غزل برائے تنقید و اصلاح
غیروں کو بلاتے ہیں وہ اب اپنے ہی گھر میں
اس شرفِ ملاقات پہ انگلی تو اٹھے گی
غربت کو جہاں دیواروں میں چنوایا گیا ہو
ان شاہی محلّات پہ انگلی تو اٹھے گی
بے وجہ نکل جاتے ہیں یہ اشک ہمارے
ان درد کے لمحات پہ انگلی تو اٹھے گی
جو رات کہ روشن ہوئی مزدور کے خوں سے
اس کالی سیاہ رات پہ انگلی اٹھے گی
خود کر کے جفائیں وہ خفا ہم سے ہوئے ہیں
اس جیسے کمالات پہ انگلی تو اٹھے گی
عاشق بھی وہیں بند ہوکہ معشوق جہاں ہے
اب ایسی حوالات پہ انگلی تو اٹھے گی
کہتے ہیں بھری بزم میں تم خواب میں کیوں آئے
معصوم سوالات پہ انگلی تو اٹھے گی
غیروں سے وہ کہتے ہیں انھیں بھول ہی جائیں
ان زرّیں خیالات پہ انگلی تو اٹھے گی
ملتی نہ ہو جس ملک میں مزدور کو روٹی
اس ملک کے حالات پہ انگلی تو اٹھے گی
کرتے ہو بھلا کس ملک میں جذبات کی باتیں
راقم ترے جذبات پہ انگلی تو اٹھے گی
غیروں کو بلاتے ہیں وہ اب اپنے ہی گھر میں
اس شرفِ ملاقات پہ انگلی تو اٹھے گی
غربت کو جہاں دیواروں میں چنوایا گیا ہو
ان شاہی محلّات پہ انگلی تو اٹھے گی
بے وجہ نکل جاتے ہیں یہ اشک ہمارے
ان درد کے لمحات پہ انگلی تو اٹھے گی
جو رات کہ روشن ہوئی مزدور کے خوں سے
اس کالی سیاہ رات پہ انگلی اٹھے گی
خود کر کے جفائیں وہ خفا ہم سے ہوئے ہیں
اس جیسے کمالات پہ انگلی تو اٹھے گی
عاشق بھی وہیں بند ہوکہ معشوق جہاں ہے
اب ایسی حوالات پہ انگلی تو اٹھے گی
کہتے ہیں بھری بزم میں تم خواب میں کیوں آئے
معصوم سوالات پہ انگلی تو اٹھے گی
غیروں سے وہ کہتے ہیں انھیں بھول ہی جائیں
ان زرّیں خیالات پہ انگلی تو اٹھے گی
ملتی نہ ہو جس ملک میں مزدور کو روٹی
اس ملک کے حالات پہ انگلی تو اٹھے گی
کرتے ہو بھلا کس ملک میں جذبات کی باتیں
راقم ترے جذبات پہ انگلی تو اٹھے گی