محمد تابش صدیقی
منتظم
کچھ باتیں ’’خور و نوش‘‘ کی
ابو نثر (احمد حاطب صدیقی)
’’دنیا نیوز‘‘ پر خبریں سنتے اور دیکھتے ہوئے اُس وقت خوش گوار حیرت ہوئی جب خبر خواں خاتون نے ’’اشیائے خور و نوش‘‘ کے مزید گراں ہوجانے کی خبرسنائی۔ خوشی یا حیرت گرانی بڑھنے پر نہیں ہوئی۔ اس میں بھلا حیرت کی کیا بات ہے؟ ہمارے بچپن سے لے کر اب بڑھاپا آجانے تک گرانی بڑھتی ہی گئی ہے۔ کم تو کبھی نہیں ہوئی۔ حیرت اس بات پر ہوئی کہ خاتون نے ایک غلط العوام ترکیب ’’خورد-و- نوش‘‘ کی جگہ بالکل درست ترکیب استعمال کی۔
انصاف کا تقاضا ہے کہ غلطیوں اور کوتاہیوں پر گرفت کے ساتھ ساتھ صحتِ تلفُّظ کا خیال رکھنے کی کوششوں کی تحسین بھی کی جائے۔ اسی وجہ سے ہم نے معاصرانہ چشمک کے آداب نظرانداز کرکے ’’دنیا نیوز‘‘ کا نام بھی تحریر کردیا۔ دُنیائے صحافت میں رائج روایت کے مطابق ’’ایک معاصر ٹی وی چینل‘‘ نہیں لکھا۔
’’دنیا نیوز‘‘ ہی پر کچھ دوسرے الفاظ کے بھی درست تلفظ سنے تو محسوس ہوا کہ شاید اس ادارے میں کسی کو اصلاحِ تلفظ کی ذمہ داری سونپ دی گئی ہے (یاممکن ہے کہ کسی نے رضاکارانہ یہ ذمہ داری اپنے سر لے لی ہو)۔ اگر ہمارے ملک میں ابلاغیات کے تمام ادارے، بالخصوص برقی ذرائع ابلاغ، اپنے خبر خوانوں اور میزبانوں کا حسنِ صورت سنوارنے کے ساتھ ساتھ اُن کا حسنِ کلام نکھارنے کا بھی کوئی بندوبست کرلیں تو ان کی توقیر میں اضافہ ہی ہوگا، کمی نہیں ہوگی۔ اور نہ صرف اُن کے ادارے کی قدربڑھے گی بلکہ ان کے قارئین، سامعین، ناظرین اور بالخصوص طلبہ و طالبات کی بھی علمی و عملی تربیت ہوجائے گی۔ عصر حاضر میں عوام النّاس کی (صحیح یا غلط) تربیت کے لیے ذرائع ابلاغ سے زیادہ مؤثر ذریعہ شاید ہی کوئی اور ہو۔ ’’سماجی ذرائع ابلاغ‘‘ کا کردار تو اب تمام ذرائع سے زیادہ مؤثر ہوتا جارہا ہے۔
’’خورد‘‘ کے لفظی معنی ہیں ’’کھا گیا‘‘ یا ’’کھاگئی‘‘۔ اس کا مصدر ’’خوردن‘‘ ہے، یعنی کھانا۔ مثل مشہور ہے: ’’حلوہ خوردن روئے باید‘‘ یعنی حلوہ کھانے کے لیے منہ چاہیے۔ جو چیز کھانے کے قابل ہو اُسے ’’خوردنی‘‘ کہتے ہیں، مثلاًکھانے کے نمک کو ’’نمکِ خوردنی‘‘ کہا جاتا ہے۔ ’’خورد‘‘ کے انھی معنوں میں ایک فارسی ضرب المثل اردو میں کثرت سے استعمال ہوئی ہے: ’’آں دفتر را گاؤ خورد‘‘۔ یعنی سارے کا سارا پلندہ گائے کھاگئی۔ یہ ضرب المثل بالعموم تمام ریکارڈ ’غَتْ رَبُود‘ کرڈالنے کے بعد اپنے کیے دھرے کا الزام گئو ماتا کے سر ڈال دینے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ ریکارڈ کا نام و نشان تک مٹا ڈالنے کے سلسلے میں ہم نے اس ضرب المثل کی مزید تفصیل بھی پڑھی ہے: ’’آں دفتر را گاؤ خورد،گاؤ را قصاب بُرد، قصاب در راہ مُرد‘‘۔ یعنی کاغذات و دستاویزات و مسودات کا سارا مجموعہ گائے کھا گئی، گائے کو قصاب پکڑ کر لے گیا اور (بے چارا) قصاب رستے ہی میں فوت ہوگیا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ اب کرلو برآمد سارا ریکارڈ۔
’’خورد‘‘ کے ایک معنی چھوٹا، صغیر اورکم سِن بھی ہیں۔ مگر اہلِ لغت کے نزدیک اس کو ’’واؤ‘‘ کے بغیر لکھنا زیادہ صحیح ہے۔ مثلاً: ’’سگ باش برادرِ خُرد مباش‘‘۔ اور مثلاً خُرد بین، خُردہ فروش (چھوٹا دُکان دار)، خردہ گیری (چھوٹی چھوٹی باتیں پکڑنے کی عادت، جو زیادہ تر خواتین اور ٹی وی پر چونچیں لڑانے والے سیاست دانوں میں پائی جاتی ہے)، خُردک (بہت ہی چھوٹا، حقیر، کیڑا ، جرثومہ وغیرہ)۔ ریزگاری کو بھی ’’خُردہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اردو زبان کا ایک محاورہ ہے: ’’ایسا بھی کیا دل گردہ کہ روپیہ کیا خُردہ‘‘۔ یہاں ’’دل گردہ‘‘ سے غالباً شیخی دکھانے کے لیے اِسراف میں روپیہ برباد کردینے کا دل گردہ مراد ہے۔
جب کہ ’’خور‘‘ کے معنی ہیں تھوڑا سا کھانا، خوراک، غذا (خوراک دوا کی اُس مقدار کو بھی کہتے ہیں جو ایک وقت میں دی جائے)۔ ’’خور‘‘ کا لفظ ’’خورشید‘‘کے مخفف کے طور پر بھی استعمال کیا گیا ہے، مگر اسے خُر پڑھتے ہیں۔ غالبؔ کا یہ شعر دیکھیے:
پرتوِ خُور سے ہے شبنم کو فنا کی تعلیم
میں بھی ہوں ایک عنایت کی نظر ہونے تک
(پَرتَو کے معنی ہیں:کرن، شعاع، روشنی، عکس، جھلک، اثر)
تو’’خور و نوش‘‘ کے معنی ہوئے ’’کھانا پینا‘‘ یا گزر اوقات کرنا۔ جیسا کہ ناسخؔ نے کہا:
کبھی اشک پینا، کبھی رنج کھانا
یہی عشق میں ہے خور و نوش اپنا
’’خور و نوش‘‘ کے علاوہ ہماری زبان میں ’’خور و پوش‘‘ بھی استعمال ہوتا رہا ہے، یعنی ’’خوراک اورپوشاک‘‘۔ مراد اس سے بھی گزر اوقات کا سامان ہی ہے۔
نظری طور پر ذرائع ابلاغ کے تین اہم وظائف بیان کیے جاتے ہیں جو اہمیت کے لحاظ سے علی الترتیب اطلاعات، تعلیمات اور تفریحات ہیں۔ اطلاعات یا خبروں کی بے اعتباری کا جو حال ہوگیا ہے وہ سب ہی کو معلوم ہے۔ اس کے بعد بس تفریحات ہی رہ گئی ہیں۔ تفریحات کے نام پر بھی محض اُچھل کود، بے ہودہ کھلواڑ، گانے بجانے کے تماشے یا جگت بازی کے غیر معیاری اور چھچھورے مظاہرے کیے جاتے ہیں۔ تعلیمات میں صرف پکوان پکانے (یعنی خورونوش)کی تعلیم دی جاتی ہے، یا مَشّاطگی (میک اپ) کا طریقہ سکھایا جاتا ہے (حالاں کہ … ’’حاجتِ مَشّاطہ نیست رُوئے دلآرام را‘‘… دلآرام کے [خوب صورت] چہرے کو سنگھار کرنے والی کی محتاجی نہیں ہے)۔ بچوں یا طلبہ و طالبات کے لیے علمی ومعلوماتی پروگرام کسی بھی واسطے سے نشر نہیں ہوتے۔ سب پرغیروں کی نقّالی کا بھوت سوار ہے۔ ذرائع ابلاغ کی حکمتِ عملی بنانے والوں کو یہ بات سمجھنے اور سمجھانے کی ضرورت ہے کہ عزت اور مرتبے میں اضافہ نقّالی سے نہیں، پیشوائی سے ہوتا ہے۔ نقّال، کسی کی نقّالی میں خواہ کتنا ہی پختہ کیوں نہ ہوجائے ہمیشہ نقّال ہی کہا جائے گا۔
ٹی وی کے جن پروگراموں میں خورونوش کی تیاری کا طریقہ سکھایا جاتا ہے، ان میں بھی اُردو ملی ہوئی انگریزی بکثرت استعمال کی جاتی ہے (اردو زبان کے صرف حروفِ ربط ’’کا، کی، کے، کو، ہے‘‘ وغیرہ استعمال کیے جاتے ہیں)۔ باورچی یا طبّاخ کو اب ’’شیف‘‘ کہا جانے لگا ہے، جو فرانسیسی سے اونچی باڑھ کی ٹوپی اوڑھ کر انگریزی میں در آیا تھا۔ طبّاخ کوئی حقیر لفظ نہیں ہے۔ شاہانِ سلف کے ہاں طبّاخوں (یا’’طوابخ‘‘) کا بڑا احترام تھا۔ ان محترم لوگوں کے نگراں کو ’’میر مطبخ‘‘ کہا جاتا تھا (’’مطبخ‘‘ باورچی خانے کوکہتے ہیں)۔ طبّاخ کا اسم مؤنث ’’طابِخَہ‘‘ ہے۔ یہ لفظ اجنبی محسوس ہوتا ہے۔ مگر ہر اجنبی لفظ کثرتِ استعمال سے مانوس ہوجاتا ہے۔ ہماری موجودہ بول چال میں کتنے ہی اجنبی الفاظ ایسے ہیں جو اَب سے فقط پچاس برس پہلے کے لوگوں نے سنے بھی نہیں ہوں گے مگر اب ہر کَہ و مَہ کو مانوس ہیں، مثلاً:
’’میں یہ وڈیوکلِپ تمھیں واٹس ایپ کردوں گا‘‘۔
اگر پچاس برس پہلے کا مُردہ زندہ ہوکر ہمارے درمیان آکھڑا ہو تو یہ فقرہ سنتے ہی مارے خوف کے بھاگ کھڑا ہوگا، یا اُس کی روح پھر پرواز کرجائے گی کہ یہ مردِ ناداں کسی نامعلوم شے سے نہ جانے میرا کیا حشر کرڈالنے کی دھمکی دے بیٹھا ہے؟
کچھ عرصہ پہلے تک جماعتِ اسلامی کے سالانہ اجتماعات اور کئی روزہ تربیت گاہوں میں قائم ہونے والے باورچی خانے کو بھی ’’مطبخ‘‘ کہا جاتا تھا اور اس کا نظم و نَسَق چلانے والے کو ’’ناظمِ مطبخ‘‘۔ مگر ہماری خوب صورت اصطلاحات اب عدم استعمال کے باعث نئی نسل کے لیے نامانوس ہوتی جارہی ہیں۔ اب تک جو الفاظ نامانوس نہیں ہوئے ہیں، انھیں بھی نامانوس کرنے کی کوششیں ہمارے برقی ذرائع ابلاغ سے شدّ و مد کے ساتھ جاری ہیں۔ مثلاً پکانے کے لیے ’’کُک‘‘ کرنا، تلنے کے لیے’’ فرائی ‘‘کرنا، اُبالنے کے لیے ’’بوائل‘‘ کرنا، چھاننے یا پَسانے کے لیے ’’اسٹین‘‘ کرنا، سجانے کے لیے ’’گارنش‘‘ کرنا اور پِسی مرچوں کے لیے ’’چلّی پاوڈر‘‘ جیسے ایلوپیتھک الفاظ استعمال کیے جانے لگے ہیں۔ مسالے اب ’’اِنگریڈینٹ‘‘ ہوگئے ہیں اور ترکیب ’’ریسی پی‘‘۔ حالاں کہ اگر اپنی زبان کے آسان اور مانوس الفاظ استعمال کرتے ہوئے پکایا جائے تو زبان کے چٹخارے میں کوئی کمی آئے گی نہ پکوانوں کا ذائقہ تبدیل ہوگا۔
ابو نثر (احمد حاطب صدیقی)
’’دنیا نیوز‘‘ پر خبریں سنتے اور دیکھتے ہوئے اُس وقت خوش گوار حیرت ہوئی جب خبر خواں خاتون نے ’’اشیائے خور و نوش‘‘ کے مزید گراں ہوجانے کی خبرسنائی۔ خوشی یا حیرت گرانی بڑھنے پر نہیں ہوئی۔ اس میں بھلا حیرت کی کیا بات ہے؟ ہمارے بچپن سے لے کر اب بڑھاپا آجانے تک گرانی بڑھتی ہی گئی ہے۔ کم تو کبھی نہیں ہوئی۔ حیرت اس بات پر ہوئی کہ خاتون نے ایک غلط العوام ترکیب ’’خورد-و- نوش‘‘ کی جگہ بالکل درست ترکیب استعمال کی۔
انصاف کا تقاضا ہے کہ غلطیوں اور کوتاہیوں پر گرفت کے ساتھ ساتھ صحتِ تلفُّظ کا خیال رکھنے کی کوششوں کی تحسین بھی کی جائے۔ اسی وجہ سے ہم نے معاصرانہ چشمک کے آداب نظرانداز کرکے ’’دنیا نیوز‘‘ کا نام بھی تحریر کردیا۔ دُنیائے صحافت میں رائج روایت کے مطابق ’’ایک معاصر ٹی وی چینل‘‘ نہیں لکھا۔
’’دنیا نیوز‘‘ ہی پر کچھ دوسرے الفاظ کے بھی درست تلفظ سنے تو محسوس ہوا کہ شاید اس ادارے میں کسی کو اصلاحِ تلفظ کی ذمہ داری سونپ دی گئی ہے (یاممکن ہے کہ کسی نے رضاکارانہ یہ ذمہ داری اپنے سر لے لی ہو)۔ اگر ہمارے ملک میں ابلاغیات کے تمام ادارے، بالخصوص برقی ذرائع ابلاغ، اپنے خبر خوانوں اور میزبانوں کا حسنِ صورت سنوارنے کے ساتھ ساتھ اُن کا حسنِ کلام نکھارنے کا بھی کوئی بندوبست کرلیں تو ان کی توقیر میں اضافہ ہی ہوگا، کمی نہیں ہوگی۔ اور نہ صرف اُن کے ادارے کی قدربڑھے گی بلکہ ان کے قارئین، سامعین، ناظرین اور بالخصوص طلبہ و طالبات کی بھی علمی و عملی تربیت ہوجائے گی۔ عصر حاضر میں عوام النّاس کی (صحیح یا غلط) تربیت کے لیے ذرائع ابلاغ سے زیادہ مؤثر ذریعہ شاید ہی کوئی اور ہو۔ ’’سماجی ذرائع ابلاغ‘‘ کا کردار تو اب تمام ذرائع سے زیادہ مؤثر ہوتا جارہا ہے۔
’’خورد‘‘ کے لفظی معنی ہیں ’’کھا گیا‘‘ یا ’’کھاگئی‘‘۔ اس کا مصدر ’’خوردن‘‘ ہے، یعنی کھانا۔ مثل مشہور ہے: ’’حلوہ خوردن روئے باید‘‘ یعنی حلوہ کھانے کے لیے منہ چاہیے۔ جو چیز کھانے کے قابل ہو اُسے ’’خوردنی‘‘ کہتے ہیں، مثلاًکھانے کے نمک کو ’’نمکِ خوردنی‘‘ کہا جاتا ہے۔ ’’خورد‘‘ کے انھی معنوں میں ایک فارسی ضرب المثل اردو میں کثرت سے استعمال ہوئی ہے: ’’آں دفتر را گاؤ خورد‘‘۔ یعنی سارے کا سارا پلندہ گائے کھاگئی۔ یہ ضرب المثل بالعموم تمام ریکارڈ ’غَتْ رَبُود‘ کرڈالنے کے بعد اپنے کیے دھرے کا الزام گئو ماتا کے سر ڈال دینے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ ریکارڈ کا نام و نشان تک مٹا ڈالنے کے سلسلے میں ہم نے اس ضرب المثل کی مزید تفصیل بھی پڑھی ہے: ’’آں دفتر را گاؤ خورد،گاؤ را قصاب بُرد، قصاب در راہ مُرد‘‘۔ یعنی کاغذات و دستاویزات و مسودات کا سارا مجموعہ گائے کھا گئی، گائے کو قصاب پکڑ کر لے گیا اور (بے چارا) قصاب رستے ہی میں فوت ہوگیا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ اب کرلو برآمد سارا ریکارڈ۔
’’خورد‘‘ کے ایک معنی چھوٹا، صغیر اورکم سِن بھی ہیں۔ مگر اہلِ لغت کے نزدیک اس کو ’’واؤ‘‘ کے بغیر لکھنا زیادہ صحیح ہے۔ مثلاً: ’’سگ باش برادرِ خُرد مباش‘‘۔ اور مثلاً خُرد بین، خُردہ فروش (چھوٹا دُکان دار)، خردہ گیری (چھوٹی چھوٹی باتیں پکڑنے کی عادت، جو زیادہ تر خواتین اور ٹی وی پر چونچیں لڑانے والے سیاست دانوں میں پائی جاتی ہے)، خُردک (بہت ہی چھوٹا، حقیر، کیڑا ، جرثومہ وغیرہ)۔ ریزگاری کو بھی ’’خُردہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اردو زبان کا ایک محاورہ ہے: ’’ایسا بھی کیا دل گردہ کہ روپیہ کیا خُردہ‘‘۔ یہاں ’’دل گردہ‘‘ سے غالباً شیخی دکھانے کے لیے اِسراف میں روپیہ برباد کردینے کا دل گردہ مراد ہے۔
جب کہ ’’خور‘‘ کے معنی ہیں تھوڑا سا کھانا، خوراک، غذا (خوراک دوا کی اُس مقدار کو بھی کہتے ہیں جو ایک وقت میں دی جائے)۔ ’’خور‘‘ کا لفظ ’’خورشید‘‘کے مخفف کے طور پر بھی استعمال کیا گیا ہے، مگر اسے خُر پڑھتے ہیں۔ غالبؔ کا یہ شعر دیکھیے:
پرتوِ خُور سے ہے شبنم کو فنا کی تعلیم
میں بھی ہوں ایک عنایت کی نظر ہونے تک
(پَرتَو کے معنی ہیں:کرن، شعاع، روشنی، عکس، جھلک، اثر)
تو’’خور و نوش‘‘ کے معنی ہوئے ’’کھانا پینا‘‘ یا گزر اوقات کرنا۔ جیسا کہ ناسخؔ نے کہا:
کبھی اشک پینا، کبھی رنج کھانا
یہی عشق میں ہے خور و نوش اپنا
’’خور و نوش‘‘ کے علاوہ ہماری زبان میں ’’خور و پوش‘‘ بھی استعمال ہوتا رہا ہے، یعنی ’’خوراک اورپوشاک‘‘۔ مراد اس سے بھی گزر اوقات کا سامان ہی ہے۔
نظری طور پر ذرائع ابلاغ کے تین اہم وظائف بیان کیے جاتے ہیں جو اہمیت کے لحاظ سے علی الترتیب اطلاعات، تعلیمات اور تفریحات ہیں۔ اطلاعات یا خبروں کی بے اعتباری کا جو حال ہوگیا ہے وہ سب ہی کو معلوم ہے۔ اس کے بعد بس تفریحات ہی رہ گئی ہیں۔ تفریحات کے نام پر بھی محض اُچھل کود، بے ہودہ کھلواڑ، گانے بجانے کے تماشے یا جگت بازی کے غیر معیاری اور چھچھورے مظاہرے کیے جاتے ہیں۔ تعلیمات میں صرف پکوان پکانے (یعنی خورونوش)کی تعلیم دی جاتی ہے، یا مَشّاطگی (میک اپ) کا طریقہ سکھایا جاتا ہے (حالاں کہ … ’’حاجتِ مَشّاطہ نیست رُوئے دلآرام را‘‘… دلآرام کے [خوب صورت] چہرے کو سنگھار کرنے والی کی محتاجی نہیں ہے)۔ بچوں یا طلبہ و طالبات کے لیے علمی ومعلوماتی پروگرام کسی بھی واسطے سے نشر نہیں ہوتے۔ سب پرغیروں کی نقّالی کا بھوت سوار ہے۔ ذرائع ابلاغ کی حکمتِ عملی بنانے والوں کو یہ بات سمجھنے اور سمجھانے کی ضرورت ہے کہ عزت اور مرتبے میں اضافہ نقّالی سے نہیں، پیشوائی سے ہوتا ہے۔ نقّال، کسی کی نقّالی میں خواہ کتنا ہی پختہ کیوں نہ ہوجائے ہمیشہ نقّال ہی کہا جائے گا۔
ٹی وی کے جن پروگراموں میں خورونوش کی تیاری کا طریقہ سکھایا جاتا ہے، ان میں بھی اُردو ملی ہوئی انگریزی بکثرت استعمال کی جاتی ہے (اردو زبان کے صرف حروفِ ربط ’’کا، کی، کے، کو، ہے‘‘ وغیرہ استعمال کیے جاتے ہیں)۔ باورچی یا طبّاخ کو اب ’’شیف‘‘ کہا جانے لگا ہے، جو فرانسیسی سے اونچی باڑھ کی ٹوپی اوڑھ کر انگریزی میں در آیا تھا۔ طبّاخ کوئی حقیر لفظ نہیں ہے۔ شاہانِ سلف کے ہاں طبّاخوں (یا’’طوابخ‘‘) کا بڑا احترام تھا۔ ان محترم لوگوں کے نگراں کو ’’میر مطبخ‘‘ کہا جاتا تھا (’’مطبخ‘‘ باورچی خانے کوکہتے ہیں)۔ طبّاخ کا اسم مؤنث ’’طابِخَہ‘‘ ہے۔ یہ لفظ اجنبی محسوس ہوتا ہے۔ مگر ہر اجنبی لفظ کثرتِ استعمال سے مانوس ہوجاتا ہے۔ ہماری موجودہ بول چال میں کتنے ہی اجنبی الفاظ ایسے ہیں جو اَب سے فقط پچاس برس پہلے کے لوگوں نے سنے بھی نہیں ہوں گے مگر اب ہر کَہ و مَہ کو مانوس ہیں، مثلاً:
’’میں یہ وڈیوکلِپ تمھیں واٹس ایپ کردوں گا‘‘۔
اگر پچاس برس پہلے کا مُردہ زندہ ہوکر ہمارے درمیان آکھڑا ہو تو یہ فقرہ سنتے ہی مارے خوف کے بھاگ کھڑا ہوگا، یا اُس کی روح پھر پرواز کرجائے گی کہ یہ مردِ ناداں کسی نامعلوم شے سے نہ جانے میرا کیا حشر کرڈالنے کی دھمکی دے بیٹھا ہے؟
کچھ عرصہ پہلے تک جماعتِ اسلامی کے سالانہ اجتماعات اور کئی روزہ تربیت گاہوں میں قائم ہونے والے باورچی خانے کو بھی ’’مطبخ‘‘ کہا جاتا تھا اور اس کا نظم و نَسَق چلانے والے کو ’’ناظمِ مطبخ‘‘۔ مگر ہماری خوب صورت اصطلاحات اب عدم استعمال کے باعث نئی نسل کے لیے نامانوس ہوتی جارہی ہیں۔ اب تک جو الفاظ نامانوس نہیں ہوئے ہیں، انھیں بھی نامانوس کرنے کی کوششیں ہمارے برقی ذرائع ابلاغ سے شدّ و مد کے ساتھ جاری ہیں۔ مثلاً پکانے کے لیے ’’کُک‘‘ کرنا، تلنے کے لیے’’ فرائی ‘‘کرنا، اُبالنے کے لیے ’’بوائل‘‘ کرنا، چھاننے یا پَسانے کے لیے ’’اسٹین‘‘ کرنا، سجانے کے لیے ’’گارنش‘‘ کرنا اور پِسی مرچوں کے لیے ’’چلّی پاوڈر‘‘ جیسے ایلوپیتھک الفاظ استعمال کیے جانے لگے ہیں۔ مسالے اب ’’اِنگریڈینٹ‘‘ ہوگئے ہیں اور ترکیب ’’ریسی پی‘‘۔ حالاں کہ اگر اپنی زبان کے آسان اور مانوس الفاظ استعمال کرتے ہوئے پکایا جائے تو زبان کے چٹخارے میں کوئی کمی آئے گی نہ پکوانوں کا ذائقہ تبدیل ہوگا۔