غم ہجر و لطف وصال کیا ۔۔۔ برائے تنقید و اصلاح

شاہد شاہنواز

لائبریرین
غمِ ہجر و لطفِ وصال کیا
ہمیں عاشقی کا خیال کیا

وہی روز و شب ہیں غریب کے
یہ عروج کیا ہے زوال کیا

تو قضا بھی دے تو قبول ہے
ہمیں زندگی کا ملال کیا

تری کائنات میں گنگ ہے
مرا ذوقِ حسن و جمال کیا

فقط ایک مشتِ غبار ہے
تری شہنواز مثال کیا
۔۔۔۔
اس کا ایک زائد مقطع اور دیگر اشعار لکھے جو مجھے ناقص لگ رہے ہیں:

کہاں تیری بات ہے ، میں کہاں
میں جواب کیا، توسوال کیا

ترے حسن میں کوئی بات ہے
مرے عشق میں ہے کمال کیا

ترے کوہسار کو سر کریں
مرے حوصلوں کی مجال کیا

جہاں جاکے اپنی نظر تھمی
وہیں رک گئے مہ و سال کیا

ہمیں شہنواز یگانہ ہیں
کوئی دے ہماری مثال کیا۔۔۔
۔۔۔۔
برائے اصلاح و تبصرہ، اظہار اتفاق و اختلاف پیش ہے ۔۔۔
الف عین صاحب
محمد یعقوب آسی صاحب
 

الف عین

لائبریرین
اب اصلاح کی غرض سے
ہی روز و شب ہیں غریب کے
یہ عروج کیا ہے زوال کیا

دوسرا مصرع اگر یوں ہو تو
یہ عروج کیا یہ زوال کیا
تو بہتر ہوگا؟؟

اس مصرع میں اگر ’ہو‘ بھی ہو تو بہتر ابلاغ ہو جائے
ہمیں زندگی کا ملال کیا
(مثلآ ہمیں زیست کا ہو ملال کیا)

تری کائنات میں گنگ ہے
مرا ذوقِ حسن و جمال کیا
یہاں ’کائنات‘ کا لفظ ابلاغ میں مشکل کر رہا ہے، اسے بدل دو تو اچھا ہے۔
آسی بھائی کا کیا خیال ہے؟
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
غزل کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کا فائدہ تو ہوا۔
ا
تری کائنات میں گنگ ہے
مرا ذوقِ حسن و جمال کیا
یہاں ’کائنات‘ کا لفظ ابلاغ میں مشکل کر رہا ہے، اسے بدل دو تو اچھا ہے۔
آسی بھائی کا کیا خیال ہے؟
یہاں محمد یعقوب آسی صاحب کچھ رائے دیں تو آگے بڑھیں گے۔ ویسے اس شعر کا ہونا ضروری نہیں ۔ (غیر ضروری میں ان اشعار کو کہہ جاتا ہوں جو بعد میں علم ہو کہ ناقص ہیں۔۔۔ میری نظر میں تو سب ہی کام کے ہوتے ہیں)
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
تو قضا بھی دے تو قبول ہے
ہمیں زندگی کا ملال کیا

ترے حسن میں کوئی بات ہے
مرے عشق میں ہے کمال کیا

جہاں جاکے اپنی نظر تھمی
وہیں رک گئے مہ و سال کیا

وہی روز و شب ہیں غریب کے
یہ عروج کیا ہے زوال کیا

واہ
بہت خوب شاہد بھائی
 
جناب الف عین سے متفق ہوں۔

نجھے تو یہ قلمزد شعر بھی پسند آیا۔
جہاں جاکے اپنی نظر تھمی
وہیں رک گئے مہ و سال کیا
کرنا صرف یہ ہے کہ پڑھنے میں ردیف ’’کیا‘‘ کو سوالیہ بنا دیں۔ علامت ؟ لگانا پتہ نہیں روا ہے یا نہیں۔
 
غمِ ہجر و لطفِ وصال کیا​
ہمیں عاشقی کا خیال کیا​

مختصر مختصر ۔۔ مطلع برائے مطلع۔ بہت کمزور شعر ہے۔
چھوٹی بحر میں شعر کہنا بہت مشکل ہوا کرتا ہے، یا پھر مجھے مشکل لگتا ہے۔ تاہم چھوٹی بحر میں اچھا شعر ہو جائے تو وہ ہوتا ’’چست‘‘ ہے، جیسے جملہ چست کرنا۔ آپ کسی کے کوئی طویل جملہ ماریں تو اکتاہٹ ہو گی۔ جملہ جتنا مختصر ہو گا، اتنا ہی پر تاثیر ہو گا۔

اُن دنوں کی بات ہے جب میرے عزیز دوست اختر شاد اصغر مال کالج میں ایم اے اردو کر رہے تھے۔ مشاعرے اور ہوٹنگ کے حوالے سے بات ہوئی، کہنے لگے: ’’یار ! اس معاملے وچ ساڈے کالج دے مُنڈے بڑے ۔۔۔۔ نیں۔‘‘ میں نے فوراً پوچھ لیا : ’’سارے ای؟‘‘
بہت ہنسے اور بعد میں یہ جملہ انہوں نے کئی بے تکلف دوستوں کو سنایا بھی، مزے لے لے کر! ۔۔۔

شعر میں نثر کی مثال آ گئی۔ شعر کی عبارت نثر کے جتنا قریب ہو گی شعر اتنا ہی لطف دے گا، اور چھوٹی بحروں میں اکثر ایسا ہوتا ہے تاہم کچھ اور معاملات ہوتے ہیں جو شعر کا لطف گھٹا دیتے ہیں۔
 
وہی روز و شب ہیں غریب کے​
یہ عروج کیا ہے زوال کیا​

ایک نکتہ ہے غریب کے حوالے سے اشارہ قریب ’’زوال‘‘ کا حق ہے، نہ کہ عروج کا۔ جناب الف عین کی اجازت سے ایک ’’لقمہ‘‘ دے دوں، ذوق پر پورا نہ اترے تو ۔۔۔ ہاہا!
’’یہی
روز و شب ہیں غریب کے​
وہ عروج کیا یہ زوال کیا‘‘​

کچھ بات بنی؟ ۔۔۔​
 
فقط ایک مشتِ غبار ہے​
تری شہنواز مثال کیا​

یہاں مجھے ناؤ الٹی چلتی دکھائی دے رہی ہے، ہو سکتا ہے میرا وہم ہو۔
تری مثال کیا ۔۔ اس میں ’’کیا‘‘ نافیہ سوالیہ ہے، کہ تیری کوئی مثال نہیں۔ یا، تو بے مثال ہے۔ یہ اظہار بڑے پن سے مشروط ہوا کرتی ہے: تو اتنا عالی ظرف ہے کہ تیری کیا مثال دیں؟ وغیرہ۔ ’’فقط ایک مشتِ غبار‘‘ چھوٹے پن کا اظہار ہے سو یہاں ’’مثال کیا؟‘‘ ۔۔۔؟

یہاں کچھ تجویز کرنا بھی مشکل لگ رہا ہے۔
 
تری کائنات میں گنگ ہے​
مرا ذوقِ حسن و جمال کیا​

یہاں شاید ردیف کا مسئلہ ہے جناب الف عین ۔ کیا: سادہ سوال، سوال نافیہ، تحیر، کسی کی بھی گنجائش نہیں بن رہی کہ اس کے بغیر بات مکمل ہو گئی ہے:۔ ’’تیری کائنات پر یا اس کا مشاہدہ کر کے میرا ذوقِ حسن و جمال گنگ ہے‘‘۔
’’میں‘‘ یا ’’پہ‘‘ کو البتہ دیکھ لیجئے۔
 
Top