محمد تابش صدیقی
منتظم
نَہی عَنِ المُنکَر اور مفتی صاحب کا مکتوب
ابونثر (احمد حاطب صدیقی)
اپنے پچھلے کالم میں ہم نے ایک فقرہ لکھا:
’’… لیکن فعلِ نہی کے لیے، یعنی کسی کام سے روکنے کے لیے بھی ’مت‘ کا استعمال متقدمین کے زمانے سے ہوتا چلا آرہا ہے ‘‘۔
جریدے کے کسی صحت خواں کی مت ماری گئی کہ اُنھوں نے ’’ فعلِ نہی‘‘ کی تصحیح کرکے اسے ’’ فعلِ نہیں‘‘ کر ڈالا۔ اسی حالت میں شائع بھی ہوگیا۔ شاید اُس وقت صحت خواں صاحب کو اس تصحیح سے روکنے کے لیے ’’نہیں، نہیں‘‘ کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ شاید اپنی طرف سے اُنھوں نے ہماری خیر خواہی کی اور سوچا کہ یہ حضرت جو ہر شخص کی دُم یعنی ’غلطی ہائے مضامین‘ پکڑتے پھرتے ہیں کہیں کوئی ان کی غلطی پکڑکر نہ کھڑا ہوجائے کہ: ’’قبلہ! آپ کو اتنا بھی نہیں معلوم کہ ’نہی‘ کے آخر میں نون غُنّہ لازم ہے‘‘۔
سو اپنی دانست میں اس عاجز کالم نگار پر انھوں نے احسان کیا، مگر اِس احسان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اُن سے عرض ہے کہ:
وہ آخری حد جس سے آگے جانا ممکن نہ ہو یا جس سے آگے جانا ممنوع ہو اُسے بھی اِنتہا یا مُنتہاکہتے ہیں۔ سورۃ النجم کی آیت نمبر ۱۴ میں ’سدرۃ المنتہیٰ‘ کا ذکر آیا ہے۔ جس کا مطلب ہے ’بیری کا وہ درخت جو آخری یا انتہائی سرے پر واقع ہے‘۔ اس حد سے آگے جانے کی کسی کو اجازت نہیں ہے۔ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کو (معراج کے موقع پر) سدرۃ المنتہیٰ سے آگے جانے کا اعزاز حاصل ہوا۔ ورنہ حضرت جبرئیل علیہ السلام کو بھی اس سے آگے بڑھنے کی ممانعت تھی۔ شیخ سعدیؒ نے اپنی ’بوستان‘ کی ایک نعت میں حضرت جبرئیل ؑ کی زبان سے کہلوایا ہے:
مولانا ظفرؔ علی خان کی نعت کا مشہور شعر ہے:
’نہی‘ کے متعلق تو ہم اوپر عرض کر چکے ہیں کہ نون مفتوح ہے۔ مُنکَر کے کاف پر بھی زبر ہے۔مُنکَرکا مطلب ہے ناپسندیدہ، ناروا، ناواجب یا ممنوع۔ یہ معروف کی ضد ہے۔ اصطلاحاً اس سے وہ کام مرادہیں جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک ناپسندیدہ ہیں۔
مُنکَر کی جمع ’مُنکَرات‘ ہے۔ قبر میں سوال جواب کے لیے آنے والے دو فرشتے بھی ’’ مُنکَر نکیر‘‘ ہیں۔ یعنی یہاں بھی مُنکَر کے کاف پر زبر ہے۔
اگرکاف مکسور ہو یعنی کاف پر زیر ہو تو’مُنکِر‘ کا مطلب ہوتا ہے انکار کرنے والا یا اپنے قول سے پھر جانے والا۔ دینی اصطلاح میں اللہ کی وحدانیت ، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کی رسالت اورعقیدۂ آخرت کا انکار کرنے والا مُنکِر کہلاتا ہے۔ اس کی جمع منکرین ہے۔ حضرتِ داغؔ دہلوی نے اپنے ایک شعر میں اپنا تصورِ قیامت بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے:
محترم جناب ابونثر احمدحاطب صدیقی صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کے پیش رو جناب اطہر ہاشمی مرحوم کا کالم ’’خبر لیجے،زباں بگڑی‘‘ بھی اردو زبان کے ایک طالب علم کی حیثیت سے دلچسپی سے پڑھتا تھا،اس سے معلومات میں اضافہ ہوتا تھا، اُن کا انداز بھی دلچسپ تھا۔ اُن کے بعد آپ کا کالم ’’غلطی ہائے مضامین‘‘ بھی اُسی دلچسپی کے ساتھ پڑھتا ہوں اور اس سے زبان وبیان کے بارے میں آگہی ملتی ہے۔
آپ نے لکھا ہے:’’فَشَا یَفشُوْا‘ ‘سے شروع ہونے والی بات بہت دور تک پھیل گئی۔ کہنا یہ تھا کہ بابِ تفعیل میں پہنچ کریہ لفظ ’’تفتیش‘‘ بن گیا، جس کا مطلب ہے: بھید معلوم کرنا، خبر کی کھوج لگانا، سرسری تحقیقات کرنا، وغیرہ، لفظ مشکل ہے مگر کثرتِ استعمال نے اس کو آسان کردیا ہے‘‘۔
گزارش ہے کہ ’’فَشَا یَفشُوْا‘‘سے جب بابِ تفعیل بنے گا،تو یہ کلمہ ’’َتفْشِیَۃً‘ ‘ہوگااوربابِ تَفَعُّل سے ’’تَفَشِّیْ‘‘ ہو گا،تفتیش نہیں بنے گا۔’’تفتیش‘‘ کا مادّہ ’’فَتَشَ یَفْتِشُ فَتْشًا(بمعنی ڈھونڈنا،تلاش کرنا)ہے اور اسی سے بابِ تفعیل ’’تَفْتِیْش‘‘ہے اور’’مُفَتِّشْ‘‘یا ’’فَتَّاش‘‘ کے معنی ہیں:’’بہت تلاش وجستجو کرنے والا‘‘۔
نیز آپ نے لفظِ ’’مَنْشِیات‘‘استعمال کرنے پر میری گرفت فرمائی، آپ کا شکریہ، مجھے اس لفظ کا عربی ماخَذ اور معنی معلوم ہے کہ یہ ناقص یائی ہے اور ’’نَشّٰی یُنَشِّیْ تَنْشِیَۃً‘‘کے معنی ہیں: ’’مست ہونا، نشے والا ہونا‘‘اور اسی سے ’’مُنَشِّیَات‘‘ ہے، لیکن ’’مَنْشِیات‘‘کا استعمال اردو میں اتنا عام ہوگیا ہے کہ اگر ہم صحیح لفظ استعمال کریں، تو لوگوں کے لیے وہ غریب اور اجنبی ہوجاتا ہے، اس لیے کبھی ’’غَلَطُ الْعَامّ‘‘ استعمال کرنا پڑ تا ہے، یہ ایسا ہی ہے کہ عام طور پر اردومیں بولاجاتا ہے،مثلاً: ’’مُبْلِغ پچاس ہزار روپے‘‘، اب یہاں مُبْلِغْ کا استعمال معنوی اعتبار سے درست نہیں ہے، صحیح لفظ ’’مَبْلَغْ‘‘ہے اور اس کے معنی ہیں: ’’کسی چیز کی حدوانتہا‘‘، قرآن مجید میں ارشاد ہوا: ’’ذٰلِکَ مَبْلَغَھُمْ مَنَ الْعِلْمِ‘‘، ترجمہ:’’یہی اُن کے علم کی انتہا ہے، (النجم:۳۰)‘‘۔اب مجھے اتفاقاً کہیں نکاح پڑھانا ہوتو لفظِ’’مَبْلَغ‘‘اس لیے استعمال نہیں کرتا کہ اردو بولنے والے کہیں گے: ’’مولوی کو صحیح تلفظ نہیں آتا‘‘ اور ’’مُبْلِغ‘‘اس لیے استعمال نہیں کرتا کہ مجلس میں کوئی عالم ہوگا تووہ مجھے جاہل تصور کرنے میں حق بجانب ہوگا۔
مفتی منیب الرحمٰن
۳ اپریل۲۰۲۱ء
ابونثر (احمد حاطب صدیقی)
اپنے پچھلے کالم میں ہم نے ایک فقرہ لکھا:
’’… لیکن فعلِ نہی کے لیے، یعنی کسی کام سے روکنے کے لیے بھی ’مت‘ کا استعمال متقدمین کے زمانے سے ہوتا چلا آرہا ہے ‘‘۔
جریدے کے کسی صحت خواں کی مت ماری گئی کہ اُنھوں نے ’’ فعلِ نہی‘‘ کی تصحیح کرکے اسے ’’ فعلِ نہیں‘‘ کر ڈالا۔ اسی حالت میں شائع بھی ہوگیا۔ شاید اُس وقت صحت خواں صاحب کو اس تصحیح سے روکنے کے لیے ’’نہیں، نہیں‘‘ کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ شاید اپنی طرف سے اُنھوں نے ہماری خیر خواہی کی اور سوچا کہ یہ حضرت جو ہر شخص کی دُم یعنی ’غلطی ہائے مضامین‘ پکڑتے پھرتے ہیں کہیں کوئی ان کی غلطی پکڑکر نہ کھڑا ہوجائے کہ: ’’قبلہ! آپ کو اتنا بھی نہیں معلوم کہ ’نہی‘ کے آخر میں نون غُنّہ لازم ہے‘‘۔
سو اپنی دانست میں اس عاجز کالم نگار پر انھوں نے احسان کیا، مگر اِس احسان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اُن سے عرض ہے کہ:
مجھ پہ احساں جو نہ کرتے تو یہ احساں ہوتا
اُن ہی سے نہیں، جریدے کے تمام صحت خوانوں سے دست بستہ درخواست ہے کہ ان کالموں کی صحت خوانی بالکل نہ کیا کریں۔ اگر کسی لفظ یا کسی فقرے کی صحت اُنھیں خراب نظر آئے تو اسے کالم نگار کی خرابی صحت پر محمول کرکے درگزر فرمادیا کریں۔ کالم کو جوں کا توں جانے دیا کریں۔ اگر کوئی سہو، کوئی تسامح، کوئی غلطی، کوئی خطا سرزد ہوگئی تو اگلے کالم میں معافی مانگ لیا کریں گے۔
ایسا نہیں ہے کہ ’نہی‘ کا لفظ نہیں سنا ہوگا۔ نَہی کے معنی ہیں منع کرنا یا روکنا (’ن‘ پر زبر ہے)’نَہی عنِ المنکَر‘ کی اصطلاح ہمارے ہاں عام ہے۔ مطلب ہے بُرے کاموں سے منع کرنا یا ممنوعہ کاموں سے روکنا۔ یہ ہر مسلمان کا دینی فریضہ ہے۔وہ آخری حد جس سے آگے جانا ممکن نہ ہو یا جس سے آگے جانا ممنوع ہو اُسے بھی اِنتہا یا مُنتہاکہتے ہیں۔ سورۃ النجم کی آیت نمبر ۱۴ میں ’سدرۃ المنتہیٰ‘ کا ذکر آیا ہے۔ جس کا مطلب ہے ’بیری کا وہ درخت جو آخری یا انتہائی سرے پر واقع ہے‘۔ اس حد سے آگے جانے کی کسی کو اجازت نہیں ہے۔ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کو (معراج کے موقع پر) سدرۃ المنتہیٰ سے آگے جانے کا اعزاز حاصل ہوا۔ ورنہ حضرت جبرئیل علیہ السلام کو بھی اس سے آگے بڑھنے کی ممانعت تھی۔ شیخ سعدیؒ نے اپنی ’بوستان‘ کی ایک نعت میں حضرت جبرئیل ؑ کی زبان سے کہلوایا ہے:
اگر یک سرِ موئے برتر پرم
فروغِ تجلّیٰ بسوزد پرم
(اگر بال برابر بھی اوپر اُڑوں گا تو تجلیوںکی آب و تاب سے میرے پر جل جائیں گے)فروغِ تجلّیٰ بسوزد پرم
مولانا ظفرؔ علی خان کی نعت کا مشہور شعر ہے:
جلتے ہیں جبرئیل کے پر جس مقام پر
اُس کی حقیقتوں کے شناسا تمہی تو ہو
اسی پس منظر میں اردو کا ایک محاورہ بھی ہے’پر جلنا‘ ۔انتہا، منتہا اور نہایت کے ساتھ ساتھ ’مناہی‘ کا لفظ بھی ہمارے ہاں عام استعمال ہوتا ہے۔ یوں تو یہ’ منہی‘ کی جمع ہے اور منہی ایسی چیز یا ایسے کام کو کہتے ہیں جس سے روکا گیا ہو، منع کیا گیا ہو یا غیر مشروع یعنی خلافِ شرع ہو۔ مگر’مناہی‘ اردو میں جمع کے ساتھ ساتھ مفرد لفظ کے طور پربھی استعمال ہوتا ہے۔ جس کے معنی ممانعت یا روک ٹوک کے لیے گئے ہیں۔جیسا کہ قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت شیخ غلام ہمدانی مصحفیؔ کو محبوب کے مشٹنڈے بھائیوں نے (غالباً ٹانگیں توڑدینے کی دھمکی دے کر)اپنے گھر کے دروازے سے قریب بھی پھٹکنے سے منع کردیا تھا، تِس پر آپ نے فرمایا:اُس کی حقیقتوں کے شناسا تمہی تو ہو
در تلک جانے کی ہے اُس کے مناہی ہم کو
اپنی بس اب نظر آتی ہے تباہی ہم کو
چند روز پہلے ایک ٹیلی وژن چینل پر ایک فاضل نظامت کار ’نہی عن المنکر‘بولتے ہوئے ’نہی‘ کے نون اور ’منکَر‘ کے کاف دونوں پر زیرلگا لگاکر بول رہے تھے۔جو لفظ بولنا نہ آتا ہو اُسے بولنا سیکھ لینے میں کوئی ہرج نہیں ہے۔ فائدہ ہی ہوتا ہے، گفتگو کا عیب دور ہو جاتا ہے۔اپنی بس اب نظر آتی ہے تباہی ہم کو
’نہی‘ کے متعلق تو ہم اوپر عرض کر چکے ہیں کہ نون مفتوح ہے۔ مُنکَر کے کاف پر بھی زبر ہے۔مُنکَرکا مطلب ہے ناپسندیدہ، ناروا، ناواجب یا ممنوع۔ یہ معروف کی ضد ہے۔ اصطلاحاً اس سے وہ کام مرادہیں جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک ناپسندیدہ ہیں۔
مُنکَر کی جمع ’مُنکَرات‘ ہے۔ قبر میں سوال جواب کے لیے آنے والے دو فرشتے بھی ’’ مُنکَر نکیر‘‘ ہیں۔ یعنی یہاں بھی مُنکَر کے کاف پر زبر ہے۔
اگرکاف مکسور ہو یعنی کاف پر زیر ہو تو’مُنکِر‘ کا مطلب ہوتا ہے انکار کرنے والا یا اپنے قول سے پھر جانے والا۔ دینی اصطلاح میں اللہ کی وحدانیت ، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کی رسالت اورعقیدۂ آخرت کا انکار کرنے والا مُنکِر کہلاتا ہے۔ اس کی جمع منکرین ہے۔ حضرتِ داغؔ دہلوی نے اپنے ایک شعر میں اپنا تصورِ قیامت بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے:
تا حشر مُنکرینِ قیامت نہ مانتے
تجھ کو بنا کے اس کا نمونہ دکھا دیا
قیامت کے ذکر پر حضرتِ داغؔ ہی کا ایک مصرع یاد آگیا۔’کس قیامت کے یہ نامے مرے نام آتے ہیں‘۔ حضرت مولانا مفتی منیب الرحمٰن حفظہ اللہ کا گرامی نامہ موصول ہوا ہے جس میں اس عاجز کے دو کالموں بعنوان ’خطائے بزرگاں‘ اور ’گُل افشانی گفتار‘ کااشارتاً ذکر ہے۔ حضرت کا مکتوب احقر کے لیے اعزاز ہے۔ اس سے ثانی الذکر کالم میں ہونے والی ایک غلطی کی تصحیح بھی ہو گئی ہے اور اوّل الذکر کالم میں کی جانے والی نشان دہی کی توجیہ بھی۔ اللہ انھیں جزائے خیر دے۔ امید ہے مفتی صاحب آئندہ بھی رہنمائی فرماتے رہیں گے:تجھ کو بنا کے اس کا نمونہ دکھا دیا
محترم جناب ابونثر احمدحاطب صدیقی صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کے پیش رو جناب اطہر ہاشمی مرحوم کا کالم ’’خبر لیجے،زباں بگڑی‘‘ بھی اردو زبان کے ایک طالب علم کی حیثیت سے دلچسپی سے پڑھتا تھا،اس سے معلومات میں اضافہ ہوتا تھا، اُن کا انداز بھی دلچسپ تھا۔ اُن کے بعد آپ کا کالم ’’غلطی ہائے مضامین‘‘ بھی اُسی دلچسپی کے ساتھ پڑھتا ہوں اور اس سے زبان وبیان کے بارے میں آگہی ملتی ہے۔
آپ نے لکھا ہے:’’فَشَا یَفشُوْا‘ ‘سے شروع ہونے والی بات بہت دور تک پھیل گئی۔ کہنا یہ تھا کہ بابِ تفعیل میں پہنچ کریہ لفظ ’’تفتیش‘‘ بن گیا، جس کا مطلب ہے: بھید معلوم کرنا، خبر کی کھوج لگانا، سرسری تحقیقات کرنا، وغیرہ، لفظ مشکل ہے مگر کثرتِ استعمال نے اس کو آسان کردیا ہے‘‘۔
گزارش ہے کہ ’’فَشَا یَفشُوْا‘‘سے جب بابِ تفعیل بنے گا،تو یہ کلمہ ’’َتفْشِیَۃً‘ ‘ہوگااوربابِ تَفَعُّل سے ’’تَفَشِّیْ‘‘ ہو گا،تفتیش نہیں بنے گا۔’’تفتیش‘‘ کا مادّہ ’’فَتَشَ یَفْتِشُ فَتْشًا(بمعنی ڈھونڈنا،تلاش کرنا)ہے اور اسی سے بابِ تفعیل ’’تَفْتِیْش‘‘ہے اور’’مُفَتِّشْ‘‘یا ’’فَتَّاش‘‘ کے معنی ہیں:’’بہت تلاش وجستجو کرنے والا‘‘۔
نیز آپ نے لفظِ ’’مَنْشِیات‘‘استعمال کرنے پر میری گرفت فرمائی، آپ کا شکریہ، مجھے اس لفظ کا عربی ماخَذ اور معنی معلوم ہے کہ یہ ناقص یائی ہے اور ’’نَشّٰی یُنَشِّیْ تَنْشِیَۃً‘‘کے معنی ہیں: ’’مست ہونا، نشے والا ہونا‘‘اور اسی سے ’’مُنَشِّیَات‘‘ ہے، لیکن ’’مَنْشِیات‘‘کا استعمال اردو میں اتنا عام ہوگیا ہے کہ اگر ہم صحیح لفظ استعمال کریں، تو لوگوں کے لیے وہ غریب اور اجنبی ہوجاتا ہے، اس لیے کبھی ’’غَلَطُ الْعَامّ‘‘ استعمال کرنا پڑ تا ہے، یہ ایسا ہی ہے کہ عام طور پر اردومیں بولاجاتا ہے،مثلاً: ’’مُبْلِغ پچاس ہزار روپے‘‘، اب یہاں مُبْلِغْ کا استعمال معنوی اعتبار سے درست نہیں ہے، صحیح لفظ ’’مَبْلَغْ‘‘ہے اور اس کے معنی ہیں: ’’کسی چیز کی حدوانتہا‘‘، قرآن مجید میں ارشاد ہوا: ’’ذٰلِکَ مَبْلَغَھُمْ مَنَ الْعِلْمِ‘‘، ترجمہ:’’یہی اُن کے علم کی انتہا ہے، (النجم:۳۰)‘‘۔اب مجھے اتفاقاً کہیں نکاح پڑھانا ہوتو لفظِ’’مَبْلَغ‘‘اس لیے استعمال نہیں کرتا کہ اردو بولنے والے کہیں گے: ’’مولوی کو صحیح تلفظ نہیں آتا‘‘ اور ’’مُبْلِغ‘‘اس لیے استعمال نہیں کرتا کہ مجلس میں کوئی عالم ہوگا تووہ مجھے جاہل تصور کرنے میں حق بجانب ہوگا۔
مفتی منیب الرحمٰن
۳ اپریل۲۰۲۱ء