غیر مسلم جنات کے خلاف پانچ سالہ بچے کے اغوا اور قتل کا مقدمہ درج

فاتح

لائبریرین
گلگت بلتستان کے ضلع دیامر میں قتل کی رپورٹ جنات کے خلاف درج کر لی گئی۔ جنات پر پانچ سالہ بچے کے اغواء اور اسے قتل کرنے کے الزامات لگائے جا رہے ہیں۔
0,,18764893_303,00.jpg

پاکستان کے شمالی علاقے گلگت بلتستان کے ضلع دیامر میں پولیس نے پانچ سالہ احمد کے اغواء اور اسے قتل کے الزام میں پولیس نے روزنامچے میں جنات کے خلاف رپورٹ درج کر لی ہے۔ بچے کے والد محمد جان نے پولیس کو بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ بیس ستمبر کو چلاس کے گاؤں سومال میں اس کا بیٹا احمد اپنی ماں کے ساتھ چشمے سے پانی لینے گیا ہوا تھا کہ جنات نے اُسے اغواء کیا۔ اغواء کے دو ہفتے بعد بچے کی لاش جنگل سے برآمد ہوئی۔ بچے کے ہاتھ کٹے ہوئے تھے اور جسم پر تشدد کے نشانات تھے۔

مقامی شخص شفیع اللہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس علاقے میں جنات کا بسیرا ہے اور اسی وجہ سے اس علاقے کو پریوں کا مسکن بھی کہا جاتا ہے۔ ’’بچے کے والدین نے عاملوں سے رابطہ کیا۔ تاہم عاملوں کا کہنا تھا کہ بچہ جنات کے قبضے میں ہے۔ عاملوں نے مسلسل ایک ہفتے تک بچے کو بازیاب کرانے کی کوشش بھی کی مگر کامیاب نہیں ہوئے‘‘۔

گلگت بلتستان کے صوبائی وزیر خوراک جانباز خان نے مقامی صحافیوں کو بتایا ہے کہ بچے کو جنات نے ہی قتل کیا ہے ’’میرے سامنے جنات کئی بچوں کو اٹھا کر لے جا چکے ہیں اور بعد میں ان کو چھوڑ بھی دیا گیا۔ یہ جنات غیر مسلم تھے اور اسی لیے ان پر عملیات کا کوئی اثر نہیں ہوا اور انہوں نے اس بچے کو قتل کردیا۔‘‘

پولیس کا کہنا ہے کہ دفعہ 174 کے تحت کارروائی کرتے ہوئے قتل کی اصل وجہ معلوم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ تفتیشی افسر اے ایس آئی مجیب الرحمان کا کہنا ہے کہ بچے کے والدین قتل کا الزام جنات پر لگا رہے ہیں تاہم وہ جنات کے خلاف ایف آئی آر درج نہیں کر سکتے۔ علاقے کے مقامی صحافیوں نے بتایا کہ پولیس نے روزنامچے میں جنات کے خلاف رپورٹ درج کی ہے تاہم پولیس اس حوالے سے بات کرنے سے گریزاں ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق پولیس نے روزنامچے میں جنات کے خلاف رپورٹ تو درج کر لی ہے لیکن اب دیکھنا ہے کہ جنات کی گرفتاری کا عمل کیسے ہو گا۔ صحافی و ادیب عارف احمد نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قتل میں ملوث جنات سے تفتیش کا طریقہ کار کس طرح ممکن ہو گا اور جس جن نے بچے کو قتل کیا ہے اس کی شناخت کیسے کی جائے گی ’’اگر پولیس اس سارے عمل میں کامیاب بھی ہو جائے تو کیا عدالت میں جنات کو پھانسی ملے گی یا ان کو عمر قید کی سزا سنائی جائے گی، کیا جنات کو عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل کا حق ہو گا یا نہیں اور سب سے حیران کن اور عجیب بات یہ ہے کہ جنات کی وکالت کون کرے گا۔‘‘

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ماضی میں بھی علاقے میں اس قسم کے واقعات پیش آتے رہے ہیں اور جنات نے کئی بچوں اور بچیوں کو نقصان پہنچایا ہیں۔ ڈی آئی جی دیامر اور پولیس خصوصی ٹیم کی قیادت میں بچے کی قبر کشائی بھی کی گئی اور لاش کا پوسٹ مارٹم کرایا گیا۔ پولیس کے مطابق میڈیکل رپورٹ آنے میں چار سے پانچ دن لگ سکتے ہیں۔
 

عباس اعوان

محفلین
لوگوں کا کہنا تو ایک طرف، پولیس کے روزنامچے میں تو غالباً افواہ کا ذکر ہے۔ لکھائی پڑھنے میں مشکل پیش آ رہی ہے، کیا کوئی دوست پولیس کے روزنامچے (جس کی تصویر صاحبِ دھاگہ نے لگائی ہے) کے متن کو یہاں لکھ سکتا ہے ؟
آداب
 

فاتح

لائبریرین
لوگوں کا کہنا تو ایک طرف، پولیس کے روزنامچے میں تو غالباً افواہ کا ذکر ہے۔ لکھائی پڑھنے میں مشکل پیش آ رہی ہے، کیا کوئی دوست پولیس کے روزنامچے (جس کی تصویر صاحبِ دھاگہ نے لگائی ہے) کے متن کو یہاں لکھ سکتا ہے ؟
آداب
018764893_30300V.jpg~original
 
اسلام آباد اور بڑے شہروں سے دور علاقوں میں کیا کیا مظالم رونما ہوتے ہیں اور پھر انہیں کس طرح ہموار کیا جاتا ہے ، یہ واقعہ ان کی ایک مثال ہے ۔
 

فاتح

لائبریرین
بہت شکریہ اور معذرت، نستعلیق پڑھ پڑھ کر اب یہ لکھائی پڑھی نہیں جا رہی
آداب
بوقت 1300 بجے اصل وقت بازار حیدس میں یہ افواہ گردش کر رہی ہے کہ موضع اسمال ۔۔۔۔۔۔۔ میں مسمی محمد جان ولد محمد دیار ساکن چیکاں بئے کوٹ کے کم سن بچے بعمر ساڑھے پانچ سال مسمی محمد احمد کی ناگہانی موت واقع ہو چکی ہے جس کی اب تک کی معلومات کے مطابق متوفی بچہ پر قبل سے جنات کے اثرات تھے لہٰذا وجہ موت معلوم کرنے کے لیے کاروائی زیر دفعہ 174 ۔۔۔۔۔ کا آغاز کیا جا رہا ہے۔ جائے وقوع تقریباً 30 کلومیٹر جانب جنوب از تھانہ واقع ہے۔ اب وقت (بیگاہ) ہو چکا ہے۔ صبح اولین فرصت میں جائے وقوع روانہ ہو جاؤں گا۔ اس وقت تک متوفی بچہ کے ورثا کی جانب سے کوئی رپورٹ تھانہ ہٰذا میں وصول نہیں ہوئی ہے۔ بعد تحقیقات جو بھی صورت ہو گی مزید کاروائی عمل میں لائی جائے گی۔ رپٹ درج روزنامچہ رہے۔
جناب عالی! نقل روزنامچہ بمطابق اصل درست ہے۔
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
درست! شکریہ
تبدیلی کر دی ہے :)
فاتح بھائی ۔میرے مجھ سے بڑے بھائی پولیس میں بطور آے ایس آئی بھرتی ہوئے اور تقریباً آٹھ دس برس اس کے فرائض منصبی کا گراں باراٹھا سکے۔
اس زمانے میں یہ نوکریاں خطیر رقم میں فروخت ہوئی تھیں اور شاید اب بھی ہوتی ہوں!۔ مگر برادر صاحب اہلیت پر ہوئے تھے۔
یہ عظیم فیضان غالباً اسی اخوت کا ثمرہ کاہے۔ورنہ میں کہاں اور یہ وبال کہاں۔(بر سبیل تذکرہ:) )
 

فاتح

لائبریرین
فاتح بھائی ۔میرے مجھ سے بڑے بھائی پولیس میں بطور آے ایس آئی بھرتی ہوئے اور تقریباً آٹھ دس برس اس کے فرائض منصبی کا گراں باراٹھا سکے۔
اس زمانے میں یہ نوکریاں خطیر رقم میں فروخت ہوئی تھیں اور شاید اب بھی ہوتی ہوں!۔ مگر برادر صاحب اہلیت پر ہوئے تھے۔
یہ عظیم فیضان غالباً اسی اخوت کا ثمرہ کاہے۔ورنہ میں کہاں اور یہ وبال کہاں۔(بر سبیل تذکرہ:) )
میں خود بھی ایک لا انفورسمنٹ ادارے میں ڈائریکٹر لیول پر کام کر چکا ہوں لیکن یہ روزنامچے اور ضمنیاں لکھنا پڑھنا میرے فرائض منصبی میں شامل نہیں تھا :)
 

باباجی

محفلین
جہاں تک میری ناقص عقل کام کرتی ہے
یہ بھی زیادتی کے بعد پہچان لیئے جانے کے ڈر سے قتل کیئے جانے کا واقع ہوسکتا ہے
اور جنات کا ذکر بطور کور اسٹوری کیا جا رہا ہے
 

x boy

محفلین
صراصر جنات کو بدنام کیا جارہا ہے یہ سازش ہے !
بچپن اور لڑکپن میں جنات کی کہانی سن کر میں بہت سوچا کہ جنات سے ملوں
آگ کا دائرہ بناکر چلہ کاٹو لیکن اسکول اور کالج کی مصروفیات اور روٹی روزگار نے
وقت نہیں دیا،کئیں بار تو رات کو چار بجے سنسان علاقوں میں چھٹیوں کے دنوں میں نکلنے
کا اتفاق ہوا ، محترم جنات کے بجائے محترمات کتوں سے ملاقاتیں ہوئیں، مجھے کتوں سے ڈرلگتا ہے
اسلئے پھر جانے کا اتفاق نہیں ہوا،

ایک دفعہ محلے کے ایک مسجد سے اعلان ہورہا تھا کہ " خضرات ایک ضروری اعلان سماعت فرمائے
ایک بچہ جس کی عمر قریب 4 سے پانچ سال ہے اپنا نام ف بتاتا ہے یہاں مسجد الف میں ہے جن کا بچہ ہے
وہ اسے لے جائے"

تمناؤں کے ساتھ بہت سے لوگ پہنچ کہ " جن کے بچے " کو دیکھیں گے، وہاں صورت حال اس کے برعکس تھی۔

images
 

عباس اعوان

محفلین
جہاں تک میری ناقص عقل کام کرتی ہے
یہ بھی زیادتی کے بعد پہچان لیئے جانے کے ڈر سے قتل کیئے جانے کا واقع ہوسکتا ہے
اور جنات کا ذکر بطور کور اسٹوری کیا جا رہا ہے
میرے خیال میں اس بات کا پتا پوسٹ مارٹم سے چلایا جا سکتا ہے۔
 
Top