غیر اللہ سے مدد مانگنا
نوٹ: اس تحریر کا یہ ربط ہے۔ فورم کے قوانین کو مدِنظر رکھتے ہوئے اور دل آزاری اور سختی سے بچنے کے لئے کہیں کہیں تبدیلی کی گئی ہے۔ نیز چند احادیث حوالاجات سمیت شامل کی گئی ہیں۔ اس تحریر کے علاوہ مزید تحاریر بھی شامل کی جائیں گی۔
الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ و علی آلہ و أصحابہ ومن اھتدی بھداہ ، أما بعد:
صحیفۃ (المجتمع الکوتیہ) نے شمارہ نمبر ۱۵ بتاریخ ۱۹/۴ ۔۱۳۹۰ھ بعنوان ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یادگار میں کچھ اشعار نشر کئے تھے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مدد مانگنے اور آپ سے امت کی حفاظت، ان کی نصرت و حمایت اور ان کوباہمی پھوٹ و اختلاف سے چھٹکارا دلانے کے مطالبہ پر مشتمل تھے اور جو آمنہ نامی خاتون کی دستخط کے ساتھ تھے، اس مضمون کے چند اشعار ذیل میں ذکر کئے جاتے ہیں:
یا رسول اللہ أدرک عالماً یشعل الحرب و یصلی من لظاھا
یارسول اللہ أدرک أمۃ فی ظلام الشک قد طال سراھا
یا رسول اللہ أدرک أمۃ فی متاھات الأسی ضاعت رؤاھا
'' اے اللہ کے رسول اس دنیا کی مدد کیجئے جو جنگ کی آگ بھڑکارہی ہے اور جو اسے بھڑکائے اسے اس میں جھلس دے رہی ہے۔
اے اللہ کے رسول اس امت کی مدد کیجئے جس کی رات کاسفر شک کی تاریکیوں میں لمبا ہوگیا ۔
یارسول اللہ اس امت کی مدد کیجئے جس کی خوشحالی رنج و غم کی پرشاں خیالیوں میں ضائع ہوگئی''۔
پھر آخر میں اس نے کہا:
یارسول اللہ أدرک أمۃ فی ظلام الشک قد طال سراھا
عجل النصر کما عجلتہ یوم بدر حنین نادیت الإلہ
فاستحال الذل نصرأ رائعاً أن للہ جنوداً لاتراھا
''اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس امت کی مددکیجئے جس کی رات کاسفر شک کی تاریکیوں میں لمبا ہوگیا ۔
اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ جلد از جلد مدد کیجئے جیسا کہ آپ نے غزؤہ بدر کے دن مدد کی تھی جب آپ نے اللہ کوپکارا تھا ''۔
تو ذلت و خواری شاندار فتح میں تبدیل ہوگئی کیونکہ اللہ کا لشکر ایسے ہیں جنہیں تودیکھ نہیں سکتا۔
(اللہ اکبر) یہ شاعرہ اس انداز سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی پکار اور فریاد پیش کرتی ہے اور آپ سے مطالبہ کرتی ہے کہ جلد از جلد امت کی مدد فرما کر اس کا تحفظ فرمائیں اور اس بات کو ذہن سے اوجھل کردیتی ہے کہ مدد صرف ایک اللہ کے ہاتھ میں ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی مخلوق کے ہاتھ میں نہیں ہے ۔
جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالی نے اپنی مبین میں فرمایا :
وَمَا النَّصْرُ اِلَّا مِنْ عِنْدِ اللہِ الْعَزِيْزِ الْحَكِيْمِ۱۲۶ۙ
'' اور مدد تواللہ ہی کی طرف سے ہے جو غالب اور حکمتوں والاہے''۔ سورۃ آل عمران، 126
اور اللہ عزوجل نے فرمایا :
اِنۡ یَّنۡصُرۡکُمُ اللّٰہُ فَلَا غَالِبَ لَکُمۡ ۚ وَ اِنۡ یَّخۡذُلۡکُمۡ فَمَنۡ ذَا الَّذِیۡ یَنۡصُرُکُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِہٖ ؕ وَ عَلَی اللّٰہِ فَلۡیَتَوَکَّلِ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ﴿۱۶۰﴾
اگر اللہ تعالٰی تمہاری مدد کرے تو تم پر کوئی غالب نہیں آسکتا اگر وہ تمہیں چھوڑ دے تو اس کے بعد کون ہے جو تمہاری مدد کرے ایمان والوں کو اللہ تعالٰی ہی پر بھروسہ رکھنا چاہئے ۔ (سورۃ آل عمران، 160)
کتاب و سنت کے دلائل اور اجماع امت سے یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالی نے مخلوق کو اپنی عبادت کے لئے پیدا فرمایا اور اسی عبادت کی توضیح و تشریح اور اس کی جانب دعوت دینے کے لئے رسولوں کو مبعوث فرمایا اور کتابیں نازل کیں ۔
جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالی نے فرمایا :
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ۵۶
'' میں نے جنوں اور انسانوں کو محض اسی لئے پیدا کیا ہے کہ وہ صرف میری عبادت کریں ''۔ سورۃ الذاریات، 56
اور اللہ تعالی نے فرمایا :
وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِىْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّ۔ٰهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ ۖ
'' ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا (لوگو)صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا تمام معبودوں کی عبادت سے بچو''۔ سورة النحل، 36
نیز اللہ تعالی نے فرمایا :
وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِيْٓ اِلَيْہِ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ۲۵
'' تجھ سے پہلے جو بھی رسول ہم نے بھیجا اس کی طرف یہی وحی نازل فرمائی کہ میرے سوا کوئی معبود برحق نہیں ، پس تم سب میری ہی عبادت کرو''(الانبیاء :۲۵)
نیز اللہ عزوجل نے فرمایا :
ال۔رٰ ۚ كِتَابٌ اُحْكِمَتْ اٰيَاتُهٝ ثُ۔مَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّ۔دُنْ حَكِ۔يْ۔مٍ خَبِيْ۔رٍ (1) اَلَّا تَعْبُدُوٓا اِلَّا اللّ۔ٰهَ ۚ اِنَّنِىْ لَكُمْ مِّنْهُ نَذِيْرٌ وَّبَشِيْ۔رٌ (2) سورۃ ھود
'' الر یہ ایک ایسی کتاب ہے کہ اس کی آیتیں محکم کی گئی ، پھر صاف صاف بیان کی گئی ہیں ، ایک حکیم باخبر کی طرف سے ، یہ کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت مت کرو، میں تم کو اللہ کی طرف سے ڈرانے والا اور بشارت دینے والاہوں''۔
اللہ سبحانہ و تعالی نے مذکورہ بالا واضح آیات میں بیان فرما دیا ہے کہ اس نے جن و انس کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدافرمایا ہے ، اور اس اللہ کا کوئی شریک و ساجھی نہیں ہے، اس نے رسولوں کو اس عبادت کا ہی حکم دینے اور اس کے منافی امور سے منع کرنے کے لئے مبعوث فرمایا اور اللہ عزوجل نے یہ بھی بتلا دیا کہ اس نے قرآن کریم کی آیات کو واضح کھلا ہوا نازل فرمایا تاکہ اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کی جائے۔
عبادت کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالی کو ایک گردانا جائے اور اس کے حکموں کو بجالا کر اور منع کردہ چیزوں کو چھوڑ کر اس کی فرمانبرداری کی جائے، اللہ تعالی نے بہت سی آیات میں اس کاحکم دیا ہے ،چنانچہ ایک آیت کریمہ میں فرمایا :
وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ
'' انہیں اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیاگیا کہ صرف اللہ کی عبادت کریں اس کے لئے دین کو خالص کرتے ہوئے تمام ترباطل دینوں سے اجتناب کرکے۔ سورۃ البینۃ، آیت ۵
نیز فرمان الہی ہے :
وَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاہُ۔
'' اور پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم سب اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا''۔(الاسراء: ۲۳)
نیز فرمان الہی ہے :
اِنَّ۔آ اَنْزَلْنَ۔آ اِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِ اللّ۔ٰهَ مُخْلِصًا لَّ۔هُ الدِّيْنَ (2) اَلَا لِلّ۔ٰهِ الدِّيْنُ الْخَالِصُ ۚ سورۃ الزمر، آیت ۲، ۳
'' بے شک ہم نے یہ کتاب ٹھیک طور پر آپ کی طرف نازل کی ہے پس تو خالص اللہ ہی کی فرمانبرداری مدِ نظر رکھ کر اسی کی عبادت کر، خبردار اللہ تعالی ہی کے لئے خالص عبادت کرنا ہے''۔
اس مفہوم کی آیات بہت زیادہ ہیں جو سب کی سب اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ صرف ایک اللہ کے لئے عبادت کو خالص کرنا اور اس کے سوا انبیاء وغیرہ کی عبادت سے گریز کرناضروری ہے ، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ دعا عبادت کی ایک اہم اور ہمہ گیر قسم ہے ، لہذا اس کاصرف ایک اللہ کے لئے خالص کرنا ضروری ہے۔
جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
فَادۡعُوا اللّٰہَ مُخۡلِصِیۡنَ لَہُ الدِّیۡنَ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡکٰفِرُوۡنَ
''تم اللہ کو پکارتے رہو اس کے لئے دین کو خالص کرکے گو کافر برا مانیں ''۔ سورة مومن، 14
اور اللہ عزوجل نے فرمایا :
وَّ اَنَّ الۡمَسٰجِدَ لِلّٰہِ فَلَا تَدۡعُوۡا مَعَ اللّٰہِ اَحَدًا
سورۃ الجن، 18
'' اور یہ مسجدیں صرف اللہ کے لئے خاص ہیں پس اللہ تعالی کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو''۔
یہ آیت کریمہ اللہ تعالی کے سوا تمام مخلوقات انبیاء وغیرہ کو پکارنے کی ممانعت کو شامل ہے، کیونکہ لفظ (احد)نکرہ نہی کے سیاق میں وارد ہوا ہے، لہذا یہ اللہ سبحانہ و تعالی کے علاوہ ہر چیز کو عام ہے ۔
ارشاد باری ہے :
وَ لَا تَدۡعُ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ مَا لَا یَنۡفَعُکَ وَ لَا یَضُرُّکَ
''اور اللہ کوچھوڑ کر ایسی چیز کی عبادت مت کرنا جو تمہیں نہ کوئی نفع پہنچا سکے اور نہ کوئی نقصان ''۔ سورۃ یونس، 106
یہ خطاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے اور یہ بات واضح ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے آپ کو شرک سے محفوظ رکھا ہے ، تواس آیت کریمہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کرنے کامقصد دوسروں کو شرک سے ڈرانا ہے، پھر اللہ عزوجل نے اس آیت کے آخر میں فرمایا : ( فان فعلت فانک اذا من الظالمین )
'' اگر تونے (شرک ) کیاتو تم ظالموں میں سے ہوجاؤ گے ''۔ سورۃ یونس ، 106
اللہ کے سوا کسی دوسرے کو پکارنے پر ظالموں میں ہوجائیں گے توپھر اگر کوئی غیر اللہ کوپکارے تو اس کا کیاحال ہوگا؟
مذکورہ بالا اور دیگر آیات سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ اللہ کے سوا مردوں ، درختوں ، بتوں وغیرہ کو پکارنا اللہ عزوجل کے ساتھ شرک اور عبادت کے اس عظیم مقصد کے منافی ہے جس کے لئے اللہ تعالی نے جن و انس کو پیدا فرمایا اور کتابیں نازل کیں، کلمہ لا الہ الا اللہ کامطلب بھی یہی ہے ، لا الہ الا اللہ کامعنی یہ ہے کہ اللہ کے علاوہ کوئی بھی معبود برحق نہیں ہے، یہ کلمہ غیر اللہ سے عبادت کی نفی کرتا، اور اس کو ایک اللہ کے لئے ثابت کرتا ہے ، جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا :
ذٰلِكَ بِاَنَّ اللہَ ہُوَالْحَقُّ وَاَنَّ مَا يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہِ الْبَاطِلُ۰ۙ
'' یہ سب (انتظامات)اس وجہ سے ہیں کہ اللہ تعالی ہی حق ہے، اور اس کے سواجن جن کو لوگ پکارتے ہیں سب باطل ہیں ''۔ سورۃ لقمان، آیت 30
یہی دین اسلام کی جڑ اور ملت اسلامیہ کی بنیاد ہے ، اور کوئی بھی عبادت اس وقت تک صحیح نہ ہوگی جب تک کہ بنیاد درست نہ ہو، جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا :
وَلَقَدْ اُوْحِيَ اِلَيْكَ وَاِلَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكَ۰ۚ لَىِٕنْ اَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ۶۵
'' یقیناً آپ کی طرف بھی اور آپ سے پہلے (کے تمام نبیوں )کی طرف بھی وحی کی گئی کہ اگر تونے شرک کیاتوبلاشبہ تیراعمل ضائع ہوجائے گا ، اور بالیقین تونقصان اٹھانے والوں میں ہوجائے گا''۔ سورۃ الزمر
نیز اللہ سبحانہ و تعالی نے فرمایا :
وَلَوْ اَشْرَكُوْا لَحَبِطَ عَنْہُمْ مَّا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۸۸
''اور اگر بالفرض یہ حضرات (انبیاء کرام )بھی شرک کرتے توجو کچھ یہ اعمال کرتے تھے وہ سب اکارت ہوجاتے ''۔ سورۃ الانعام
دین اسلام دو عظیم اصول پر مبنی ہے:
اول : تمام تر عبادتیں صرف اللہ وحدہ لاشریک کے لئے انجام دی جائیں ۔
دوم : عبادت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت کے مطابق انجام دی جائے، کلمہ شہادت لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کایہی معنی ہے ۔
لہذا جو شخص مثلاً انبیاء وغیرہ کو یابتوں یادرختوں یاپتھروں یا ان کے علاوہ دیگر مخلوقات کو پکارے ، یا ان سے مدد طلب کرے ، یاان کے لئے ذبح یانذر و نیاز پیش کرکے ان کا قرب چاہے، یاان کے لئے نماز پڑھے یاسجدے کرے ، توبلاشبہ یہ ساری چیزیں اس اصل سے ٹکراتی ہیں اور کلمہ کے پہلے جز لا الہ الا اللہ کے معنی کے منافی ہیں ۔
اسی طرح اگر کوئی شخص دین اسلام میں کوئی نیاکام گھڑ کر انجام دے جس کی اللہ نے اجازت نہیں دی تواس نے کلمہ کے دوسرے جز محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گواہی کے معنی کوثابت نہیں کیا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کسی نے ہمارے اس امر (دین اسلام) میں کسی نئی چیز کا اضافہ کیا جو اس (دین) میں نہیں ہے تو وہ (نیا امر) مردود ہے۔
(سنن ابی داوُ د کتاب السنۃ جلد سوئم :4606)
مذکورہ اشعار میں اس شاعرہ نے اپنی فریاد اور پکار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش کی ہے اور سارے جہاں کے پروردگار سے روگردانی کی ہے ، جس کے ہاتھ میں مدد نفع و نقصان کے اختیارات ہیں ، اور اس کے سوا کسی کے پاس بھی ان چیزوں کااختیار نہیں ہے،بلاشبہ اللہ کے سوا دوسروں کو پکارنا بہت بڑا ظلم ہے۔
اللہ عزوجل نے حکم دیا ہے کہ صرف اس ذات کو پکارا جائے اور وعدہ کیا ہے کہ جو اسے پکارے گا وہ اس کی پکار کو قبول فرمائے گا ، اور فرمایا کہ جو اس کو پکارنے سے تکبر اپنائے گا اسے جہنم میں داخل فرمائے گا ، جیسا کہ اللہ عزوجل نے فرمایا :
وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ۰ۭ اِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِيْ سَيَدْخُلُوْنَ جَہَنَّمَ دٰخِرِيْنَ۶۰ۧ
'' اور تمہارے رب کافرمان (سرزد ہوچکا ) ہے کہ مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا یقین مانو کہ جولوگ میری عبادت سے خود سری کرتے ہیں وہ ابھی بھی ذلیل ہوکر جہنم میں پہنچ جائیں گے ''۔ سورۃ غافر
اس آیت میں (داخرین )کامعنی ذلیل و رسوا ہیں۔
یہ آیت کریمہ اس بات پردلالت کرتی ہے کہ دعا عبادت ہے، اور اس سے تکبر اختیار کرنے والے کاٹھکانہ جہنم ہے ، جب اللہ تعالی کو پکارنے سے تکبر اختیار کرنے والے کاانجام یہ ہے تو اس شخص کاانجام کیا ہوگا جو اللہ سبحانہ و تعالی سے اعراض کرے اور اس کے سوا دوسروں کو پکارے؟
اللہ سبحانہ و تعالی نے فرمایا :
ںوَاِذَا سَاَلَكَ عِبَادِيْ عَ۔نِّىْ فَاِنِّىْ قَرِيْبٌ۰ۭ اُجِيْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ۰ۙ فَلْيَسْتَجِيْبُوْا لِيْ وَلْيُؤْمِنُوْا بِيْ لَعَلَّہُمْ يَرْشُدُوْنَ۱۸۶
'' جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں تو آپ کہہ دیں کہ میں بہت ہی قریب ہوں ہر پکارنے والے کی پکار کو جب کبھی وہ مجھے پکارے قبول کرتاہوں اس لئے لوگوں کوبھی چاہیئے کہ وہ میری بات مان لیا کریں اور مجھ پر ایمان رکھیں یہی ان کی بھلائی کاباعث ہے ''۔ سورۃ البقرۃ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحیح حدیث میں فرمایا:
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سواری پر پیچھے تھا، آپ نے فرمایا: ”اے لڑکے! بیشک میں تمہیں چند اہم باتیں بتلا رہا ہوں: تم اللہ کے احکام کی حفاظت کرو، وہ تمہاری حفاظت فرمائے گا، تو اللہ کے حقوق کا خیال رکھو اسے تم اپنے سامنے پاؤ گے، جب تم کوئی چیز مانگو تو صرف اللہ سے مانگو، جب تو مدد چاہو تو صرف اللہ سے مدد طلب کرو، اور یہ بات جان لو کہ اگر ساری امت بھی جمع ہو کر تمہیں کچھ نفع پہنچانا چاہے تو وہ تمہیں اس سے زیادہ کچھ بھی نفع نہیں پہنچا سکتی جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے، اور اگر وہ تمہیں کچھ نقصان پہنچانے کے لیے جمع ہو جائے تو اس سے زیادہ کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتی جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے، قلم اٹھا لیے گئے اور (تقدیر کے) صحیفے خشک ہو گئے ہیں“ ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ (ترمذی ۔ 2516(
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 5415)، وانظر: مسند احمد 1/293، 303) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: معلوم ہوا کہ اللہ کے فیصلہ کو کوئی نہیں بدل سکتا، اللہ کے سوا کسی سے مدد مانگنا شرک ہے، نفع و نقصان کا مالک صرف اللہ ہے، بندہ اگر اللہ کی طرف متوجہ رہے تو اللہ اپنے اس بندے کا خیال رکھتا ہے۔
سنن ترمذي, حدیث نمبر 2516, باب:۔۔۔
صحیح بخاری ومسلم میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ سب سے بڑا گناہ کون ساہے؟ تو آپ نے فرمایا : '' توکسی کو اللہ کامد مقابل سمجھے جبکہ اسی نے تجھے پیداکیا ہے''
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کون سا گناہ اللہ کے نزدیک بڑا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ کہ تو اللہ کا شریک یا برابر والا کسی اور کو بنا دے حالانکہ تجھے اللہ نے پیدا کیا“ (پھر تو اپنے صاحب پیدا کرنے والے کو چھوڑ کر دوسرے کو مالک بنا دے یہ کتنا بڑا اندھیرا ہے اور مالک اس کام سے کیسا ناراض ہو گا) میں نے کہا: یہ تو بڑا گناہ ہے۔ اب اس کے بعد کون سا گناہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو اپنی اولاد (لڑکا یا لڑکی) کو مار ڈالے اس ڈر سے کہ تیرے ساتھ روٹی کھائے گا۔“ میں نے کہا: پھر کون سا گناہ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو زنا کرے اپنے ہمسائے کی عورت سے۔“
صحیح مسلم۔ کتاب الایمان ۔ 257
صحيح مسلم, حدیث نمبر 257, باب: شرک سب سے بڑا گناہ ہے، اور اس کے بعد بڑے گناہوں کا بیان۔
لہذا جو شخص اللہ تعالی کے ساتھ کسی کو پکارے یا اس سے فریاد کرے، یا اس کے لئے نذرو نیاز پیش کرے یااس کے لئے قربانی کرے یاعبادت کی کوئی بھی قسم اس کے لئے انجام تواس نے اس کو اللہ کامد مقابل بنایا، خواہ وہ کوئی نبی ، ولی ، فرشتہ جن یابت یامخلوق میں سے کوئی اور چیز ہو۔
البتہ زندہ حاضر شخص سے کسی چیز کاسوال کرنا اور ظاہری امور میں اس سے فریاد طلب کرنا جس کی وہ قدرت رکھتاہو، شرک نہیں ہے ، بلکہ یہ توایک عام سی چیز ہے جو مسلمانوں کے درمیان جائز ہے۔
جیساکہ موسیٰ علیہ السلام کے قصہ میں اللہ تعالی نے فرمایا
فَاسْتَغَاثَہُ الَّذِيْ مِنْ شِيْعَتِہٖ عَلَي الَّذِيْ مِنْ عَدُوِّہٖ۰ۙ
'' موسیٰ کی قوم والے نے موسیٰ سے اس کے خلاف فریاد کی جو ان کے دشمنوں میں سے تھا''۔ سورۃ القصص۔ 15
اور جب اللہ تعالی نے موسیٰ علیہ السلام کے قصے میں فرمایا :
فَخَ۔۔۔رَجَ مِنْہَا خَاۗىِٕفًا يَّتَرَقَّبُ۔(القصص: ۲۱)
'' پس موسیٰ خوفزدہ ہوکر وہاں سے دیکھتے بھالتے نکل کھڑے ہوئے''۔
اس کی ایک مثال یوں سمجھیں کہ جس طرح لوگ جنگ وغیرہ کے دوران باہم ایک دوسرے کی مدد کے محتاج ہوتے اور بعض درپیش امور میں اپنے ساتھیوں سے فریاد کرتے ہیں شرعاً اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
اللہ سبحانہ و تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دیاکہ وہ لوگوں کویہ بات پہنچا دیں کہ وہ کسی کے نفع و نقصان کے مالک نہیں ہیں ، چنانچہ اللہ تعالی نے سورہ الجن میں فرمایا :
قُلْ اِنَّمَآ اَدْعُوْا رَبِّيْ وَلَآ اُشْرِكُ بِہٖٓ اَحَدًا۲۰ قُلْ اِنِّىْ لَآ اَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَّلَا رَشَدًا۲۱
'' آپ کہہ دیجئے میں توصرف اپنے رب ہی کوپکارتا ہوں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا۔کہہ دیجئے کہ مجھے تمہارے کسی نقصان و نفع کااختیار نہیں ''۔ سورۃ الجن
نیز اللہ تعالی نے سورۃ الاعراف میں فرمایا :
قُلْ لَّآ اَمْلِكُ لِنَفْسِيْ نَفْعًا وَّلَا ضَرًّا اِلَّا مَا شَاۗءَ اللہُ۰ۭ وَلَوْ كُنْتُ اَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْ۔تَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ۰ۚۖۛ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوْۗءُ۰ۚۛ اِنْ اَنَا اِلَّا نَذِيْرٌ وَّبَشِيْرٌ لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ۱۸۸ۧ
'' آپ فرمادیجئے کہ میں خود اپنی ذات خاص کے لئے کسی نفع کااختیار نہیں رکھتا اور نہ کسی ضرر کامگر اتنا ہی کہ جتنا اللہ نے چاہا ہواور اگر میں غیب کی باتیں جانتا ہوتا تومیں بہت سے منافع حاصل کر لیتا اور کوئی نقصان مجھے نہ پہنچتا میں تو محض ڈرانے اور بشارت دینے والا ہوں ان لوگوں کو جو ایمان رکھتے ہیں ''۔ سورۃ الاعراف
اس مفہوم کی آیات بہت زیادہ ہیں ۔
اور خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاحال یہ تھا کہ آپ اپنے رب کے سوا نہ کسی کو پکارتے اور نہ ہی مدد کاسوال کرتے تھے ۔ غزؤہ بدر کے دن آپ اپنے رب سے پوری گریہ زاری کے ساتھ دشمنوں کے خلاف مدد طلب کررہے تھے:
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوہاب ثقفی نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد حذاء نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (بدر کے دن) دعا فرما رہے تھے، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک خیمہ میں تشریف فرما تھے، کہ اے اللہ! میں تیرے عہد اور تیرے وعدے کا واسطہ دے کر فریاد کرتا ہوں۔ اے اللہ! اگر تو چاہے تو آج کے بعد تیری عبادت نہ کی جائے گی۔ اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑ لیا اور عرض کیا: بس کیجئے اے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کے حضور میں دعا کی حد کر دی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت زرہ پہنے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے تو زبان مبارک پر یہ آیت تھی «سيهزم الجمع ويولون الدبر * بل الساعة موعدهم والساعة أدهى وأمر» ”جماعت (مشرکین) جلد ہی شکست کھا کر بھاگ جائے گی اور پیٹھ دکھانا اختیار کرے گی اور قیامت کے دن کا ان سے وعدہ ہے اور قیامت کا دن بڑا ہی بھیانک اور تلخ ہو گا۔“ اور وہیب نے بیان کیا، ان سے خالد نے بیان کیا کہ بدر کے دن کا (یہ واقعہ ہے)۔
صحیح بخاری ۔ 2915
صحيح البخاري, حدیث نمبر 2915, باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا لڑائی میں زرہ پہننا۔
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، جس دن بدر کی لڑائی ہوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکوں کو دیکھا وہ ایک ہزار تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب تین سو انیس تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکوں کو دیکھا اور قبلہ کی طرف منہ کیا، پھر دونوں ہاتھ پھیلائے، اور پکار کر دعا کرنے لگے اپنے پروردگار سے۔ (اس حدیث سے یہ نکلا کہ دعا میں قبلہ کی طرف منہ کرنا اور ہاتھ پھیلانا مستحب ہے) «اللَّهُمَّ أَنْجِزْ لِى مَا وَعَدْتَنِى اللَّهُمَّ آتِ مَا وَعَدْتَنِى اللَّهُمَّ إِنْ تَهْلِكْ هَذِهِ الْعِصَابَةُ مِنْ أَهْلِ الإِسْلاَمِ لاَ تُعْبَدْ فِى الأَرْضِ» ”یااللہ! پورا کر جو تو نے وعدہ کیا مجھ سے، یااللہ! دے مجھ کو جو وعدہ کیا تو نے مجھ سے، یااللہ! اگر تو تباہ کر دے گا اس جماعت کو تو پھر نہ پوجا جائے گا تو زمین میں۔“ (بلکہ جھاڑ پہاڑ پوجے جائیں گے) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم برابر دعا کرتے رہے اپنے ہاتھ پھیلائے ہوئے یہاں تک کہ آپ کی چادر مبارک مونڈھوں سے اتر گئی سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر مونڈھے پر ڈال دی، پھر پیچھے سے ہٹ گئے اور فرمایا اے نبی اللہ تعالیٰ کے بس، آپ کی اتنی دعا کافی ہے اب اللہ تعالیٰ پورا کرے گا وہ وعدہ جو کیا آپ سے۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری «إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّى مُمِدُّكُمْ بِأَلْفٍ مِنَ الْمَلاَئِكَةِ مُرْدِفِينَ» (۸-الأنفال:۹) ”یعنی جب تم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے تھے اور اس نے قبول کی دعا تمہاری اور فرمایا میں تمہاری مدد کروں گا ایک ہزار فرشتے لگاتار سے،“
صحیح مسلم 4588
صحيح مسلم, حدیث نمبر 4588, باب: فرشتوں کی مدد بدر کی لڑائی میں اور مباح ہونا لوٹ کا۔
اس موضوع کے بارے میں اللہ تعالی نے قرآن کریم میں متعددآیات نازل فرمادیں چنانچہ فرمایا :
اِذْ تَسْتَغِيْثُوْنَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ اَنِّىْ مُمِدُّكُمْ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلٰۗىِٕكَۃِ مُرْدِفِيْنَ۹
وَمَا جَعَلَہُ اللہُ اِلَّا بُشْرٰي وَلِتَطْمَىِٕنَّ بِہٖ قُلُوْبُكُمْ۰ۚ وَمَا النَّصْرُ اِلَّا مِنْ عِنْدِ اللہِ۰ۭ اِنَّ اللہَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ۱۰ۧ
'' اس وقت کو یاد کرو جب تم اپنے رب سے فریاد کررہے تھے ، پھر اللہ نے تمہاری فریاد سن لی کہ میں ایک ہزار فرشتوں سے مدد دونگا جو لگاتار چلے آئیں گے ، اوراللہ نے یہ امدا دمحض اس لئے کی کہ بشارت ہواور تاکہ تمہارے دلوں کو قرار ہوجائے اور مدد صرف اللہ کی طرف سے ہے، جو کہ زبردست حکمت والا ہے ''۔ سورۃ الانفال
ان آیات میں اللہ سبحانہ و تعالی نے مومنوں کو اپنی فریاد رسی یاد دلاتے ہوئے فرمایا کہ اس نے ان کی پکار کوقبول کرلیا اور فرشتوں کے ذریعہ مدد فرمادی ، پھر اللہ تعالی نے واضح کردیاکہ مدد فرشتوں کی جانب سے نہ تھی بلکہ اللہ کی جانب سے تھی یہ فرشتوں کانزول توخوشخبری دینے اور تمہارے دلوں کے اطمینان کے لئے تھا (ورنہ وہ اللہ فرشتوں کے بغیر بھی تمہاری مدد کرسکتا تھا )جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا: ( وما النصر الا من عند اللہ )
'' اور مدد تو صرف اللہ ہی کی طرف سے ہے ''۔
اور اللہ عزوجل نے سورہ آل عمران میں فرمایا:
وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللہُ بِبَدْرٍ وَّاَنْتُمْ اَذِلَّ۔۔ۃٌ۰ۚ فَاتَّقُوا اللہَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ۱۲۳
'' جنگ بدر میں اللہ تعالی نےعین اس وقت تمہاری مدد فرمائی تھی جبکہ تم نہایت گری ہوئی حالت میں تھے، اس لئے اللہ ہی سے ڈرو (کسی اور سے نہیں )تاکہ تمہیں شکر گزاری کی توفیق ہو۔ سورۃ آل عمران
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے واضح فرمادیا کہ غزؤہ بدر کے دن اللہ سبحانہ و تعالی ہی معین و مددگار تھا، اس سے معلوم ہواکہ مسلمانوں کی ہتھیار ، قوت اور فرشتوں سے جو مدد کی تھی یہ سب کچھ مدد خوشخبری اور اطمینان قلب کے اسباب تھے، بذات خود مدد نہ تھے، بلکہ مدد توصرف اللہ کی طرف سے تھی ۔
کتاب : توحید کا قلعہ
تالیف : عبدالملک القاسم
دارالقاسم للنشر والتوبیح
لڑی برائے تبصرہ
آخری تدوین: