محمد تابش صدیقی
منتظم
گنتی میں بے شمار تھے کم کر دیے گئے
ابونثر (احمد حاطب صدیقی)
٭
صاحبو! یہ ذکرہے پچھلی صدی کی ساتویں دہائی کا۔
اور اے عزیزو! یہ نہ جانو کہ اِس دنیا میں بس ایک ہم ہی ’دقیانوس‘ رہ گئے ہیں۔ اب کے برس اکیس برس کی عمر کو پہنچ جانے والے یا اس سِن سے سِوا عمر جتنے لوگ ہیں، سب کے سب پچھلی صدی کے لوگ ہیں۔
پچھلی صدی کے ساتویں دَہے تک کا تو ہمیں ذاتی تجربہ ہے۔ ہمارے سرکاری مدارس میں ابتدائی جماعتوں سے ثانوی جماعتوں تک ذریعۂ تعلیم قومی زبان تھی۔ تمام مضامین اُردو میں پڑھائے جاتے تھے۔ علمِ ریاضی کا ریاض بھی ہم اردو ہی میں کرتے تھے۔ ریاضی کی تعلیم کا آغاز گنتی سکھانے سے ہوتا تھا۔ ہماری گنتی اِکائی، دہائی، سیکڑہ، ہزار، دس ہزار، لاکھ، دس لاکھ، کروڑ، دس کروڑ سے تجاوز کرتی ہوئی ارب، دس ارب، کھرب، دس کھرب، پدم، دس پدم اور سنکھ، مہا سنکھ تک جا پہنچتی تھی۔ روپے کی قیمت جتنی تیزی سے نیچے گر رہی ہے، خیانت، غبن اور لوٹ کھسوٹ کی وبا بھی اُتنی ہی تیزی سے اوپر کو چڑھ رہی ہے۔ شاید اب خائنوں کے لیے سنکھ اور مہا سنکھ کا شمار بھی کم پڑ جائے۔ ہمارے بچپن تک تو چور اُچکے لوگوں کو دیکھتے ہی ’نو دو گیارہ‘ ہوجاتے تھے۔ اب ’تبدیلی‘ یہ آئی ہے کہ لوگوں کی بھاری اکثریت کا اعتماد پاکر قومی خزانہ لوٹتے ہیں اور عدالت سے سزا پانے کے بعد ’وَن، ٹُو، تھری‘ ہوجاتے ہیں۔
گنتی بدلنے سے بہت کچھ بدل گیا۔ ہماری وہ علمی و ادبی کتابیں تو خیر ردّی کا ڈھیر بن ہی گئیں جو اِنھیں گنتیوں پر مشتمل علوم و فنون، محاوروں، ضرب الامثال اور روزمرّوں سے مزین تھیں۔ حروف و اعداد کی تبدیلی سے ذہن بھی بدل گئے۔ اب ہمیں اپنی کوئی چیز اچھی ہی نہیں لگتی۔ غیروں کی ہر ادا پر فریفتہ ہیں۔ شاید ہم دنیا کی واحد قوم ہیں جس کے اپنے لوگ اپنے عقائد، اپنی ثقافت، اپنی زبان، اپنے حروف اور اپنے اعداد پر آپ ہی طنز و تعریض کے تیر برساتے ہیں۔ یہ نفسیاتی اور قلبی تبدیلی دیکھ کر ہمیں اکبرؔ مرحوم کا یہ شعر یاد آجاتا ہے:
علمِ ریاضی میں مسلمانوں کے کارناموں پر کتابیں لکھی گئی ہیں۔ ہم کالم کیا لکھیں؟ صفر کے استعمال اور عربی ہندسوں کے رواج نے رومن گنتی کی طوالت سے دنیا کو نجات دلائی۔ آج جن ہندسوں کو ہم انگریزی ہندسے سمجھتے ہیں وہ دراصل عربی ہندسے ہیں۔ صفر کے استعمال کے سبب لامتناہی اعداد کو دس دس کے ٹکڑوں یعنی دہائیوں میں تقسیم کرنا آسان ہوگیا۔ اسی حساب کے طفیل حاسِب (Computer) ایجاد ہوا۔ مسلمانوں نے ہمیشہ اپنے علوم کو پھیلایا۔ طبیعات، کیمیا، حیاتیات، طب، ہیئت اور ریاضی سمیت تمام علوم کو تمام انسانوں میں عام کیا، جس سے دنیا کی موجودہ سائنسی ترقی ممکن ہوئی۔ مسلمانوں نے علم کا ’اخفائے راز‘ کبھی نہیں کیا۔ کبھی یہ پابندی نہیں لگائی کہ فلاں رنگ، فلاں نسل، فلاں علاقے یا فلاں مذہب کے لوگوں پر فلاں فلاں علم حاصل کرنے پر پابندی ہے۔ مثلاً جوہری علوم کی فلاں فلاں شاخ یا عصبیاتی علوم کے فلاں فلاں حصے فلاں فلاں لوگوں کے لیے ممنوع ہیں۔
اس بقراطی کے بعد آئیے اب ہم مل جل کر اپنے ماہرینِ ابلاغیات کی توجہ لفظ ’دَہائی‘ کے استعمال کی طرف مبذول کرائیں۔ ہماری توجہ اس طرف پروفیسر ڈاکٹر غازی علم الدین نے مبذول کرائی ہے۔ بات یہ ہے کہ ایک سے دس تک کی گنتی کو پہلی دہائی کہا جاتا ہے۔ گیارہ سے بیس تک دوسری دہائی ہے۔ اکیس سے تیس تک تیسری اور اکتیس سے چالیس تک چوتھی۔ بس اسی پر آگے قیاس کرتے چلے جائیے۔ دہائی کو حسبِ ضرورت دَہا، دَہے یا دَہوں کی صورت میں بھی لکھا جاتا ہے۔ ایک صدی میں دس دہائیاں ہوتی ہیں۔ کالم کے آغاز میں ہم نے جس ساتویں دہائی کا ذکر کیا ہے وہ سنہ ساٹھ سے سنہ ستّر تک تھی۔ دوسروں کو کیا نام دھریں؟ ہم خود۱۹۶۰ کی دہائی یا ۱۹۷۰ کی دہائی کے الفاظ استعمال کیا کرتے تھے۔ جب کہ یہاں بالترتیب ساتویں دہائی اور آٹھویں دہائی کہنے کا موقع تھا۔ یہی حال صدی کا ہے۔ ۱۹۰۰ء پر اُنیسویں صدی تمام ہوگئی۔ ۱۹۰۱ء سے بیسویںصدی کا آغاز ہوا۔ اسی طرح سنہ ۲۰۰۰ء پر بیسویں صدی ختم ہوگئی۔ ۲۰۰۱ء سے اکیسویں صدی کا آغاز ہوچکا ہے۔ لہٰذا ’’اکیسویں صدی میں ہم جی رہے ہیں بھائی‘‘۔ اکیسویں صدی کے متعلق بشیر بدرؔ نے بھی ایک پیش گوئی کی تھی۔ جانے کس صدی میں کی تھی اورجانے کب پوری ہوگی:
گنتی سے بننے والے محاوروں کی گنتی کرنا آسان نہیں۔صرف عدد ’ایک‘ سے بننے والے چند محاوروں پر ایک نظر ڈال لیجیے۔ ’ایک آنچ کی کسر رہ جانا‘یعنی ذرا سانقص یا کمی باقی رہ جانا۔’ ایک آنکھ سے دیکھنا‘یعنی سب کو یکساں سمجھنا، اپنے پرائے کا فرق نہ کرنا، انصاف پسند ہونا۔’ ایک آنکھ نہ بھانا‘ یعنی بالکل ہی پسند نہ آنا۔’ ایک انڈا وہ بھی گندا‘ یہ محاورہ بالعموم ایک ہی بیٹا اور وہ بھی نالائق ہونے کے موقع پر استعمال کیا جاتا ہے، یا ایک ہی چیز میسر ہو اور وہ بھی ناکارہ۔’ ایک اور ایک گیارہ‘یا ’ ایک سے دو بھلے‘ مراد یہ کہ اتحاد میں برکت ہے۔ ’ایک پنتھ دو کاج‘ایک ہی تدبیر سے دو کام ہوجانا یا ایک کے ساتھ دوسرا فائدہ بھی اُٹھا لینا۔’ایک جان دو قالب‘ دو افراد میں گہری محبت ہونا۔اور ’ایک حمام میں سب ننگے‘، سیاستِ دوراںکا تماشا کرنے والے عوام کو اس محاورے کا مطلب خوب معلوم ہے۔بتانے کی ضرورت نہیں۔
بامحاورہ گفتگو سمجھنے اور کرنے کے لیے اردو کی گنتی سے واقفیت ضروری ہے۔ مگراب ایک دو افراد کو چھوڑ کر اردو کے بڑے بڑے ادیب بھی انگریزی گنتی گننے لگے ہیں، ہم توتین میں ہیں نہ تیرہ میں۔المیہ یہ ہے کہ چار پیسے ہاتھ آتے ہی لوگ انگریز بننے لگتے ہیں۔ اگر ناجائز کمائی سے پانچوں اُنگلیاں گھی میں ہوں اور سر کڑھائی میں گھس جائے تو دولت مند ہی میں نہیں اُس کی اولاد میں بھی پانچوں شرعی عیب پیدا ہوجاتے ہیں (چوری، جھوٹ، جوا، شراب، زنا)۔ جب ملک میں شرعی سزائیں نافذ ہوتی ہیں تو انھیں چھٹی کا دودھ یاد آجا تا ہے۔ فوراً سات سمندر پار بھاگتے ہیں۔اغیار کے آگے آٹھ آٹھ آنسو بہاتے ہیں کہ ہم پر بڑا ظلم ہوگیا۔ یہ نہیں بتاتے کہ ہم قانون شکنی کی سزا پانے کے ڈر سے اپنے گھر سے نو دو گیارہ ہوئے تھے۔ آپ کو دسیوں لوگ ایسے ملیں گے جو برس ہا برس باہر کے تھپیڑے کھاتے رہے اور نہیں بدلے۔ حالاں کہ بارہ برس میں تو گھورے کے دن بھی پھر جاتے ہیں، اورمغرب پہنچ کر تو لوگوں کے چودہ طبق روشن ہو جاتے ہیں۔
(اب یہیں بس کرتے ہیں۔ ایک سے لے کر چودہ تک کی گنتی تو آگئی۔آگے خود کوشش کرلیجیے۔)
گنتی کھوئی سو کھوئی، ہندسوں کی پہچان بھی کھو بیٹھے۔ہندسے نہ پہچاننے سے نئی نسل کے لیے اس قسم کے شوخ فقروں سے لطف اُٹھانا ہی ممکن نہ رہا کہ میاں بیوی اوّل اوّل ۲۶ کے ہندسے کی طرح سوتے ہیں، پھر ہوتے ہوتے (بلکہ سوتے سوتے) ۶۲ کے ہندسے کی طرح سونے لگتے ہیں کہ ’تم اپنا منہ اُدھر کرو، ہم اپنا منہ اِدھر کریں‘۔
خوانندگانِ گرامی!مسلم تہذیب کی دی ہوئی یک زبانی نے برصغیر میں یک دلی اور وحدت پیدا کی تھی۔زبان بدل دی گئی تو علم و ادب کی جاگیر بھی حصوں بخروں میں بٹ گئی۔لشکر لشکر ہی نہ رہا۔بقولِ عالمتاب تشنہؔ:
ابونثر (احمد حاطب صدیقی)
٭
صاحبو! یہ ذکرہے پچھلی صدی کی ساتویں دہائی کا۔
اور اے عزیزو! یہ نہ جانو کہ اِس دنیا میں بس ایک ہم ہی ’دقیانوس‘ رہ گئے ہیں۔ اب کے برس اکیس برس کی عمر کو پہنچ جانے والے یا اس سِن سے سِوا عمر جتنے لوگ ہیں، سب کے سب پچھلی صدی کے لوگ ہیں۔
پچھلی صدی کے ساتویں دَہے تک کا تو ہمیں ذاتی تجربہ ہے۔ ہمارے سرکاری مدارس میں ابتدائی جماعتوں سے ثانوی جماعتوں تک ذریعۂ تعلیم قومی زبان تھی۔ تمام مضامین اُردو میں پڑھائے جاتے تھے۔ علمِ ریاضی کا ریاض بھی ہم اردو ہی میں کرتے تھے۔ ریاضی کی تعلیم کا آغاز گنتی سکھانے سے ہوتا تھا۔ ہماری گنتی اِکائی، دہائی، سیکڑہ، ہزار، دس ہزار، لاکھ، دس لاکھ، کروڑ، دس کروڑ سے تجاوز کرتی ہوئی ارب، دس ارب، کھرب، دس کھرب، پدم، دس پدم اور سنکھ، مہا سنکھ تک جا پہنچتی تھی۔ روپے کی قیمت جتنی تیزی سے نیچے گر رہی ہے، خیانت، غبن اور لوٹ کھسوٹ کی وبا بھی اُتنی ہی تیزی سے اوپر کو چڑھ رہی ہے۔ شاید اب خائنوں کے لیے سنکھ اور مہا سنکھ کا شمار بھی کم پڑ جائے۔ ہمارے بچپن تک تو چور اُچکے لوگوں کو دیکھتے ہی ’نو دو گیارہ‘ ہوجاتے تھے۔ اب ’تبدیلی‘ یہ آئی ہے کہ لوگوں کی بھاری اکثریت کا اعتماد پاکر قومی خزانہ لوٹتے ہیں اور عدالت سے سزا پانے کے بعد ’وَن، ٹُو، تھری‘ ہوجاتے ہیں۔
گنتی بدلنے سے بہت کچھ بدل گیا۔ ہماری وہ علمی و ادبی کتابیں تو خیر ردّی کا ڈھیر بن ہی گئیں جو اِنھیں گنتیوں پر مشتمل علوم و فنون، محاوروں، ضرب الامثال اور روزمرّوں سے مزین تھیں۔ حروف و اعداد کی تبدیلی سے ذہن بھی بدل گئے۔ اب ہمیں اپنی کوئی چیز اچھی ہی نہیں لگتی۔ غیروں کی ہر ادا پر فریفتہ ہیں۔ شاید ہم دنیا کی واحد قوم ہیں جس کے اپنے لوگ اپنے عقائد، اپنی ثقافت، اپنی زبان، اپنے حروف اور اپنے اعداد پر آپ ہی طنز و تعریض کے تیر برساتے ہیں۔ یہ نفسیاتی اور قلبی تبدیلی دیکھ کر ہمیں اکبرؔ مرحوم کا یہ شعر یاد آجاتا ہے:
شیخ مرحوم کا قول اب مجھے یاد آتا ہے
دل بدل جائیں گے تعلیم بدل جانے سے
دل بدل جائیں گے تعلیم بدل جانے سے
علمِ ریاضی میں مسلمانوں کے کارناموں پر کتابیں لکھی گئی ہیں۔ ہم کالم کیا لکھیں؟ صفر کے استعمال اور عربی ہندسوں کے رواج نے رومن گنتی کی طوالت سے دنیا کو نجات دلائی۔ آج جن ہندسوں کو ہم انگریزی ہندسے سمجھتے ہیں وہ دراصل عربی ہندسے ہیں۔ صفر کے استعمال کے سبب لامتناہی اعداد کو دس دس کے ٹکڑوں یعنی دہائیوں میں تقسیم کرنا آسان ہوگیا۔ اسی حساب کے طفیل حاسِب (Computer) ایجاد ہوا۔ مسلمانوں نے ہمیشہ اپنے علوم کو پھیلایا۔ طبیعات، کیمیا، حیاتیات، طب، ہیئت اور ریاضی سمیت تمام علوم کو تمام انسانوں میں عام کیا، جس سے دنیا کی موجودہ سائنسی ترقی ممکن ہوئی۔ مسلمانوں نے علم کا ’اخفائے راز‘ کبھی نہیں کیا۔ کبھی یہ پابندی نہیں لگائی کہ فلاں رنگ، فلاں نسل، فلاں علاقے یا فلاں مذہب کے لوگوں پر فلاں فلاں علم حاصل کرنے پر پابندی ہے۔ مثلاً جوہری علوم کی فلاں فلاں شاخ یا عصبیاتی علوم کے فلاں فلاں حصے فلاں فلاں لوگوں کے لیے ممنوع ہیں۔
اس بقراطی کے بعد آئیے اب ہم مل جل کر اپنے ماہرینِ ابلاغیات کی توجہ لفظ ’دَہائی‘ کے استعمال کی طرف مبذول کرائیں۔ ہماری توجہ اس طرف پروفیسر ڈاکٹر غازی علم الدین نے مبذول کرائی ہے۔ بات یہ ہے کہ ایک سے دس تک کی گنتی کو پہلی دہائی کہا جاتا ہے۔ گیارہ سے بیس تک دوسری دہائی ہے۔ اکیس سے تیس تک تیسری اور اکتیس سے چالیس تک چوتھی۔ بس اسی پر آگے قیاس کرتے چلے جائیے۔ دہائی کو حسبِ ضرورت دَہا، دَہے یا دَہوں کی صورت میں بھی لکھا جاتا ہے۔ ایک صدی میں دس دہائیاں ہوتی ہیں۔ کالم کے آغاز میں ہم نے جس ساتویں دہائی کا ذکر کیا ہے وہ سنہ ساٹھ سے سنہ ستّر تک تھی۔ دوسروں کو کیا نام دھریں؟ ہم خود۱۹۶۰ کی دہائی یا ۱۹۷۰ کی دہائی کے الفاظ استعمال کیا کرتے تھے۔ جب کہ یہاں بالترتیب ساتویں دہائی اور آٹھویں دہائی کہنے کا موقع تھا۔ یہی حال صدی کا ہے۔ ۱۹۰۰ء پر اُنیسویں صدی تمام ہوگئی۔ ۱۹۰۱ء سے بیسویںصدی کا آغاز ہوا۔ اسی طرح سنہ ۲۰۰۰ء پر بیسویں صدی ختم ہوگئی۔ ۲۰۰۱ء سے اکیسویں صدی کا آغاز ہوچکا ہے۔ لہٰذا ’’اکیسویں صدی میں ہم جی رہے ہیں بھائی‘‘۔ اکیسویں صدی کے متعلق بشیر بدرؔ نے بھی ایک پیش گوئی کی تھی۔ جانے کس صدی میں کی تھی اورجانے کب پوری ہوگی:
لے جا کے آسمان پہ تاروں کے آس پاس
امریکہ کو گرائے گی اکیسویں صدی
امریکہ کو گرائے گی اکیسویں صدی
گنتی سے بننے والے محاوروں کی گنتی کرنا آسان نہیں۔صرف عدد ’ایک‘ سے بننے والے چند محاوروں پر ایک نظر ڈال لیجیے۔ ’ایک آنچ کی کسر رہ جانا‘یعنی ذرا سانقص یا کمی باقی رہ جانا۔’ ایک آنکھ سے دیکھنا‘یعنی سب کو یکساں سمجھنا، اپنے پرائے کا فرق نہ کرنا، انصاف پسند ہونا۔’ ایک آنکھ نہ بھانا‘ یعنی بالکل ہی پسند نہ آنا۔’ ایک انڈا وہ بھی گندا‘ یہ محاورہ بالعموم ایک ہی بیٹا اور وہ بھی نالائق ہونے کے موقع پر استعمال کیا جاتا ہے، یا ایک ہی چیز میسر ہو اور وہ بھی ناکارہ۔’ ایک اور ایک گیارہ‘یا ’ ایک سے دو بھلے‘ مراد یہ کہ اتحاد میں برکت ہے۔ ’ایک پنتھ دو کاج‘ایک ہی تدبیر سے دو کام ہوجانا یا ایک کے ساتھ دوسرا فائدہ بھی اُٹھا لینا۔’ایک جان دو قالب‘ دو افراد میں گہری محبت ہونا۔اور ’ایک حمام میں سب ننگے‘، سیاستِ دوراںکا تماشا کرنے والے عوام کو اس محاورے کا مطلب خوب معلوم ہے۔بتانے کی ضرورت نہیں۔
بامحاورہ گفتگو سمجھنے اور کرنے کے لیے اردو کی گنتی سے واقفیت ضروری ہے۔ مگراب ایک دو افراد کو چھوڑ کر اردو کے بڑے بڑے ادیب بھی انگریزی گنتی گننے لگے ہیں، ہم توتین میں ہیں نہ تیرہ میں۔المیہ یہ ہے کہ چار پیسے ہاتھ آتے ہی لوگ انگریز بننے لگتے ہیں۔ اگر ناجائز کمائی سے پانچوں اُنگلیاں گھی میں ہوں اور سر کڑھائی میں گھس جائے تو دولت مند ہی میں نہیں اُس کی اولاد میں بھی پانچوں شرعی عیب پیدا ہوجاتے ہیں (چوری، جھوٹ، جوا، شراب، زنا)۔ جب ملک میں شرعی سزائیں نافذ ہوتی ہیں تو انھیں چھٹی کا دودھ یاد آجا تا ہے۔ فوراً سات سمندر پار بھاگتے ہیں۔اغیار کے آگے آٹھ آٹھ آنسو بہاتے ہیں کہ ہم پر بڑا ظلم ہوگیا۔ یہ نہیں بتاتے کہ ہم قانون شکنی کی سزا پانے کے ڈر سے اپنے گھر سے نو دو گیارہ ہوئے تھے۔ آپ کو دسیوں لوگ ایسے ملیں گے جو برس ہا برس باہر کے تھپیڑے کھاتے رہے اور نہیں بدلے۔ حالاں کہ بارہ برس میں تو گھورے کے دن بھی پھر جاتے ہیں، اورمغرب پہنچ کر تو لوگوں کے چودہ طبق روشن ہو جاتے ہیں۔
(اب یہیں بس کرتے ہیں۔ ایک سے لے کر چودہ تک کی گنتی تو آگئی۔آگے خود کوشش کرلیجیے۔)
گنتی کھوئی سو کھوئی، ہندسوں کی پہچان بھی کھو بیٹھے۔ہندسے نہ پہچاننے سے نئی نسل کے لیے اس قسم کے شوخ فقروں سے لطف اُٹھانا ہی ممکن نہ رہا کہ میاں بیوی اوّل اوّل ۲۶ کے ہندسے کی طرح سوتے ہیں، پھر ہوتے ہوتے (بلکہ سوتے سوتے) ۶۲ کے ہندسے کی طرح سونے لگتے ہیں کہ ’تم اپنا منہ اُدھر کرو، ہم اپنا منہ اِدھر کریں‘۔
خوانندگانِ گرامی!مسلم تہذیب کی دی ہوئی یک زبانی نے برصغیر میں یک دلی اور وحدت پیدا کی تھی۔زبان بدل دی گئی تو علم و ادب کی جاگیر بھی حصوں بخروں میں بٹ گئی۔لشکر لشکر ہی نہ رہا۔بقولِ عالمتاب تشنہؔ:
گنتی میں بے شمار تھے، کم کر دیے گئے
ہم ساتھ کے قبیلوں میں ضم کر دیے گئے
اِس دورِ ناشناس میں ہم سے عرب نژاد
جب بولنے لگے تو عجم کر دیے گئے
ہم ساتھ کے قبیلوں میں ضم کر دیے گئے
اِس دورِ ناشناس میں ہم سے عرب نژاد
جب بولنے لگے تو عجم کر دیے گئے