غنی بابا کی شاہکار پشتو نظم کا اردو ترجمہ

بہت خوووب!آپکی تجویزنے میرے خیالات کو نیا سرا تھما دیا محترم !بہت نوازش
اس قابل قدر رائے کے مطابق اب اسے یوں لکھیں تو قریب ترین ترجمہ کہلا سکتا ہے

نہیں قبول گر کہیں ،اسی مقام کے عوض
میں پرشیا کے گل کدوں کی آرزو کروں کبھی !۔
ترجمے میں ہوتا ہی ایسے ہے، خاص طور پر شعر سے شعر میں ترجمہ؛ مفاہیم اور مضامین کو ممکنہ حد تک صحت کے ساتھ بیان کرنا ہوتا ہے، اور کچھ جمع تفریق لازم ہو جاتی ہے، شعر جو بنانا ٹھہرا۔

پرشیا میں کچھ فرنگی اجنبیت کی باس محسوس ہوئی ( مجھے) ۔البتہ جیسے آپ کا مزاج چاہے۔:)
سید صاحب کی حسیت بجا، تاہم یہاں کچھ محددات ایسے آن پڑے ہیں۔ مثلاً مفاعلن مفاعلن مفاعلن مفاعلن خود سب سے بڑی قدغن ہے۔ اصل لفظ ’’پرشیا‘‘ اپنی ساخت کے لحاظ سے یونانی لگ رہا ہے، واللہ اعلم۔
 
ایک عمومی بات عرض کر دوں:
ترجمہ ہوتا ہی ’’قریب ترین‘‘ مفمہوم ہے۔ شعر کے ترجمے کا مفہوم سو فی صد وہی رہے، یہ تو شاید نثر میں بھی مشکل ہے، کجا آنکہ نظم میں۔ بہ ایں ہمہ عینی مروت کی کوشش قابلِ تحسین ہے۔
 
ایک بات میرے تجربے میں بھی آئی۔
میں نے فارسی شعر سے پنجابی شعر میں ترجمے کئے، احباب نے حوصلہ افزائی بھی کی۔ ایک مقام پر مجھے ہندکو کا ایک لفظ لانا پڑا ’’مُچ‘‘ (بہت، زیادہ، کافی)؛ یہ غالباً کشمیری میں بھی ایسے ہی ہے، مجھے حتمی طور پر پتہ نہیں ہے۔ ایسا نہیں تھا کہ پنجابی میں لفظ موجود نہیں تھا، بلکہ عملاً ایسا تھا کہ شعر کی جو زمین متعین ہو گئی، مجھے دقت پیش آ رہی تھی، وہاں کوئی لفظ جمانے میں۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
پشتو اہل زبان ہی اصلی لب و لہجے اور مافی الضمیر کے بیان کے پہلوؤں کا ادراک کر کے فیصلہ کر سکتا ہے ۔ جہاں تک ترجمے کا تعلق ہے تو اس میں مترجم کی ترجیح (بنیادی فوکس ) لفظی (ہو تو ترجمہ) یا معنوی (ہو تو ترجمانی ) کچھ بھی ہو سکتی ہے ۔ جہاں تک منظوم ترجمے کا تعلق ہے توترجیح وہ ہونی چاہیے جو شاعر کا منشا ہو۔اس طرح شعری ترجمے کی صورت میں عموماً الفاظ سے زیادہ خیال کی اہمیت ہو گی کیوں کہ ہر زبان کے الفاظ کا اپنا لطف اور نزاکتوں کا ایک نظام ہو تا ہے ۔
اوربنا بریں آراء کا متنوّع ہو نا بھی عین ممکن ہے ۔
 

عینی مروت

محفلین
پرشیا میں کچھ فرنگی اجنبیت کی باس محسوس ہوئی ( مجھے) ۔البتہ جیسے آپ کا مزاج چاہے۔:)
جیسے اردو میں بہت سے انگریزی الفاظ کثرت سے استعمال ہونے لگے کہ اسکا حصہ نظر آنے لگے عربی زبان میں بھی( تھوڑی سی ترمیم کے ساتھ )اسکی مثالیں دیکھنے میں آتی ہیں اسی طرح جدید فارسی میں لفظ پرشیا بھی حسبِ ضرورت استعمال کیا گیا نظر سے گزرا ہے۔
 

عینی مروت

محفلین
ایک عمومی بات عرض کر دوں:
ترجمہ ہوتا ہی ’’قریب ترین‘‘ مفمہوم ہے۔ شعر کے ترجمے کا مفہوم سو فی صد وہی رہے، یہ تو شاید نثر میں بھی مشکل ہے، کجا آنکہ نظم میں۔ بہ ایں ہمہ عینی مروت کی کوشش قابلِ تحسین ہے۔
اس توجہ اور حوصلہ افزائی کے لیے ممنون ہوں محترم ۔۔۔۔سلامت رہیں
 

سید عاطف علی

لائبریرین
جیسے اردو میں بہت سے انگریزی الفاظ کثرت سے استعمال ہونے لگے کہ اسکا حصہ نظر آنے لگے عربی زبان میں بھی( تھوڑی سی ترمیم کے ساتھ )اسکی مثالیں دیکھنے میں آتی ہیں اسی طرح جدید فارسی میں لفظ پرشیا بھی حسبِ ضرورت استعمال کیا گیا نظر سے گزرا ہے۔
استعمال مین تو خیر کوئی خاص حرج نہیں البتہ اس سے میری مرادشاعرانہ استعمال میں شعریت کے عنصر سے غیر موافق ہو نے سے تھی۔
 

عینی مروت

محفلین
بزرگوں کی رہنمائی اور مشوروں کی روشنی میں ترجمہ کی موجودہ صورت ،جو بعد میں کسی مخصوص لڑی میں منتقل کر دی جائیگی
ایک دفعہ پھر سب کا بہت شکریہ

«۔۔۔گلِ لالہ۔۔۔«

میں ایک دن شکار پر تھا دشت میں رواں دواں
کہ راہ میں ملا حسین پھول اک کھلا ہوا

دلِ حزیں لیے،قریب جاکے میں نے عرض کی
سیہ نصیب گل ہے تو بھی ،آہ! میری ہی طرح
وہ گل جو زلفِ یار سے بچھڑ کے کھو گیا کہیں
جسے نہ آشنا کریں گی اپنے رخ کے لمس سے
کسی حسین و نازنیں کی نرم و نازک انگلیاں
نہ پھر تجھے نصیب بوسۂ لبانِ احمریں

یہ سن کے پھول دھیمی سی ادا سے مسکرا دیا
کہا کہ 'خان'، چاک کر یہ پردۂ فسردگی!!
نہیں قبول گر کہیں ،اسی مقام کے عوض
میں پرشیا کے گلکدوں کی آرزو کروں کبھی

اسی اکیلےپن سے ہے ملی مجھے یگانگی
تو کیا اگر چمن میں واں ہزار ہیں گلِ حسیں!؟

مرے چہار سو اگر ہے دشتِ بےاماں تو کیا
ہوں مست اپنی ذات میں،کہ رنگ ہوں میں ضوفشاں
خموش سازِ حسن ہوں ،کرشمہ ہائے لامکاں
ترے چمن میں پھول ہونگے ان گنت مری طرح
کہ جیسے بحرِ سرخ میں ہو ایک بوند بے نشاں

برادرم نہ تو بھی اپنے ریگزارِ زیست میں
کبھی نہ محوِ یاس ہو کبھی نہ ہو خفا خفا
کہ دور اب وہ دن نہیں،(سراہ لے تجھے کوئی)
جب آئے تیری دید کو 'غنی' سا کوئی دل جلا!!
 

Zahoorshah

محفلین
بهت خوب.
غنی خان کو کافی پڑھا. اتنا کہ اسکا کافی حصہ یاد ہوچکا. تاہم اردو ترجمہ پہلی مرتبہ سامنے ایا.
میں اکثر سوچتا کہ غنی کا اردو ترجمہ بہت مشکل ھوگا.
آپ یقین مانئے عینی صاحبہ میں نے خان کی نظمو کے انگریزی منظوم ترجمے پڑھے. جو مجھے اتنے اچھے نہیں لگے. اس وجہ سے میرا نہیں تھا خیال کہ اردو میں خان کا اتنا اعلٰی ترجمہ پڑھنے کو مل سکتا ہے.
اور آپ یہ بھی یقین مانیں کہ یہ منظوم ترجمہ بہترین ہے...
 
Top