غیر مسلموں کے اخلاق کی کیا کوئی بنیاد ہے ۔۔۔۔؟!

عندلیب

محفلین
بہت سے منکرینِ خدا یا منکرینِ آخرت ایسے ہیں جن کا فلسفہء اخلاق اور دستورِ عمل سراسر مادّہ پرستی اور دہریت پر مبنی ہے۔
اس کے باوجود ایسے لوگ اچھی خاصی پاک سیرت رکھتے ہیں اور ان سے ظلم و فساد اور فسق و فجور کا ظہور بھی نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنے معاملات میں نیک اور خلقِ خدا کے خدمت گزار ہوتے ہیں۔
لیکن ، کیا ان اخلاقی خوبیوں اور عملی نیکیوں کی کوئی بنیاد یا کوئی محرک ہے؟
تمام مادہ پرستانہ لادینی فلسفوں اور نظامات کی فکر کی اگر جانچ پڑتال کر لی جائے تو ان کی کوئی بنیاد یا ان کا کوئی محرک قطعاً نہیں مل سکے گا۔

کسی منطق سے بھی یہ ثابت نہیں کیا جا سکتا کہ ان لادینی فلسفوں میں ۔۔۔۔
راست بازی ، امانت ، دیانت ، وفائے عہد ، عدل ، رحم ، فیاضی ، ایثار ، ہمدردی ، ضبطِ نفس ، عفت ، حق شناسی اور ادائے حقوق کے لئے محرکات موجود ہیں!

خدا اور آخرت کو نظرانداز کر دینے کے بعد اخلاق کے لئے اگر کوئی قابلِ عمل نظام بن سکتا ہے تو وہ صرف افادیت (utilitarianism) کی بنیاد پر ہی بن سکتا ہے۔

اور افادیت جس قسم کا اخلاق پیدا کرتی ہے ، اس کی حد کیا ہے؟
افادیت والے اخلاق کو چاہے کتنی ہی وسعت دے دی جائے ، وہ بہرحال ایک حد سے آگے نہیں جاتی۔
اور وہ حد یہ ہے کہ ۔۔۔۔۔
آدمی بس وہ کام کرے جس کا کوئی فائدہ اِس دنیا میں یا تو اُس کی ذات کو حاصل ہو یا اُس معاشرے کو جس سے وہ تعلق رکھتا ہے۔

اور یہ وہ چیز ہے ۔۔۔۔۔
جو فائدے کی امید میں انسان سے ہر قسم کی نیکی کروا سکتی ہے
اور ،
نقصان کے اندیشے پر انسان سے ہر برائی کا حسبِ موقع ارتکاب کرا سکتی ہے!

اس قسم کی اخلاقیت کا بہترین نمونہ موجودہ زمانے کی مغربی اقوام ہے ، جس کو اکثر اس امر کی مثال میں پیش کیا جاتا ہے کہ ۔۔۔۔۔۔
مادہ پرستانہ نظریہء حیات رکھنے اور آخرت کے تصور سے خالی ہونے کے باوجود اس قوم کے افراد بالعموم دوسروں سے زیادہ سچے ، کھرے ، دیانت دار ، عہد کے پابند ، انصاف پسند اور معاملات میں قابلِ اعتماد ہیں۔
لیکن اس کے پسِ پشت اصل حقیقت کیا ہے؟

حقیقت تو یہ ہے کہ "افادی اخلاقیات" کی ناپایداری کا سے زیادہ نمایاں عملی ثبوت ہمیں اسی قوم کے کردار میں ملتا ہے !
آخر یہ کس طرح ممکن ہے کہ ۔۔۔۔۔۔
مغربی قوم کا ایک ایک فرد تو اپنے شخصی کردار میں "افادی اخلاقیات" کا حامل ہوتا مگر ۔۔۔۔ ساری قوم مل کر جن لوگوں کو اپنا نمایندہ اور اپنے اجتماعی امور کا سربراہ کار بناتی ہے وہ بڑے پیمانے پر قوم کی سلطنت اور اس سلطنت کے بین الاقوامی معاملات کے چلانے میں علانیہ ۔۔۔۔۔۔
جھوٹ ، بدعہدی ، ظلم ، بےانصافی اور بددیانتی سے کام لیتے اور پوری قوم کا اعتماد ان کو ایک مخصوص مدت تک حاصل رہتا؟

یہ اس بات کا صریح ثبوت ہے کہ یہ لوگ دراصل مستقل اخلاقی قدروں کے بالکل قائل نہیں ہیں بلکہ ۔۔۔۔۔
دنیاوی فائدے اور نقصان کے لحاظ سے بیک وقت دو متضاد اخلاقی رویے اختیار کرتے ہیں ، کر سکتے ہیں اور کر رہے ہیںِ !!

بحوالہ :
تفہیم القرآن ، سورہ یونس۔
کچھ تصرف کے ساتھ بیان : مولانا قریشی ، صدر جماعت اسلامی ہند ، حیدرآباد ونگ ، انڈیا۔


نوٹ :
مولانا قریشی میرے نانا محترم کا اسمِ گرامی ہے۔
 

arifkarim

معطل
اس قسم کی اخلاقیت کا بہترین نمونہ موجودہ زمانے کی مغربی اقوام ہے ، جس کو اکثر اس امر کی مثال میں پیش کیا جاتا ہے کہ ۔۔۔۔۔۔
مادہ پرستانہ نظریہء حیات رکھنے اور آخرت کے تصور سے خالی ہونے کے باوجود اس قوم کے افراد بالعموم دوسروں سے زیادہ سچے ، کھرے ، دیانت دار ، عہد کے پابند ، انصاف پسند اور معاملات میں قابلِ اعتماد ہیں۔
[/SIZE]

یہ تاثر کہاں سے آیا؟:surprise: :eek:
 

محمد وارث

لائبریرین
یہ بات انتہائی غلط ہے کہ 'اخلاق' کی بنیاد فقط فائدہ ہے!

اخلاقیات اور دینیات کا آپس میں ساتھ ضرور ہے اور مذاہب میں اخلاقیات کا درس پایا جاتا ہے لیکن اخلاقیات بذاتِ خود اور بنفسہ ایک علیحدہ موضوع جس کا انسان کے ساتھ تعلق ہے چاہے وہ کسی مذہب کو مانتا ہے یا نہیں مانتا!

سامنے کی بات لوگوں کو نظر نہیں آتی کہ اگر اخلاق یا اخلاقیات کا تعلق صرف اور صرف "فائدے" سے ہوتا تو جو غیر مسلم افراد اور ادارے رفاہی کام "فی سبیل اللہ" کرتے ہیں وہ کس کھاتے میں ہیں! تعصب کی کوئی حد نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

محمد وارث

لائبریرین
کسی منطق سے بھی یہ ثابت نہیں کیا جا سکتا کہ ان لادینی فلسفوں میں ۔۔۔۔
راست بازی ، امانت ، دیانت ، وفائے عہد ، عدل ، رحم ، فیاضی ، ایثار ، ہمدردی ، ضبطِ نفس ، عفت ، حق شناسی اور ادائے حقوق کے لئے محرکات موجود ہیں!

اور وہ حد یہ ہے کہ ۔۔۔۔۔
آدمی بس وہ کام کرے جس کا کوئی فائدہ اِس دنیا میں یا تو اُس کی ذات کو حاصل ہو یا اُس معاشرے کو جس سے وہ تعلق رکھتا ہے۔

ان سب خوبیوں یا "نیکیوں" کا کیا صرف مذہب ذمہ دار؟ کیا یہ سب انسان کی بھلائی اور بہتری کیلیے نہیں ہیں!

کیا مذہب کسی خلا میں قائم ہوتا ہے جو انسان اور اس کے معاشرے کا فائدہ ان اخلاقی خوبیوں سے نہیں چاہتا کہ کسی مذہب کو نہ ماننے والا انسان اگر ان خوبیوں کا پرچار کرتا ہے یا درس دیتا ہے یا عمل کرتا ہے (اور آخر الذکر فعل وہ یقیناً مذہب کو ماننے والوں سے بہتر کرتا ہے) تو اس پر بھی کفر کا رنگ چڑھا کر اس کے منہ پر سیاہی مل دی جائے؟
 
ایک حدیث ہے کہ
کل مولود یولد علی اللفطرت الاسلام۔
اس کا مطلب کہ ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے۔
یعنی ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے صرف معاشرہ یا والدین ان کو خراب کردیتا ہے، آپ دیکھیں گے کہ دنیاکے سارے بچے ایک جیسے ہوتے ہیں نہ بغض و عناد نہ نفر بس معصوم بس جیسے جیسے عمر بڑہتی ہے تو خیالات و تفکرات میں تبدیلی آجاتی ہے۔ میرے خیال میں یہ خلق ، سچائی اور دیگر نیکیاں انسانی فطرت میں شامل ہیں۔
ایک اور حوالہ جب حاتم طائی کی بیٹی قید ہوکر مسلمانوں کے پاس آئی تو رونے لگی حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے پوچھا کہ کیوں رورہی ہو اس نے کہا کہ میں حاتم کی بیٹی ہوں جو بڑا سخی تھا میرا بھائی تو بھاگ گیا مگر مجھے گرفتار کیا گیا لہٰذا مجھے آزاد کیا جائے تو حضرت امیر المومنین نے فرمایا کہ میں آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بارگاہ میں پیش کروں گا وہاں پر ان سے درخواست کرنا۔ جب اس خاتون کو پیش کیا گیا تو وہ ہی بات کی تو آنحضرت نے کہا کہ چونکہ اس کا باپ سخی تھا سو اس کو آزاد کیا جائے اس کے بعد اس کو کسی قافلے کے حوالے کیا گیا۔
یا اسی طرح ایک اور کافر کو بھی صرف حسن اخلاق کی وجہ سے چھوڑا گیا۔
ابھی حال ہی کی بات کی کسی نومسلم سے کسی عالم نے پوچھا تو آپ کنورٹیڈ مسلمان ہیں تو اس کو غصہ آگیا اور کہا میں کنورٹیڈ نہیں بلکہ اپنی فطرت کی طرف واپس آیا ہوں۔
ہمیں کئی مثالیں ملتی ہیں۔ ابھی ایک مشینری ریڈیو ہے انڈیا میں وہاں پر کبھی ایک بزرگ خاتون آتی ہیں اور جس طرح باتیں کرتی ہیں کانوں میں مٹھاس معلوم ہوتی ہے۔
میرا نقطہ یہ کہ یہ باتیں انسان کی فطرت میں شامل ہیں۔
 

طالوت

محفلین
اخلاقیات ایک "universal truth" ہے ، اور دنیا کے ہر مذہب میں اس کی تعلیم ہے ۔۔ اور انسانی جبلت یا فطرت میں بھی شامل ہے ۔۔ اخلاقیات ہی سلامتی کے ضامنوں میں سے ایک ضامن ہے ، اسی لیے دنیا میں پیدا ہونے والے ہر بچے کے بارے میں کہا گیا کہ وہ دین فطرت (سلامتی/اسلام) کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔
وسلام
 

زیک

مسافر
قریشی صاحب نے یہ اقتباس جو آپ نے پوسٹ کیا ہے کب لکھا؟ ان کی مغربی معاشرے اور مغربی فلسفے سے کتنی واقفیت تھی؟
 

آبی ٹوکول

محفلین
میرے خیال میں مولانا مودودی نے سورہ یونس کہ " موضوع " کی مناسبت سے " عقیدہ آخرت کہ منکرین کہ اخلاقی فلسفے " کو ہدف تنقید بنایا ہے لہزا اگر مباحث کو اُسی مخصوص تناظر میں دیکھا جائے تو بہتر رہے گا ۔ ۔ ۔والسلام
 

عندلیب

محفلین
آبی ٹو کول بھائی کا خیال بالکل درست ہے۔ پورا مضمون "تفہیم القرآن" میں سورہ یونس کی آیات 7/8 کی تشریح کے طور پر موجود ہے۔
"کچھ تصرف کے ساتھ بیان" سے مراد مضمون کا عام فہم الفاظ میں بیان ہے۔ ورنہ مضمون کا مرکزی خیال یا فلسفہ/نظریہ مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ ہی کا ہے۔ موضوع کا عنوان کچھ ایسے ہی بنے گا جیسا کہ آبی ٹو کول بھائی نے بھی کہا ہے یعنی:
منکرینِ خدا یا منکرینِ آخرت کا فلسفہء اخلاق

اور ہاں۔ مجھے صرف اپنا مطالعہ شئر کرنا آتا ہے۔ بحثوں میں حصہ لینا مجھے پسند نہیں۔ :)
مولانا مودودی کے نظریے سے اگر کسی کو اختلاف ہے تو وہ بھی اسے پیش کرنے کے لئے آزاد ہیں۔ اس طرح‌ سے تو ہم سب کے علم میں ہی اضافہ ہوگا۔
 

arifkarim

معطل
مولانا مودودی کے نظریے سے اگر کسی کو اختلاف ہے تو وہ بھی اسے پیش کرنے کے لئے آزاد ہیں۔ اس طرح‌ سے تو ہم سب کے علم میں ہی اضافہ ہوگا۔

آجکل ہر کوئی ایک دوسرے سے اختلاف رکھتا ہے۔ ماسوائے طاقت کے زور پر اسے دبایا جائے!
 

علی ذاکر

محفلین
سیدھی سی بات ہے اخلاقیات کوئ ورثہ تو ہے نہیں‌ جو وراثت میں مل جائے اس کے لیئے انسان کو خود جدوجہد کرنی پڑتی ہے
 
Top