(4)
غبار خاطر پہلی مرتبہ مئی 1946 میں چھپی تھی۔ اسے جناب محمد اجمل خان نے مرتب کیا تھا؛ اور اس کے شروع میں ان کا مقدمہ بھی شامل تھا۔ چوں کہ ایک زمانے کے بعد لوگوں نے مولانا آزاد کی کوئی تحریر دیکھی تھی، یہ ایڈیشن ہاتھوں ہاتھ نکل گیا۔ تین مہینے کے بعد کتاب دوسری مرتبہ اسی سال اگست میں چھپی؛ اور یہ اشاعت بھی سال بھر میں ختم ہو گئی۔ ان دونوں اشاعتوں کے ناشر حالی پبلشنگ ہاؤس دہلی تھے۔ بد قسمتی سے دونوں مرتبہ کتابت کا معیاری انتظام نہیں ہو سکا تھا اور اسی لیے مولانا اس سے مطمئن نہیں تھے۔ تیسری مرتبہ اسے ان کے ایک دیرینہ مداح لالہ پنڈی داس[1] نے 1947 کے فروری میں لاہور سے شائع کیا۔ اس مرتبہ اس میں ایک خط بھی زائد تھا جو پہلی دونوں اشاعتوں میں شامل ہونے سے رہ گیا تھا؛ یہ سب سے آخری خط موسیقی سے متعلق ہے۔ اب بازار میں اسی تیسری اشاعت کے چوری چھپے کے نقلی نسخے ملتے ہیں؛ اور یہ کتابت کی اغلاط سے پُر ہیں۔
مولانا آزاد مرحوم کی وفات 22 فروری 1958 کے بعد ساہیتہ اکیڈمی نے فیصلہ کیا کہ ان کی تمام تحریروں کو جمع کر کے جدید طریقے پر مرتب کیا جائے۔ کام کا آغاز ان کی شاہ کار تصنیف ترجمان القرآن سے کیا گیا۔ (اس کے دو حصے شائع ہو چکے ہیں۔ بقیہ دو جلدیں بھی غالباً اگلے سال ایک میں شائع ہو جائے گی۔)
غبارِ خاطر کی ترتیب میں مجھے سب سے زیادہ دقت مختلف کتابوں اور اشعار کے حوالوں کی تلاش میں ہوئی ہے۔ مرحوم لکھتے وقت اپنے حافظے سے بے تکلف کتابوں کی عبارتیں اور شعر لکھتے چلے جاتے ہیں۔ جہاں تک معروف شعرا اور مطبوعہ دواوین کا تعلق ہے، ان سے رجوع کرنا چنداں دشوار نہیں تھا لیکن نہیں کہا جا سکتا کہ انہوں نے شعر کسی تذکرے میں دیکھا تھا یا کہیں اُور۔ میں نے حوالے دواوین سے دیے ہیں۔ آپ دیکھیں گے کہ بہت جگہ لفظی تفاوت ہے۔ بعض اوقات وہ موقع کی ضرورت سے دانستہ بھی رد و بدل کر لیتے ہیں لیکن اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ انہوں نے جہاں اسے دیکھا تھا، وہاں یہ اسی طرح چھپا ہو۔ تاہم یہ ممکن ہے کہ ان کے حافظے نے اسے جوں کا توں محفوظ نہ رکھا ہو۔ اس صورت میں انہوں نے اس میں ایک آدھ لفظ اپنی طرف سے اضافہ کر کے لکھ دیا۔ چونکہ خود موزوں طبع تھے، شعر ساقط الوزن تو ہو نہیں سکتا تھا، البتہ اصل متن قائم نہ رہا۔ پوری کتاب میں کوئی سات سو شعر ہیں۔ پوری کوشش کے باوجود ان میں سے ستر اسی اشعار کی تخریج نہیں ہو سکی۔ میں نے اس سلسلے میں اپنے کئی احباب سے بھی مدد لی ہے اور میں ان سب کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے حتی الامکان اس سے دریغ نہیں کیا۔ دلی میں اب کتابوں کا کال ہے اور یہاں کوئی اچھا کتاب خانہ نہیں ہے۔ میں نے بہت جگہوں سے کتابیں مستعار لیں اور اس کے لیے مجھے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی آزاد لائبریری اور ادارۂ علوم اسلامیہ کے کتاب خانے سے بھی رجوع کرنا پڑا۔ اس کے باوجود بعض حوالوں کی تکمیل نہیں ہو سکی۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ کتابیں مہیا نہ ہو سکیں۔ اگر کتاب کے پھر چھپنے کی نوبت آئی اور اس اثنا میں مزید معلومات مہیا ہو گئیں۔ تو اس کمی کو پورا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اس ایڈیشن کا متن 1947 کی طبعِ ثالث پر مبنی ہے۔ البتہ طبعِ اول کا نسخہ مقابلے کے لیے پیش نظر رہا ہے۔
اصلی کتاب کے حواشی میں مداخلت نہیں کی گئی، حالانکہ ممکن ہے کہ ان میں سے بعض خود مولانا مرحوم کے قلم سے نہ ہوں۔ میں نے امتیاز کے لیے اپنے حواشی کتاب کے آخر میں شامل کر دیے ہیں۔
حاشیہ
[1](لالہ پنڈی داس پنجاب کے پرانے انقلابیوں میں شمار ہوتے ہے۔ وہ لاہور کی اولین انقلابی انجمن "بھارت ماتا سبھا" کے ممبر، بلکہ اس کے بانیوں میں سے تھے۔ اس انجمن میں سردار اجیت سنگھ (بھگت سنگھ کے چچا) صوفی انبا پرشاد (ایڈیٹر روزنامہ پیشوا) ایشری پرشاد (نیم سوپ والے) منشی منور خان ساغر اکبر آبادی؛ دینا ناتھ حافظ آبادی (ایڈیٹر اخبار ہندوستان) لال چند فلک، مہتہ نند کشور وغیرہ ان کے شریک کار تھے۔ انجمن کی طرف سے ایک ماہانہ رسالہ بھی نکلتا تھا۔ (پنڈی داس خود بھی ایک پرچہ "انڈیا" گوجرانوالہ سے نکالتے تھے) اس سبھا کے جلسے باقاعدہ ہوتے جن میں جوشیلے اراکین حکومت کے خلاف غم و غصہ کا اعلان کرتے اور لوگوں کو ابھارنے کےلیے نظم و نثر میں آگ اگلتے تھے۔
جب مئی 1907 میں حکومت نے لالہ لاجپت رائے کو گرفتار کر کے مانڈلے (برما) میں نظر بند کر دیا، تو اسی زمانے میں پنڈی داس ارنند کشور کو بھی پانچ سال کے لیے کسی نامعلوم مقام پر بھیج دیا گیا تھا۔ 14 جولائی 1969 کو دلی میں انتقال ہوا (حاشیہ ختم)