فاتح
لائبریرین
گلگت بلتستان کے ضلع دیامر میں قتل کی رپورٹ جنات کے خلاف درج کر لی گئی۔ جنات پر پانچ سالہ بچے کے اغواء اور اسے قتل کرنے کے الزامات لگائے جا رہے ہیں۔
پاکستان کے شمالی علاقے گلگت بلتستان کے ضلع دیامر میں پولیس نے پانچ سالہ احمد کے اغواء اور اسے قتل کے الزام میں پولیس نے روزنامچے میں جنات کے خلاف رپورٹ درج کر لی ہے۔ بچے کے والد محمد جان نے پولیس کو بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ بیس ستمبر کو چلاس کے گاؤں سومال میں اس کا بیٹا احمد اپنی ماں کے ساتھ چشمے سے پانی لینے گیا ہوا تھا کہ جنات نے اُسے اغواء کیا۔ اغواء کے دو ہفتے بعد بچے کی لاش جنگل سے برآمد ہوئی۔ بچے کے ہاتھ کٹے ہوئے تھے اور جسم پر تشدد کے نشانات تھے۔
مقامی شخص شفیع اللہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس علاقے میں جنات کا بسیرا ہے اور اسی وجہ سے اس علاقے کو پریوں کا مسکن بھی کہا جاتا ہے۔ ’’بچے کے والدین نے عاملوں سے رابطہ کیا۔ تاہم عاملوں کا کہنا تھا کہ بچہ جنات کے قبضے میں ہے۔ عاملوں نے مسلسل ایک ہفتے تک بچے کو بازیاب کرانے کی کوشش بھی کی مگر کامیاب نہیں ہوئے‘‘۔
گلگت بلتستان کے صوبائی وزیر خوراک جانباز خان نے مقامی صحافیوں کو بتایا ہے کہ بچے کو جنات نے ہی قتل کیا ہے ’’میرے سامنے جنات کئی بچوں کو اٹھا کر لے جا چکے ہیں اور بعد میں ان کو چھوڑ بھی دیا گیا۔ یہ جنات غیر مسلم تھے اور اسی لیے ان پر عملیات کا کوئی اثر نہیں ہوا اور انہوں نے اس بچے کو قتل کردیا۔‘‘
پولیس کا کہنا ہے کہ دفعہ 174 کے تحت کارروائی کرتے ہوئے قتل کی اصل وجہ معلوم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ تفتیشی افسر اے ایس آئی مجیب الرحمان کا کہنا ہے کہ بچے کے والدین قتل کا الزام جنات پر لگا رہے ہیں تاہم وہ جنات کے خلاف ایف آئی آر درج نہیں کر سکتے۔ علاقے کے مقامی صحافیوں نے بتایا کہ پولیس نے روزنامچے میں جنات کے خلاف رپورٹ درج کی ہے تاہم پولیس اس حوالے سے بات کرنے سے گریزاں ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق پولیس نے روزنامچے میں جنات کے خلاف رپورٹ تو درج کر لی ہے لیکن اب دیکھنا ہے کہ جنات کی گرفتاری کا عمل کیسے ہو گا۔ صحافی و ادیب عارف احمد نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قتل میں ملوث جنات سے تفتیش کا طریقہ کار کس طرح ممکن ہو گا اور جس جن نے بچے کو قتل کیا ہے اس کی شناخت کیسے کی جائے گی ’’اگر پولیس اس سارے عمل میں کامیاب بھی ہو جائے تو کیا عدالت میں جنات کو پھانسی ملے گی یا ان کو عمر قید کی سزا سنائی جائے گی، کیا جنات کو عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل کا حق ہو گا یا نہیں اور سب سے حیران کن اور عجیب بات یہ ہے کہ جنات کی وکالت کون کرے گا۔‘‘
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ماضی میں بھی علاقے میں اس قسم کے واقعات پیش آتے رہے ہیں اور جنات نے کئی بچوں اور بچیوں کو نقصان پہنچایا ہیں۔ ڈی آئی جی دیامر اور پولیس خصوصی ٹیم کی قیادت میں بچے کی قبر کشائی بھی کی گئی اور لاش کا پوسٹ مارٹم کرایا گیا۔ پولیس کے مطابق میڈیکل رپورٹ آنے میں چار سے پانچ دن لگ سکتے ہیں۔
پاکستان کے شمالی علاقے گلگت بلتستان کے ضلع دیامر میں پولیس نے پانچ سالہ احمد کے اغواء اور اسے قتل کے الزام میں پولیس نے روزنامچے میں جنات کے خلاف رپورٹ درج کر لی ہے۔ بچے کے والد محمد جان نے پولیس کو بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ بیس ستمبر کو چلاس کے گاؤں سومال میں اس کا بیٹا احمد اپنی ماں کے ساتھ چشمے سے پانی لینے گیا ہوا تھا کہ جنات نے اُسے اغواء کیا۔ اغواء کے دو ہفتے بعد بچے کی لاش جنگل سے برآمد ہوئی۔ بچے کے ہاتھ کٹے ہوئے تھے اور جسم پر تشدد کے نشانات تھے۔
مقامی شخص شفیع اللہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس علاقے میں جنات کا بسیرا ہے اور اسی وجہ سے اس علاقے کو پریوں کا مسکن بھی کہا جاتا ہے۔ ’’بچے کے والدین نے عاملوں سے رابطہ کیا۔ تاہم عاملوں کا کہنا تھا کہ بچہ جنات کے قبضے میں ہے۔ عاملوں نے مسلسل ایک ہفتے تک بچے کو بازیاب کرانے کی کوشش بھی کی مگر کامیاب نہیں ہوئے‘‘۔
گلگت بلتستان کے صوبائی وزیر خوراک جانباز خان نے مقامی صحافیوں کو بتایا ہے کہ بچے کو جنات نے ہی قتل کیا ہے ’’میرے سامنے جنات کئی بچوں کو اٹھا کر لے جا چکے ہیں اور بعد میں ان کو چھوڑ بھی دیا گیا۔ یہ جنات غیر مسلم تھے اور اسی لیے ان پر عملیات کا کوئی اثر نہیں ہوا اور انہوں نے اس بچے کو قتل کردیا۔‘‘
پولیس کا کہنا ہے کہ دفعہ 174 کے تحت کارروائی کرتے ہوئے قتل کی اصل وجہ معلوم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ تفتیشی افسر اے ایس آئی مجیب الرحمان کا کہنا ہے کہ بچے کے والدین قتل کا الزام جنات پر لگا رہے ہیں تاہم وہ جنات کے خلاف ایف آئی آر درج نہیں کر سکتے۔ علاقے کے مقامی صحافیوں نے بتایا کہ پولیس نے روزنامچے میں جنات کے خلاف رپورٹ درج کی ہے تاہم پولیس اس حوالے سے بات کرنے سے گریزاں ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق پولیس نے روزنامچے میں جنات کے خلاف رپورٹ تو درج کر لی ہے لیکن اب دیکھنا ہے کہ جنات کی گرفتاری کا عمل کیسے ہو گا۔ صحافی و ادیب عارف احمد نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قتل میں ملوث جنات سے تفتیش کا طریقہ کار کس طرح ممکن ہو گا اور جس جن نے بچے کو قتل کیا ہے اس کی شناخت کیسے کی جائے گی ’’اگر پولیس اس سارے عمل میں کامیاب بھی ہو جائے تو کیا عدالت میں جنات کو پھانسی ملے گی یا ان کو عمر قید کی سزا سنائی جائے گی، کیا جنات کو عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل کا حق ہو گا یا نہیں اور سب سے حیران کن اور عجیب بات یہ ہے کہ جنات کی وکالت کون کرے گا۔‘‘
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ماضی میں بھی علاقے میں اس قسم کے واقعات پیش آتے رہے ہیں اور جنات نے کئی بچوں اور بچیوں کو نقصان پہنچایا ہیں۔ ڈی آئی جی دیامر اور پولیس خصوصی ٹیم کی قیادت میں بچے کی قبر کشائی بھی کی گئی اور لاش کا پوسٹ مارٹم کرایا گیا۔ پولیس کے مطابق میڈیکل رپورٹ آنے میں چار سے پانچ دن لگ سکتے ہیں۔