غم میں ڈوبے، خوشی کو بھول گئے - اختر ضیائی

عمران خان

محفلین
غم میں ڈوبے، خوشی کو بھول گئے
ایسے روئے ہنسی کو بھول گئے

زندہ رہنا ہی بس غنیمت تھا
لوگ زندہ دلی کو بھول گئے

چشمِ شبنم نے اشک برسائے
پھول خندہ لبی کو بھول گئے

مرگ سامانیوں میں گم ہو کر
بےبصر زندگی کو بھول گئے

رونقِ کائنات تھی جس سے
حیف! ہم آدمی کو بھول گئے


داغِ بےمائیگی تو مٹ نہ سکا
اہلِ دل سرکشی کو بھول گئے

کتنی دلچسپ بھول تھی اختر
ہم یہ سمجھے کسی کو بھول گئے

اختر ضیائی
 
Top