اس پوسٹ کا عنوان پڑھ کر جو مصرع ذہن میں آتا ہے وہ یہ ہے:
غمِ عاشقی تیرا شکریہ ، میں کہاں کہاں سے گزر گیا
لیکن اس پوسٹ میں یہ مصرع ایسے نہیں ہے۔ پھر گوگل کو زحمت دی۔ گوگل نے فیس بک پر پہنچا دیا اور
اس صفحے پر درج ذیل غزل ملی۔
کبھی مہر و ماہ و نجوم سے، کبھی کہکشاں سے گُزر گیا۔!!
میں تیری تلاش میں آخرش حدِ لامکاں سے گُزر گیا۔!!
یہ تفاوت صنم و حرم ہے تبھی کہ جب بھی نشہ ہو کم،
جو بھی غرق بادۂ حق ہُوا، غمِ این و آں سے گُزر گیا۔!!
کبھی شہرِ حُسنِ خیال سے، کبھی دشتِ حزن و ملال سے،
تیرے عشق میں تیرے پیار میں میں کہاں کہاں سے گُزر گیا۔!!
تیری راہ گُزر میری راہ گُزر، تیرے نقشِ پا میری راہ پر،
تُو جہاں جہاں سے گُزر گیا، میں وہاں وہاں سے گُزر گیا۔!!
راہِ زندگی میں مُقام وہ مُجھے بارہا مِلے دوستو،
کہ خرد کا پاؤں پھسل گیا، جنوں جہاں سے گُزر گیا۔!!
کبھی عرش پر، کبھی فرش پر، کبھی اُس کے در کبھی دربدر،
غم عاشقی تیرا شکریہ میں کہاں کہاں سے گُزر گیا
میرا جسم کیا میری روح کیا؟ نہیں کوئی زخموں کی انتہا،
اے امیرؔ تیرِ نگاہِ حُسن یہ کہاں کہاں سے گُزر گیا۔!!
(محمد امیر اعظم قریشی)
پھر شاعر کے نام سے سرچ کیا تو ریختہ پر
غزل تو مل گئی لیکن اس میں مذکورہ شعر نہیں تھا۔ اب کافی الجھا ہوا ہوں۔
صاحبِ تعارف اگر محفل پر آتے ہیں تو کچھ رہنمائی فرمائیں۔
برائے توجہ:
محمد تابش صدیقی
نیرنگ خیال
محمد وارث
سید عاطف علی