آپ کو ٹھیٹھ لکھنوی ثابت کرنے کے لیے حلق کی گہرائیوں سے پوچھا:۔
’’کیوں میاں! شعیرہ ہے؟‘‘
حاضر جواب حلوائی نے جواب دیا:
’’ہے تو حضور! مگر اتنا گاڑھا نہیں ہے‘‘۔
ضمیر جمع متکلم کے علاوہ ’ہم‘ کا استعمال کسی کام میں شرکت ظاہر کرنے کے لیے بھی کیا جاتا ہے۔ مثلاً شریکِ سفر کو ’’ہم سفر‘‘ کہا جاتا ہے۔ ایک ہی پیالے سے پینے اور ایک ہی رکابی میں کھانے والے ’’ہم پیالہ و ہم نوالہ‘‘ کہلاتے ہیں۔ ایک دوسرے کے رازوں میں شریک لوگ ’’ہمراز‘‘ ہوتے ہیں۔ توآخر اسی اصول کے مطابق ایک ہی شِیرے میں شریک کرکے کسی کو ’’ہمشیرہ‘‘ کیوں نہیں بنایا جاسکتا؟
یوں تو اصل لفظ ہے ’’ہم شِیر‘‘۔ جسے ’’ہمشیر‘‘ لکھا جاتا ہے۔ شِیر دودھ کو کہتے ہیں۔ ’’ہمشیر‘‘ کا مطلب ہے دودھ شریک… جو سگے بھائی بہن بھی ہوتے ہیں اور رضاعی بھائی بہن بھی۔ یعنی وہ بچے اور بچیاں جنھوں نے ایک ہی ماں کا دودھ پیا ہو۔ مگر ہمشیر کا مؤنث بنانے کی دُھن میں یاروں نے شِیر کا شیرہ ہی نکال ڈالا۔ پھر’’ہمشیرہ‘‘کا لفظ ایسا عام ہوا کہ لغات تک میں آگیا۔ تاہم فصحا کے نزدیک ’’ہمشیر‘‘ کہنا ہی درست ہے۔
رحمٰن کیانی کی نظم ’’یومِ آزادی‘‘ کا ایک بند ملاحظہ فرمائیے:۔
اپنی اُجڑی ہوئی بستیوں کی قَسم
اور جلتی ہوئی کھیتیوں کی قَسم
آبرو کی قَسم، عزتوں کی قَسم
اپنی لٹتی ہوئی عصمتوں کی قَسم
با حیا، پُھول سی، بیٹیوں کی قَسم
دستِ ہمشیر کی چوڑیوں کی قَسم
بربریت کے رقصِ جنوں کی قَسم
دودھ پیتے شہیدوں کے خوں کی قَسم
یہ وہی صبح ہے، جس کے خورشید کو
ہم نے دیکھا اُبھرتے ہوئے دوستو
ایک اندھے تعصب کی دیوار سے
پندرہ لاکھ لاشوں کے انبار سے
ہمشیر درست ہے یا ہمشیرہ؟ اس بحث سے قطع نظر، ہمشیر یا ہمشیرہ صرف سگی بہن یا دودھ شریک بہن کو کہہ سکتے ہیں۔ (اگرچہ کہ اب… ’’دودھ تو ڈبّے کا ہے، تعلیم ہے سرکار کی‘‘… پس جو جی میں آئے کہیے) ہمشیرہ سمیت سب بہنیں، چچازاد، پھوپھی زاد، ماموں زاد اور خالہ زاد، بطور بہن کے ’’خواہر‘‘ کہلاتی ہیں۔ (یہاں واؤ معدولہ ہے، لہٰذا اِسے ’’خاہَر‘‘ پڑھا جائے گا۔) دینی، وطنی یا سیاسی بہنوں کو بھی ’’خواہر‘‘ ہی کہا جائے گا، ہمشیرہ نہیں۔ پروینؔ شاکر کی اچانک حادثاتی وفات پر جناب امجد اسلام امجدؔ نے پروین کے بیٹے گیتو کے لیے ایک آزاد نظم کہی تو گیتو کو اس طرح مخاطب کیا:۔اور جلتی ہوئی کھیتیوں کی قَسم
آبرو کی قَسم، عزتوں کی قَسم
اپنی لٹتی ہوئی عصمتوں کی قَسم
با حیا، پُھول سی، بیٹیوں کی قَسم
دستِ ہمشیر کی چوڑیوں کی قَسم
بربریت کے رقصِ جنوں کی قَسم
دودھ پیتے شہیدوں کے خوں کی قَسم
یہ وہی صبح ہے، جس کے خورشید کو
ہم نے دیکھا اُبھرتے ہوئے دوستو
ایک اندھے تعصب کی دیوار سے
پندرہ لاکھ لاشوں کے انبار سے
’’ہاں مری جان! مرے چاند سے خواہر زادے!
بجھ گئیں آج وہ آنکھیں کہ جہاں
تیرے سپنوں کے سوا کچھ بھی نہ رکھا اُس نے‘‘
(’’پروین کے گیتو کے لیے ایک نظم‘‘۔ از: امجد اسلام امجدؔ)
پنڈت دَیا شنکر نسیم لکھنوی کی مثنوی گلزارِ نسیم میں ایک دیو شہزادے کی سفارش کرنے کے لیے حمالہ نامی دیونی کی چھوٹی بہن کے نام خط لکھتا ہے۔ پنڈت جی اس خط کا احوال یوں بیان کرتے ہیں:۔
خط اس کو لکھا بہ ایں عبارت
اے خواہرِ مہرباں سلامت
پیارا ہے یہ میرا آدمی زاد
رکھیو اسے جس طرح مری یاد
انسان ہے، چاہے کچھ جو سازش
مہمان ہے، کیجیو نوازش
جن لوگوں کو ہمشیرہ اور خواہر کا فرق یاد رکھنا مشکل ہو وہ صرف بہن کہہ لیا کریں۔ (بلکہ بھین)۔ ایک پنجابی محاورے کی رُو سے بھینیں بھی سانجھی ہوتی ہیں۔اے خواہرِ مہرباں سلامت
پیارا ہے یہ میرا آدمی زاد
رکھیو اسے جس طرح مری یاد
انسان ہے، چاہے کچھ جو سازش
مہمان ہے، کیجیو نوازش
شِیر کا لفظ ہمارے لیے اجنبی تو نہیں۔ اس سے بننے والے کچھ مرکب الفاظ ضرور اجنبی ہوچکے ہیں۔ تاہم شِیر کا لفظ اب بھی ہماری روز مرہ بول چال کا حصہ ہے۔ دودھ پیتے بچے ’’شِیر خوار‘‘ کہلاتے ہیں۔ جو لوگ دودھ اور چینی کی طرح ایک دوسرے میں گھل مل جائیں وہ باہم ’’شِیر و شکر‘‘ ہوجاتے ہیں۔ خیانت کرنے والے دوسروں کا مال یا پوری قوم کا مال ’’شِیرِ مادر‘‘ (مُراد:اپنا حق) سمجھ کر ہضم کرلیتے ہیں۔ دودھ سے گُوندھ کر پکائی جانے والی میدے کی خمیری روغنی روٹی ’’شِیر مال‘‘کہلاتی ہے۔ دودھ کا کاروبار کرنے کے لیے دودھ دینے والے مویشیوں کی پرورش کا پیشہ ’’شِیر کاری‘‘ کہلاتا تھا، مگر اسے انگریزی اصطلاح ’’ڈیری فارمِنگ‘‘ کھاگئی۔ اسی طرح’’ مصنوعاتِ شِیر ‘‘کے لفظ کو ’’ڈیری پروڈکٹس‘‘ نے اجنبی بنا دیا۔ ’’پکے جو دودھ میں چاول اُسے ہم کھیر کہتے ہیں‘‘۔ جس کا ایک نام ’’شِیر برنج‘‘ بھی تھا، جو اَب اجنبی ہوچکا ہے۔ ہمارے مانوس الفاظ ایک ایک کرکے یوں تیزی سے غائب ہورہے ہیں کہ اب انھیں ڈھونڈ چراغِ رُخِ زیبا لے کر۔ ابھی کچھ زیادہ زمانہ تو نہیں گزرا جب ہمیں دودھ بیچنے والوں کی دُکانوں پر ’’شیر خان شِیر فروش‘‘ جیسے بورڈ آویزاں نظر آیا کرتے تھے۔ اب ایسی سب دُکانیں ’’مِلک شاپ‘‘ ہوگئی ہیں۔(بمثلِ فوٹو شاپ)۔
القصہ مختصر۔ دودھ سے بنے ہوئے پکوان ہوں یا دودھ کی مصنوعات، ہماری تمام اصطلاحات کے ساتھ ’’سگِ انگلیشیہ‘‘ نے وہی سلوک کیا جس کا ذکر امیر خسرو مرحوم کے اس شعر میں ہے: ۔
بڑے جتن سے کھیر پکائی چرخا دیا جلا
آیا کتا کھا گیا، تو بیٹھی ڈھول بجا
آیا کتا کھا گیا، تو بیٹھی ڈھول بجا