پچھلے ہفتے یہ دھاگہ نظر سے گزرا اور پھر کہیں اور مصروف ہو جانے کی وجہ سے جواب نہ دے پایا۔ آج دوبارا یاد آیا تو بہت ڈھونڈا اور ہمیشہ کی طرح جلدی ہمت ہار دی اور پھر بالاخر اس دھاگے کی بانی اور مالکن سے گزارش کر کے یہ دھاگہ دوبارا کھوج نکالا۔ ایک بار پھر پڑھا اور پھر لکھنے والی کے خیال، الفاظ اور خلوص کو سراہے بغیر چلے جانے کو مناسب نہ جانا۔
میرا ایک دوست ہوا کرتا تھا، بلکہ ہم کافی سارے دوست ہوا کرتے تھے۔ پتہ نہیں یہاں لفظ "تھے" استعمال کرنا مناسب بھی ہے کہ نہیں کیوںکہ امی کہاں کرتی تھیں کہ ہر وقت اول فول نہیں بکا کرتے، کوئی وقت قبولیت کا بھی ہوتا ہے۔ تو جب ہم انٹرمیدیٹ کے دو سال ہاسٹل میں ایک ساتھ گزار لینے کے بعد الگ ہونے لگے تو ہم بہترین چار دوست جو کہ مختلف شہروں سے تھے، چپ بیٹھے کچھ سوچ رہے تھے تو ہم میں سے ایک بولا۔ تو پھر کیا یہ دوستی یہاں تک ہی تھی؟ تو دوسرے نے کہا کہ شاید۔ میں کچھ بول نہیں سکا کیوںکہ میں اس وقت بھی اپنی یکطرفہ محبت اور محبوبہ کے خیالوں میں مست تھا۔ پس ثابت ہوا کہ میں ایک سچا عاشق تھا۔ یہاں "تھا" کا لفظ قصداً اور احتیاطاً استعمال کیا گیا ہے کیونکہ کہ شام کا وقت ہے اور امی کے مطابق شام کا وقت قبولیت کا وقت ہوتا ہے۔ تو ہم میں سے سب سے کھلنڈرا اور ہر پریشانی کو چٹکیوں میں مسل دینے والا بولا، منحوس شکلیں مت بناؤ، میں ہم چاروں کو بکھرنے نہیں دوں گا۔ وہ دن اور آج کا دن، 12 سال گزر گئے اور ہر پریشانی کو چٹکیوں میں مسل دینے والے نے ہمیں آج تک پریشان کر رکھا ہے۔
اس ساری تمہید کا ایک مقصد تو یہ تھا کہ مجھے وہ دوست یاد آ رہا ہے اور دوسرا مقصد یہ تھا کہ کسی بھی تعلق یا رشتے میں ایسے لوگ بہت ضروری ہوتے ہیں، جو جن کو روکنا یا باندھ کر رکھنا چاہیں تو اپنے مقصد میں کامیاب ہو کر رونق لگائے رکھتے ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ اس تحریر سے کوئی اور واپس آیا یا نہیں لیکن مجھے ایک لحظے کے لیے لگا کہ محفل سے دور چلا تو گیا تھا لیکن اتنا دور نہیں کہ واپس نہ آ سکتا۔ دوبارا ایسی حرکت ہوئی تو امید ہے پھر بلا لیا جاؤں گا۔
اتنی لمبی بونگی مارنے کے لیے معذرت۔ اب آپ اپنا اپنا کام کر سکتے ہیں، شکریہ