غم ہجر و لطف وصال کیا ۔۔۔ برائے تنقید و اصلاح

گستاخی معاف

ترے کوہسار کو سر کریں​
مرے حوصلوں کی مجال کیا​

یہ شعر خلافِ واقعہ ہے۔ کوہسار فقط قوت سے نہیں عزم و ہمت سے سر ہوا کرتے ہیں۔ یہ حوصلے ہی تو ہیں جو کہسار کو لتاڑتے ہیں۔ حوصلہ ٹوٹتا ہے تو پھر حوصلہ رہتا ہی نہیں۔
 
اپنے شعر کے ساتھ مکالمہ کیا کیجئے جناب شاہد شاہنواز !

ایک عام خیال یہ پایا جاتا ہے کہ شعر اگر کسی پبلک پلیٹ فارم یہ آ گیا تو پھر اُس میں ترمیم نہیں کرنی چاہئے یا ترمیم مستحسن نہیں ہے۔ میں اس خیال کو صاد نہیں کرتا۔ شعر آپ کا ہے آپ جب چاہیں اس کو بہتر کریں! اور آپ کسی طرح کی کوئی وضاحت کرنے کے پابند بھی نہیں کہ میں نے اپنے شعر میں ترمیم کیوں کی۔

خود تنقیدی اور اپنی اصلاح آپ کا عمل جاری رہنا چاہئے، جہاں تک رہ سکے!!

بہت آداب۔ اور آپ کا بہت شکریہ کہ آپ میٹھی کڑوی باتیں سن لیتے ہیں۔
 

الف عین

لائبریرین
شکریہ محمد یعقوب آسی بھائی درستگی کی درستی کا۔ واقعی آپ کا کہنا درست ہے، یہ محض روا روی میں لکھ گیا تھا میں کہ یہ لفظ غلط الخواص بھی ہو گیا ہے۔ اور ویسے میں اپنے کو خواص میں شمار بھی نہیں کرتا!!
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
غمِ ہجر کیا ہے وصال کیا
ہمیں عاشقی کا خیال کیا

یہی روز و شب ہیں غریب کے
وہ عروج کیا یہ زوال کیا


ترے حسن میں کوئی بات ہے
مرے عشق میں ہے کمال کیا

جہاں جاکے اپنی نظر تھمی
وہیں رک گئے مہ و سال کیا

ملے جب قضا ترے نام کی
ہمیں زندگی کا ملال کیا

تری کائنات کا حسن ہے
ترا ذوقِ حسن و جمال کیا

ہمیں شہنواز یگانہ ہیں
کوئی دے ہماری مثال کیا۔۔۔

۔۔۔ ۔مقطعے کو کسی قدر بہتر کرنے کی فی الحال کوئی صورت نظر نہیں آرہی سو یونہی سہی ۔۔۔ لیکن یہ ’’یونہی سہی‘‘ یہاں ناقابل قبول حد تک غلط لگے تو نشاندہی کیجئے گا تاکہ اس کو ختم کردیاجائے۔۔ مقطعے کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے۔ ہم کتنے یگانہ ہیں آپ کو اب تک تو معلوم ہوہی گیا ہوگا۔۔ یہ شعر لکھ کر ڈینگ مارنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟؟
یہاں اس اصلاح کو جلد از جلد ختم کرنا چاہتے ہیں کیونکہ بقول مرزا غالب کے ایک پرستار کے:
کیسا سرمہ لگا لیا اس نے ۔۔۔
کوئی صورت نظر نہیں آتی۔۔۔
 
Top