اگر قتل کے بدلے قتل کر دینے سے انتقام کی آگ ٹھنڈی ہو جاتی تو آج بھارت اور پاکستان حالت امن میں ہوتے۔ اسرائیل اور فلسطین بھائی بھائی ہوتے۔ وغیرہ
یہ کوئی اصول نہیں ہے جناب، جب طرفین میں سے کوئی ایک عصبیت کے رنگ میں رنگا جائے تو لاکھ تدبیریں کرو کارگر ہو ہی نہیں سکتیں۔
پھر لوگ خون کی ندیاں، دھاروں کے فوارے، معصوم مرجھائے پھولوں، مرجھائے چہرے پر بنی ہوئی دھارویوں پر آنسوؤں کے نشانات اور بکھرے ٹکڑوں کو دیکھ کر ترس نہیں بلکہ فخر محسوس کرتے ہیں۔
امن کے لئے عصبیتوں کو توڑنا پڑتا ہے۔ قتل کے بدلے قتل اور فتنہ و فسادات سے یورپ بھی بڑی دفعہ تاراج ہوا مگر آج کیوں ممدو معاون ہے ایک دوسرے کا۔
پاک ہند میں سوائے عصبیت کے کچھ اور نہیں صرف لاشوں پر فخر کرنا چاہ رہے۔ ان کو اپنی ہندویت پر فخر اور اسرائیل کو اپنی پر اور ایران کو اپنی پر۔
یہ تو پتہ تب چلے گا کہ آنسو کی کیا قدر ہوتی اور بے نور آنکھ سے بھی کیسے بہہ نکلتا جب اپنے اوپر پڑتی ہے۔
شاید قدرت نے آنسو کو بنایا ہی ظالم کے لیے ہے دیکھا نہیں کیسے کیسے موقع پر بہہ نکلتا کبھی مظلوم سے بے وفائی کرتا ہی نہیں کہ شاید ظالم ہاتھ روک لے شاید ترس کھا لے مگر افسوس عصبیت اندھا کردیتی ہے اس آنسو کی کبھی حدت کو محسوس ہی کر نہیں پاتی جس کی حدت کائنات کے پردوں کو چاک کرنے نکل پڑتی ہے۔
ہاں ہاں کب تک آنسو بہیں گے مظلوموں کے آخر کبھی تو پردے چاک ہوں گے تب پتہ چلے گا بے جان ہاتھ اور پیلے ہونٹ بھی کیونکر کانپتے، بے نور آنکھ سے بھی آنسو کیسے برآمد ہوتے۔