بہت سے منکرینِ خدا یا منکرینِ آخرت ایسے ہیں جن کا فلسفہء اخلاق اور دستورِ عمل سراسر مادّہ پرستی اور دہریت پر مبنی ہے۔
اس کے باوجود ایسے لوگ اچھی خاصی پاک سیرت رکھتے ہیں اور ان سے ظلم و فساد اور فسق و فجور کا ظہور بھی نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنے معاملات میں نیک اور خلقِ خدا کے خدمت گزار ہوتے ہیں۔
لیکن ، کیا ان اخلاقی خوبیوں اور عملی نیکیوں کی کوئی بنیاد یا کوئی محرک ہے؟
تمام مادہ پرستانہ لادینی فلسفوں اور نظامات کی فکر کی اگر جانچ پڑتال کر لی جائے تو ان کی کوئی بنیاد یا ان کا کوئی محرک قطعاً نہیں مل سکے گا۔
کسی منطق سے بھی یہ ثابت نہیں کیا جا سکتا کہ ان لادینی فلسفوں میں ۔۔۔۔
راست بازی ، امانت ، دیانت ، وفائے عہد ، عدل ، رحم ، فیاضی ، ایثار ، ہمدردی ، ضبطِ نفس ، عفت ، حق شناسی اور ادائے حقوق کے لئے محرکات موجود ہیں!
خدا اور آخرت کو نظرانداز کر دینے کے بعد اخلاق کے لئے اگر کوئی قابلِ عمل نظام بن سکتا ہے تو وہ صرف افادیت (utilitarianism) کی بنیاد پر ہی بن سکتا ہے۔
اور افادیت جس قسم کا اخلاق پیدا کرتی ہے ، اس کی حد کیا ہے؟
افادیت والے اخلاق کو چاہے کتنی ہی وسعت دے دی جائے ، وہ بہرحال ایک حد سے آگے نہیں جاتی۔
اور وہ حد یہ ہے کہ ۔۔۔۔۔
آدمی بس وہ کام کرے جس کا کوئی فائدہ اِس دنیا میں یا تو اُس کی ذات کو حاصل ہو یا اُس معاشرے کو جس سے وہ تعلق رکھتا ہے۔
اور یہ وہ چیز ہے ۔۔۔۔۔
جو فائدے کی امید میں انسان سے ہر قسم کی نیکی کروا سکتی ہے
اور ،
نقصان کے اندیشے پر انسان سے ہر برائی کا حسبِ موقع ارتکاب کرا سکتی ہے!
اس قسم کی اخلاقیت کا بہترین نمونہ موجودہ زمانے کی مغربی اقوام ہے ، جس کو اکثر اس امر کی مثال میں پیش کیا جاتا ہے کہ ۔۔۔۔۔۔
مادہ پرستانہ نظریہء حیات رکھنے اور آخرت کے تصور سے خالی ہونے کے باوجود اس قوم کے افراد بالعموم دوسروں سے زیادہ سچے ، کھرے ، دیانت دار ، عہد کے پابند ، انصاف پسند اور معاملات میں قابلِ اعتماد ہیں۔
لیکن اس کے پسِ پشت اصل حقیقت کیا ہے؟
حقیقت تو یہ ہے کہ "افادی اخلاقیات" کی ناپایداری کا سے زیادہ نمایاں عملی ثبوت ہمیں اسی قوم کے کردار میں ملتا ہے !
آخر یہ کس طرح ممکن ہے کہ ۔۔۔۔۔۔
مغربی قوم کا ایک ایک فرد تو اپنے شخصی کردار میں "افادی اخلاقیات" کا حامل ہوتا مگر ۔۔۔۔ ساری قوم مل کر جن لوگوں کو اپنا نمایندہ اور اپنے اجتماعی امور کا سربراہ کار بناتی ہے وہ بڑے پیمانے پر قوم کی سلطنت اور اس سلطنت کے بین الاقوامی معاملات کے چلانے میں علانیہ ۔۔۔۔۔۔
جھوٹ ، بدعہدی ، ظلم ، بےانصافی اور بددیانتی سے کام لیتے اور پوری قوم کا اعتماد ان کو ایک مخصوص مدت تک حاصل رہتا؟
یہ اس بات کا صریح ثبوت ہے کہ یہ لوگ دراصل مستقل اخلاقی قدروں کے بالکل قائل نہیں ہیں بلکہ ۔۔۔۔۔
دنیاوی فائدے اور نقصان کے لحاظ سے بیک وقت دو متضاد اخلاقی رویے اختیار کرتے ہیں ، کر سکتے ہیں اور کر رہے ہیںِ !!
بحوالہ :
تفہیم القرآن ، سورہ یونس۔
کچھ تصرف کے ساتھ بیان : مولانا قریشی ، صدر جماعت اسلامی ہند ، حیدرآباد ونگ ، انڈیا۔
نوٹ :
مولانا قریشی میرے نانا محترم کا اسمِ گرامی ہے۔
اس کے باوجود ایسے لوگ اچھی خاصی پاک سیرت رکھتے ہیں اور ان سے ظلم و فساد اور فسق و فجور کا ظہور بھی نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنے معاملات میں نیک اور خلقِ خدا کے خدمت گزار ہوتے ہیں۔
لیکن ، کیا ان اخلاقی خوبیوں اور عملی نیکیوں کی کوئی بنیاد یا کوئی محرک ہے؟
تمام مادہ پرستانہ لادینی فلسفوں اور نظامات کی فکر کی اگر جانچ پڑتال کر لی جائے تو ان کی کوئی بنیاد یا ان کا کوئی محرک قطعاً نہیں مل سکے گا۔
کسی منطق سے بھی یہ ثابت نہیں کیا جا سکتا کہ ان لادینی فلسفوں میں ۔۔۔۔
راست بازی ، امانت ، دیانت ، وفائے عہد ، عدل ، رحم ، فیاضی ، ایثار ، ہمدردی ، ضبطِ نفس ، عفت ، حق شناسی اور ادائے حقوق کے لئے محرکات موجود ہیں!
خدا اور آخرت کو نظرانداز کر دینے کے بعد اخلاق کے لئے اگر کوئی قابلِ عمل نظام بن سکتا ہے تو وہ صرف افادیت (utilitarianism) کی بنیاد پر ہی بن سکتا ہے۔
اور افادیت جس قسم کا اخلاق پیدا کرتی ہے ، اس کی حد کیا ہے؟
افادیت والے اخلاق کو چاہے کتنی ہی وسعت دے دی جائے ، وہ بہرحال ایک حد سے آگے نہیں جاتی۔
اور وہ حد یہ ہے کہ ۔۔۔۔۔
آدمی بس وہ کام کرے جس کا کوئی فائدہ اِس دنیا میں یا تو اُس کی ذات کو حاصل ہو یا اُس معاشرے کو جس سے وہ تعلق رکھتا ہے۔
اور یہ وہ چیز ہے ۔۔۔۔۔
جو فائدے کی امید میں انسان سے ہر قسم کی نیکی کروا سکتی ہے
اور ،
نقصان کے اندیشے پر انسان سے ہر برائی کا حسبِ موقع ارتکاب کرا سکتی ہے!
اس قسم کی اخلاقیت کا بہترین نمونہ موجودہ زمانے کی مغربی اقوام ہے ، جس کو اکثر اس امر کی مثال میں پیش کیا جاتا ہے کہ ۔۔۔۔۔۔
مادہ پرستانہ نظریہء حیات رکھنے اور آخرت کے تصور سے خالی ہونے کے باوجود اس قوم کے افراد بالعموم دوسروں سے زیادہ سچے ، کھرے ، دیانت دار ، عہد کے پابند ، انصاف پسند اور معاملات میں قابلِ اعتماد ہیں۔
لیکن اس کے پسِ پشت اصل حقیقت کیا ہے؟
حقیقت تو یہ ہے کہ "افادی اخلاقیات" کی ناپایداری کا سے زیادہ نمایاں عملی ثبوت ہمیں اسی قوم کے کردار میں ملتا ہے !
آخر یہ کس طرح ممکن ہے کہ ۔۔۔۔۔۔
مغربی قوم کا ایک ایک فرد تو اپنے شخصی کردار میں "افادی اخلاقیات" کا حامل ہوتا مگر ۔۔۔۔ ساری قوم مل کر جن لوگوں کو اپنا نمایندہ اور اپنے اجتماعی امور کا سربراہ کار بناتی ہے وہ بڑے پیمانے پر قوم کی سلطنت اور اس سلطنت کے بین الاقوامی معاملات کے چلانے میں علانیہ ۔۔۔۔۔۔
جھوٹ ، بدعہدی ، ظلم ، بےانصافی اور بددیانتی سے کام لیتے اور پوری قوم کا اعتماد ان کو ایک مخصوص مدت تک حاصل رہتا؟
یہ اس بات کا صریح ثبوت ہے کہ یہ لوگ دراصل مستقل اخلاقی قدروں کے بالکل قائل نہیں ہیں بلکہ ۔۔۔۔۔
دنیاوی فائدے اور نقصان کے لحاظ سے بیک وقت دو متضاد اخلاقی رویے اختیار کرتے ہیں ، کر سکتے ہیں اور کر رہے ہیںِ !!
بحوالہ :
تفہیم القرآن ، سورہ یونس۔
کچھ تصرف کے ساتھ بیان : مولانا قریشی ، صدر جماعت اسلامی ہند ، حیدرآباد ونگ ، انڈیا۔
نوٹ :
مولانا قریشی میرے نانا محترم کا اسمِ گرامی ہے۔