سروش
محفلین
فرقان بھائی رسم الخط تو موجود ہے ” گورمكھي “ ۔جو ديوناگري ميں لكھي جاتي هے ۔کیا اس بات کی ضرورت نہیں ہے کہ پنجابی رسم الخط کو بھی رواج دیا جائے؟
فرقان بھائی رسم الخط تو موجود ہے ” گورمكھي “ ۔جو ديوناگري ميں لكھي جاتي هے ۔کیا اس بات کی ضرورت نہیں ہے کہ پنجابی رسم الخط کو بھی رواج دیا جائے؟
بلکہ اس کو ہی اپنانا چاہیےفرقان بھائی رسم الخط تو موجود ہے ” گورمكھي “ ۔جو ديوناگري ميں لكھي جاتي هے ۔
اور اس میں پنجابی کافی پنپ رہی ہےفرقان بھائی رسم الخط تو موجود ہے ” گورمكھي “ ۔جو ديوناگري ميں لكھي جاتي هے ۔
بلکلاور اس میں پنجابی کافی پنپ رہی ہے
جیسا کہ بعض احباب نے تذکرہ کر دیا ہے کہ گورمکھی میں پنجابی پنپ رہی ہے تاہم پاکستان میں رہنے بسنے والوں کے لیے شاہ مکھی رسم الخط ہی موزوں ہے۔ اگر یہاں بھی گورمکھی رسم الخط کی داغ بیل ڈال دی گئی تو پھر یہ تجربہ گلے بھی پڑ سکتا ہے۔فرقان بھائی رسم الخط تو موجود ہے ” گورمكھي “ ۔جو ديوناگري ميں لكھي جاتي هے ۔
زبانیں وہی اہم ہوتی ہیں جنہیں بولنے والی قومیں اہم ہوں. اور زبانیں وہی زندہ رہتی ہیں جو باقاعدہ تبدیلی کے عمل سے گزرتی رہیں.ہر انسان یا قوم اس غلط فہمی یا خوش فہمی میں مبتلا ہے کہ اسکی زبان ہی مہان ہے۔ وہ اپنی مادری زبان سے محبت کرتا ہے اور اسی زبان میں اظہار اس کے لیے اسان ہوتا ہے ۔ یہ فطری ہے
زبان وقت کے لحاظ سے بدلتی رہتی ہے۔ کچھ عرصہ بعد مر بھی جاتی ہے ۔ مری ہوئی زبان زندہ بھی کی جاسکتی ہے۔ زبان کا معیار معاشرے کی ترقی اور نفاست کی نمو پر ہوتا ہے۔ ہر زبان اچھی ہے مگر وہ زبانیں جو انسانی ترقی کے لیے استعمال ہوتی ہیں برتر رہتی ہے زندہ ہوتی ہیں