کاشفی
محفلین
غزل
(حفیظ ہوشیار پوری)
غم دینے والا شاد رہے، پہلو میں ہجومِ غم ہی سہی
لب اُن کے تبسّم ریز رہیں، آنکھیں میری پُرنم ہی سہی
گر جذبِ عشق سلامت ہے ، یہ فرق بھی مٹنے والا ہے
وہ حُسن کی اک دنیا ہی سہی، میں حیرت کا عالم ہی سہی
ان مست نگاہوں کے آگے، پینے کا ذکر نہ کر ساقی
میخانہ ترا جنّت ہی سہی، پیمانہ جامِ جم ہی سہی
ملتا نہیں جب مونس کوئی اس وقت یہی یاد آتا ہے
اپنا دل پھر بھی اپنا ہے خوکردہ ذوقِ رم ہی سہی
جب دونوں کا انجام ہے اک، پھر چوں و چرا سے کیا حاصل
تدبیر کا میں قائل ہی سہی، تقدیر کا تو محرم ہی سہی
بندوں کے ڈر سے تجھے پوجوں، میں ایسی ریا سے باز آیا
دل میں ہے خوف ترا یارب! سرپائے صنم پر خم ہی سہی
آغازِ محبت دیکھ لیا، انجامِ محبت کیا ہوگا!
قسمت میں حفیظِ بیکس کی آوارگی، پیہم ہی سہی