طارق شاہ
محفلین
غزلِ
فاخرہ بتول
لہو لہو سے گُلابوں کی داستاں دیکھو
ہوئے ہیں قتل بہاروں میں گُلسِتاں دیکھو
سوئے فلک، تو سدا دیکھتے ہی رہتے ہو !
کبھی تو پلکوں پہ بکھری یہ کہکشاں دیکھو
کسی نے دل لگی، دل کی لگی کسی نے کہا
کسی کے جذبوں کا ہو بھی گیا زیاں دیکھو
شجر شجر کو کہانی تُمھاری بتلا دی
صبا کو سمجھا تھا تم نے ہی راز داں دیکھو
ہماری آنکھوں کی برسات دیکھتے کیا ہو
اُتر گئی ہیں لہو میں جو بجلیاں دیکھو
نشاں اُنھی کے ہیں باقی کتابِ ہستی میں
زمانہ کرتا رہا جن کو بے نشان دیکھو
فصیلِ جسم ہے چھلنی، تو سر سلامت ہے
عجیب رُوح میں چلتی ہیں آندھیاں دیکھو
بتوُل جس کے لئے زندگی لُٹا دی ہے !
وہ شخص آج بھی، ہم سے ہے بدگماں دیکھو
فاخرہ بتول