محمد تابش صدیقی
منتظم
ہماری چائے کافی ہے
ابونثر (احمد حاطب صدیقی)
٭
یادش بخیر، یہ وہ زمانہ تھا جب روزنامہ ’جسارت‘ کراچی کا دفتر محمد بن قاسم روڈ پر ہوا کرتا تھا۔ یہ سڑک ایم اے جناح روڈ سے نکل کر شاہراہِ لیاقت اور ابراہیم اسمٰعیل چندریگر روڈ کو پار کرتی ہوئی قومی ریلوے لائن تک جاتی ہے۔ اسی سڑک کے اختتام پر ایور ریڈی چیمبرز کی عمارت ہے۔ اس عمارت کی دوسری اور تیسری منزل پر ’جسارت‘ کا دفتر واقع تھا۔ دوسری منزل پر انتظامی دفاتر تھے اور تیسری منزل پر ادارتی۔ اُس زمانے میں ’جسارت‘ کی جرأت و بے باکی پاکستان بھر میں اپنی دھوم مچائے ہوئے تھی۔ پاکستان بھی تو اُس وقت کیماڑی سے لے کر کومیلا تک پھیلا ہوا تھا۔ بڑے معرکے کا زمانہ تھا۔ یہ وہ دور تھا جب پاکستانی قوم کو یہ معرکہ درپیش تھا کہ پاکستان کا تشخص اسلامی ہو یا سوشلسٹ۔ اس معرکے میں ’جسارت‘ کا کیا کردار رہا، یہ ان کالموں کا موضوع نہیں۔ مگر یہ داستان ہے بڑی ولولہ انگیز داستان۔
اُسی زمانے میں دفتر کی تیسری منزل پر، ایک گوشے میں ایک چھوٹا سا چائے خانہ تھا۔ چائے خانے کے دروازے پر بڑی خوش نما کتابت میں ایک طغریٰ آویزاں تھا؛
’مریضانِ جسارت‘ اُس مختصر سے چائے خانے میں جا جا کر اور اپنی میزوں پر منگا منگا کر دن بھر چائے پیتے رہتے، مگر ہوا یہ کہ… ’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘ … انھیں کسی پیالی سے شفا نصیب نہیں ہوئی۔ پیالی کی صدا گویا ’صدا بہ صحرا‘ ثابت ہوئی اور ’اہلِ جسارت‘ کا مرض اس قدر بڑھ گیا کہ بھٹو صاحب کے دور میں اس اخبار اور مدیرانِ اخبار کو بار بار بند کرنا پڑا۔
چائے کے ساتھ کافی کا ذکر آئے تو ذہن اُس گرما گرم خوش ذائقہ مشروب کی طرف ملتفت ہوجاتا ہے، جس کی تاثیر بھی گرم سمجھی جاتی ہے۔ لیکن اس شعر کا حسن یہ ہے کہ اس میں ’کافی‘ کا دوسرا مفہوم بھی کافی حد تک موجود ہے۔ یعنی کسی چیز کی وہ کم سے کم مقدار جس سے کام چل جائے۔ مثلاً: ’’میرے لیے چائے کی پیالی میں چینی کا بس ایک چمچ کافی ہے‘‘۔ کافی دراصل ’کفایت‘ سے اسمِ مؤنث بنا ہے۔ اس کا مطلب ہے ’حسبِ ضرورت ہونا‘۔ ضرورت سے زائد نہ ہونا۔ ہاتھ روک کر خرچ کرنے کو کفایت کہا جاتا ہے۔ یہ فضول خرچی کی ضد ہے۔ کفایت شعاری کی صفت کا شمار اچھی صفات میں ہوتا ہے۔ لیکن ہمارے ذرائع ابلاغ میں ’کافی‘ کا لفظ اس کے برعکس معنوں میں استعمال کیا جانے لگا ہے۔ بہت یا کثیر کی جگہ۔ اگر یہ کہنا ہو کہ بہت لوگ تھے یا کثیر تعداد میں لوگ موجود تھے تو یہ کہا جاتا ہے کہ کافی لوگ تھے یا کافی تعداد میں لوگ موجود تھے۔ جب کہ اس فقرے کا یہ مفہوم بنتا ہے کہ جتنے لوگوں کی موجودگی سے کام چل جاتا بس اتنے ہی لوگ موجود تھے۔
کافی کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ اس کے بعد مزید کی ضرورت باقی نہ رہے، خواہ وہ کوئی چیز ہو یا کوئی ذات۔ مثلاً ’’اللہ کی گواہی کافی ہے‘‘۔ یعنی اس گواہی کے بعد اب کسی اور کی گواہی کی ضرورت ہی باقی نہیں رہی۔ مولانا محمد علی جوہرؔ کا یہ مشہور شعر آپ نے بھی سنا ہوگا:
ضمناً یہاں یہ ذکر بھی کرتے چلیں کہ ایک خاص قسم کی راگنی کو بھی کافی کہا جاتا ہے۔پنجابی، سرائیکی اور سندھی زبانوں میں شاعری کی ایک مشہور صنف کانام بھی ’کافی‘ ہے۔بابا بلھے شاہؒ، خواجہ غلام فریدؒ، شاہ حسینؒ، حضرت عبداللطیف بھٹائی ؒ اوربابا گرو نانک کی کافیاں بھی بہت مشہور ہیں۔ آئے دن لوگوں کو خود اپنے ہاتھوں سپردِ خاک کرکے آنے کے باوجود اپنی موت سے غافل انسان کی کیفیت کو حضرت بابا بلھے شاہ ؒنے اپنی ایک کافی میں کتنے لطیف پیرائے میں بیان فرمایا ہے۔ کہتے ہیں:
حاصلِ کلام یہ کہ ’کورونا کی وبا سے کافی لوگ مرگئے، یا ’کافی جانی نقصان ہوا‘یا ’قائد حزبِ اختلاف کو گالی دینے پر ایوان میں کافی غُل غپاڑا مچا‘ وغیرہ مضحکہ خیز فقرے ہیں۔ ان تمام جملوں میں ’کافی‘ کی جگہ ’بہت‘ کے استعمال کا موقع تھا۔ امید ہے کہ کافی پر اتنا ہی لکھنا کافی سمجھا جائے گا۔
ابھی پچھلے ہفتے کی بات ہے، قادرالکلام شاعر، ادیب، مصنف اور نقاد برادر ایاز محمود نے اس عاجز کے پچھلے کالم پر ایک محفل میں تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا: ’’نہ کی جگہ نا پڑھ کر طبیعت مکدر ہوجاتی ہے۔ لگے ہاتھوں نہ اور مت کا فرق (اگر کوئی ہے) سمجھا دیں۔ مثلاً یہ کام نہ کرو۔ یا یہ کام مت کرو۔ یہاں نہ اور مت دونوں کا محل ہے۔ مگر ’یہ کام نہ کرو تو بہتر ہے‘ درست ہوگا، اور یہ کام مت کرو تو بہتر ہے، غلط ہوگا‘‘۔
اُس وقت تو بس اتنا عرض کرکے رہ گئے: ’’جی ہاں۔ مت پوچھیے کہ کہاں کہاں لوگوں کی مت ماری جاتی ہے‘‘۔
مگر مزید کچھ عرض نہیں کرسکے،کیوں کہ وہاں ’کالم گوئی‘ کا کوئی محل نہ تھا۔ اب اپنے محل میں بیٹھ کر مت مارے دیتے ہیں۔
’مت‘ اصلاً ہندی لفظ ہے۔ اس کے معنی سمجھ، بُوجھ، عقل اور بُدّھی کے ہیں۔ شوقؔ قدوائی کا ایک دلچسپ شعر ہے:
’مت دینا‘ بھی عقل کی بات بتانے یا نصیحت کرنے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ ’مت‘ کے ایک معنی دھرم اور عقیدے کے بھی ہیں جیسے ہندو مت، بدھ مت وغیرہ۔ لیکن فعلِ نہیں کے لیے، یعنی کسی کام سے روکنے کے لیے بھی ’مت‘ کا استعمال متقدمین کے زمانے سے ہوتا چلا آرہا ہے۔ درست ہی ہوگا تب ہی اتنے دھڑلّے سے استعمال ہوا۔ ہم سے تو ہمارے اساتذہ نے کبھی نہیں کہا کہ مت کا استعمال مت کیا کرو۔ البتہ میرؔ صاحب نے ہمیں یہ ’مت‘ ضرور دی تھی کہ: ’عیبِ طولِ کلام مت کریو‘۔اور یہ حکمِ امتناعی بھی میرؔ ہی نے جاری کیا تھا:
سو، ہم نے نہیں پوچھا۔ غالبؔ نے تو ’’مت پوچھ‘‘ کی تکرار کئی اشعار میں کر ڈالی۔ ان ہی میں سے ایک شعر کے ایک مصرعے سے ہم نے اپنے کالم کا مستقل عنوان بھی کشید کرلیا: ’غلطی ہائے مضامیں مت پوچھ‘۔ ایک اور شعر میں چچا غالبؔ فرماتے ہیں:
’آب و دانہ‘ کا جواب نہیں کہ آنسو آب بھی ہے اور اس کی شکل دانے جیسی ہوتی ہے۔ پس ہماری درخواست یہی ہے کہ اس قفس کے قیدیوں کو ’مت‘ استعمال کرنے سے مت روکیے۔ ہم تو بچپن ہی سے اس قیدوبند کے عادی ہیں۔ مت بھاگو، مت دوڑو، اور اگر شرارتی بچوں کے پیچھے بھاگتا دوڑتا کوئی بزرگ چاچا اَڑا اَڑا دھڑم کرکے زمین پرآرہے تو مت ہنسو۔ ’روکو مت جانے دو‘ والے فقرے پر ہمارے بچپن سے اب تک بحثا بحثی ہورہی ہے کہ اس میں روکنے کی ممانعت کی گئی ہے یا ’جانے دینے‘ کو روکا گیا ہے۔ بحث نے اتنی شدت اختیار کی کہ سلیم احمد مرحوم کو تنگ آکر بڑے بیزار لہجے میں یہ فیصلہ سنانا ہی پڑا:
ابونثر (احمد حاطب صدیقی)
٭
یادش بخیر، یہ وہ زمانہ تھا جب روزنامہ ’جسارت‘ کراچی کا دفتر محمد بن قاسم روڈ پر ہوا کرتا تھا۔ یہ سڑک ایم اے جناح روڈ سے نکل کر شاہراہِ لیاقت اور ابراہیم اسمٰعیل چندریگر روڈ کو پار کرتی ہوئی قومی ریلوے لائن تک جاتی ہے۔ اسی سڑک کے اختتام پر ایور ریڈی چیمبرز کی عمارت ہے۔ اس عمارت کی دوسری اور تیسری منزل پر ’جسارت‘ کا دفتر واقع تھا۔ دوسری منزل پر انتظامی دفاتر تھے اور تیسری منزل پر ادارتی۔ اُس زمانے میں ’جسارت‘ کی جرأت و بے باکی پاکستان بھر میں اپنی دھوم مچائے ہوئے تھی۔ پاکستان بھی تو اُس وقت کیماڑی سے لے کر کومیلا تک پھیلا ہوا تھا۔ بڑے معرکے کا زمانہ تھا۔ یہ وہ دور تھا جب پاکستانی قوم کو یہ معرکہ درپیش تھا کہ پاکستان کا تشخص اسلامی ہو یا سوشلسٹ۔ اس معرکے میں ’جسارت‘ کا کیا کردار رہا، یہ ان کالموں کا موضوع نہیں۔ مگر یہ داستان ہے بڑی ولولہ انگیز داستان۔
اُسی زمانے میں دفتر کی تیسری منزل پر، ایک گوشے میں ایک چھوٹا سا چائے خانہ تھا۔ چائے خانے کے دروازے پر بڑی خوش نما کتابت میں ایک طغریٰ آویزاں تھا؛
مریضانِ ’جسارت‘ کو ہماری چائے کافی ہے
صدا پیالی سے آتی ہے پیو اللہ شافی ہے
صدا پیالی سے آتی ہے پیو اللہ شافی ہے
’مریضانِ جسارت‘ اُس مختصر سے چائے خانے میں جا جا کر اور اپنی میزوں پر منگا منگا کر دن بھر چائے پیتے رہتے، مگر ہوا یہ کہ… ’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘ … انھیں کسی پیالی سے شفا نصیب نہیں ہوئی۔ پیالی کی صدا گویا ’صدا بہ صحرا‘ ثابت ہوئی اور ’اہلِ جسارت‘ کا مرض اس قدر بڑھ گیا کہ بھٹو صاحب کے دور میں اس اخبار اور مدیرانِ اخبار کو بار بار بند کرنا پڑا۔
چائے کے ساتھ کافی کا ذکر آئے تو ذہن اُس گرما گرم خوش ذائقہ مشروب کی طرف ملتفت ہوجاتا ہے، جس کی تاثیر بھی گرم سمجھی جاتی ہے۔ لیکن اس شعر کا حسن یہ ہے کہ اس میں ’کافی‘ کا دوسرا مفہوم بھی کافی حد تک موجود ہے۔ یعنی کسی چیز کی وہ کم سے کم مقدار جس سے کام چل جائے۔ مثلاً: ’’میرے لیے چائے کی پیالی میں چینی کا بس ایک چمچ کافی ہے‘‘۔ کافی دراصل ’کفایت‘ سے اسمِ مؤنث بنا ہے۔ اس کا مطلب ہے ’حسبِ ضرورت ہونا‘۔ ضرورت سے زائد نہ ہونا۔ ہاتھ روک کر خرچ کرنے کو کفایت کہا جاتا ہے۔ یہ فضول خرچی کی ضد ہے۔ کفایت شعاری کی صفت کا شمار اچھی صفات میں ہوتا ہے۔ لیکن ہمارے ذرائع ابلاغ میں ’کافی‘ کا لفظ اس کے برعکس معنوں میں استعمال کیا جانے لگا ہے۔ بہت یا کثیر کی جگہ۔ اگر یہ کہنا ہو کہ بہت لوگ تھے یا کثیر تعداد میں لوگ موجود تھے تو یہ کہا جاتا ہے کہ کافی لوگ تھے یا کافی تعداد میں لوگ موجود تھے۔ جب کہ اس فقرے کا یہ مفہوم بنتا ہے کہ جتنے لوگوں کی موجودگی سے کام چل جاتا بس اتنے ہی لوگ موجود تھے۔
کافی کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ اس کے بعد مزید کی ضرورت باقی نہ رہے، خواہ وہ کوئی چیز ہو یا کوئی ذات۔ مثلاً ’’اللہ کی گواہی کافی ہے‘‘۔ یعنی اس گواہی کے بعد اب کسی اور کی گواہی کی ضرورت ہی باقی نہیں رہی۔ مولانا محمد علی جوہرؔ کا یہ مشہور شعر آپ نے بھی سنا ہوگا:
کیا ڈر ہے جو ہو ساری خدائی بھی مخالف
کافی ہے اگر ایک خدا میرے لیے ہے
کافی ہے اگر ایک خدا میرے لیے ہے
ضمناً یہاں یہ ذکر بھی کرتے چلیں کہ ایک خاص قسم کی راگنی کو بھی کافی کہا جاتا ہے۔پنجابی، سرائیکی اور سندھی زبانوں میں شاعری کی ایک مشہور صنف کانام بھی ’کافی‘ ہے۔بابا بلھے شاہؒ، خواجہ غلام فریدؒ، شاہ حسینؒ، حضرت عبداللطیف بھٹائی ؒ اوربابا گرو نانک کی کافیاں بھی بہت مشہور ہیں۔ آئے دن لوگوں کو خود اپنے ہاتھوں سپردِ خاک کرکے آنے کے باوجود اپنی موت سے غافل انسان کی کیفیت کو حضرت بابا بلھے شاہ ؒنے اپنی ایک کافی میں کتنے لطیف پیرائے میں بیان فرمایا ہے۔ کہتے ہیں:
بلھا شاہ اَساں مرنا ناہیں
گور پَیا کوئی ہور
(بلھے شاہ! ہمیں نہیں مرنا … قبر میں اُترا ہے کوئی اور)گور پَیا کوئی ہور
حاصلِ کلام یہ کہ ’کورونا کی وبا سے کافی لوگ مرگئے، یا ’کافی جانی نقصان ہوا‘یا ’قائد حزبِ اختلاف کو گالی دینے پر ایوان میں کافی غُل غپاڑا مچا‘ وغیرہ مضحکہ خیز فقرے ہیں۔ ان تمام جملوں میں ’کافی‘ کی جگہ ’بہت‘ کے استعمال کا موقع تھا۔ امید ہے کہ کافی پر اتنا ہی لکھنا کافی سمجھا جائے گا۔
ابھی پچھلے ہفتے کی بات ہے، قادرالکلام شاعر، ادیب، مصنف اور نقاد برادر ایاز محمود نے اس عاجز کے پچھلے کالم پر ایک محفل میں تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا: ’’نہ کی جگہ نا پڑھ کر طبیعت مکدر ہوجاتی ہے۔ لگے ہاتھوں نہ اور مت کا فرق (اگر کوئی ہے) سمجھا دیں۔ مثلاً یہ کام نہ کرو۔ یا یہ کام مت کرو۔ یہاں نہ اور مت دونوں کا محل ہے۔ مگر ’یہ کام نہ کرو تو بہتر ہے‘ درست ہوگا، اور یہ کام مت کرو تو بہتر ہے، غلط ہوگا‘‘۔
اُس وقت تو بس اتنا عرض کرکے رہ گئے: ’’جی ہاں۔ مت پوچھیے کہ کہاں کہاں لوگوں کی مت ماری جاتی ہے‘‘۔
مگر مزید کچھ عرض نہیں کرسکے،کیوں کہ وہاں ’کالم گوئی‘ کا کوئی محل نہ تھا۔ اب اپنے محل میں بیٹھ کر مت مارے دیتے ہیں۔
’مت‘ اصلاً ہندی لفظ ہے۔ اس کے معنی سمجھ، بُوجھ، عقل اور بُدّھی کے ہیں۔ شوقؔ قدوائی کا ایک دلچسپ شعر ہے:
اور ہی مت ہے کچھ ان عشق کے متوالوں کی
طاقِ نسیاں پہ یہاں عقل دھری رہتی ہے
عقل ماری جانے کے مفہوم میں ’مت ماری گئی‘ کا فقرہ اکثر سننے کو ملتا ہے۔ ضمیر جعفری کا شعر ہے:طاقِ نسیاں پہ یہاں عقل دھری رہتی ہے
اُنھوں نے مجلسِ اقوام کا جلسہ نہیں دیکھا
جو کہتے ہیں بڑے لوگوں کی مت ماری نہیں جاتی
جو کہتے ہیں بڑے لوگوں کی مت ماری نہیں جاتی
’مت دینا‘ بھی عقل کی بات بتانے یا نصیحت کرنے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ ’مت‘ کے ایک معنی دھرم اور عقیدے کے بھی ہیں جیسے ہندو مت، بدھ مت وغیرہ۔ لیکن فعلِ نہیں کے لیے، یعنی کسی کام سے روکنے کے لیے بھی ’مت‘ کا استعمال متقدمین کے زمانے سے ہوتا چلا آرہا ہے۔ درست ہی ہوگا تب ہی اتنے دھڑلّے سے استعمال ہوا۔ ہم سے تو ہمارے اساتذہ نے کبھی نہیں کہا کہ مت کا استعمال مت کیا کرو۔ البتہ میرؔ صاحب نے ہمیں یہ ’مت‘ ضرور دی تھی کہ: ’عیبِ طولِ کلام مت کریو‘۔اور یہ حکمِ امتناعی بھی میرؔ ہی نے جاری کیا تھا:
مت پوچھ کس طرح سے کٹی رات ہجر کی
ہر نالہ میری جان کو تیغِ کشیدہ تھا
ہر نالہ میری جان کو تیغِ کشیدہ تھا
سو، ہم نے نہیں پوچھا۔ غالبؔ نے تو ’’مت پوچھ‘‘ کی تکرار کئی اشعار میں کر ڈالی۔ ان ہی میں سے ایک شعر کے ایک مصرعے سے ہم نے اپنے کالم کا مستقل عنوان بھی کشید کرلیا: ’غلطی ہائے مضامیں مت پوچھ‘۔ ایک اور شعر میں چچا غالبؔ فرماتے ہیں:
عشرتِ قتل گہِ اہلِ تمنا مت پوچھ
عیدِ نظّارہ ہے شمشیر کا عریاں ہونا
اور سب سے مزے دار شعر وہ ہے، جس میں وہ محبوب کو لتاڑ رہے ہیں:عیدِ نظّارہ ہے شمشیر کا عریاں ہونا
مت پوچھ کہ کیا حال ہے میرا ترے پیچھے
تو دیکھ کہ کیا رنگ ہے تیرا مرے آگے
اسی طرح سوداؔ نے بھی ’نہ‘ کی جگہ ’مت‘ کو حرفِ امتناع کے طور پر استعمال کیا ہے:تو دیکھ کہ کیا رنگ ہے تیرا مرے آگے
جو گزری مجھ پہ مت اُس سے کہو، ہوا سو ہوا
بلا کشانِ محبت پہ جو ہوا سو ہوا
بہادر شاہ ظفرؔ کی ایک غزلِ مسلسل کا یہ شعر بھی ہم نے سن رکھا ہے:بلا کشانِ محبت پہ جو ہوا سو ہوا
اے مرغِ دل مت رو یہاں آنسو بہانا ہے منع
اس قفس کے قیدیوں کو آب و دانا ہے منع
اس قفس کے قیدیوں کو آب و دانا ہے منع
’آب و دانہ‘ کا جواب نہیں کہ آنسو آب بھی ہے اور اس کی شکل دانے جیسی ہوتی ہے۔ پس ہماری درخواست یہی ہے کہ اس قفس کے قیدیوں کو ’مت‘ استعمال کرنے سے مت روکیے۔ ہم تو بچپن ہی سے اس قیدوبند کے عادی ہیں۔ مت بھاگو، مت دوڑو، اور اگر شرارتی بچوں کے پیچھے بھاگتا دوڑتا کوئی بزرگ چاچا اَڑا اَڑا دھڑم کرکے زمین پرآرہے تو مت ہنسو۔ ’روکو مت جانے دو‘ والے فقرے پر ہمارے بچپن سے اب تک بحثا بحثی ہورہی ہے کہ اس میں روکنے کی ممانعت کی گئی ہے یا ’جانے دینے‘ کو روکا گیا ہے۔ بحث نے اتنی شدت اختیار کی کہ سلیم احمد مرحوم کو تنگ آکر بڑے بیزار لہجے میں یہ فیصلہ سنانا ہی پڑا:
یار جانے بھی دو، اس بحث میں کیا رکھا ہے
تو اے عزیزو! اب ہمیں بھی روکو مت جانے دو۔