زیک
مسافر
کچھ دن قبل کچھ دوستوں سے برصغیر کے مسلمانوں میں عربی کا افضل ترین زبان ہونا اور اس کی توجیہات پر بات ہو رہی تھی۔
ایک بہائی دوست نے بتایا کہ انیسویں صدی میں بہاءاللہ اور باب نے بھی عربی ہی میں اپنے مذاہب کے بارے میں لکھا۔ اس نے فارسی اور عربی کے بارے میں بہاءاللہ کی یہ تحریر بھی شیئر کی:
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انیسویں صدی کے ایران میں کم از کم مذہبی لٹریچر میں عربی اتنی معروف و مقبول تھی کہ فارسی الزبان نئے مذہب کے بانی نے بھی عربی کو افضل جانا اور اسی میں لکھا۔
اس کے برعکس برصغیر میں اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں ہمیں عربی کے مقابلے میں فارسی میں زیادہ متون ملتے ہیں۔
کیا محفل کے عربی و فارسی دان اس پر کچھ روشنی ڈال سکتے ہیں؟
ایک بہائی دوست نے بتایا کہ انیسویں صدی میں بہاءاللہ اور باب نے بھی عربی ہی میں اپنے مذاہب کے بارے میں لکھا۔ اس نے فارسی اور عربی کے بارے میں بہاءاللہ کی یہ تحریر بھی شیئر کی:
Although there can be no question or doubt as to the sweetness of the Persian tongue, yet it hath not the scope of the Arabic. There are many things which have not been expressed in Persian, that is to say, words referring to such things have not been devised, whilst in Arabic there are several words describing the same thing. Indeed there existeth no language in the world as vast and comprehensive as Arabic. This statement is prompted by truth and fairness; otherwise it is clear that in this day the world is being illumined by the splendours of that Sun which hath dawned above the horizon of Persia, and that the merits of this sweet language can scarcely be overestimated.
Bahá’u’lláh, Tabernacle of Unity, par. 2.54-2.58
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انیسویں صدی کے ایران میں کم از کم مذہبی لٹریچر میں عربی اتنی معروف و مقبول تھی کہ فارسی الزبان نئے مذہب کے بانی نے بھی عربی کو افضل جانا اور اسی میں لکھا۔
اس کے برعکس برصغیر میں اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں ہمیں عربی کے مقابلے میں فارسی میں زیادہ متون ملتے ہیں۔
کیا محفل کے عربی و فارسی دان اس پر کچھ روشنی ڈال سکتے ہیں؟