فارسی میں فعل مضارع کی ایک صورت کے بارے میں سوال

m.mushrraf

محفلین
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
(میں معافی چاہتا ہوں کہ عنوان میں "فعل مجہول" کے بجائے "فعل مضارع" ثبت ہو گیا ہے۔)
امید ہے کہ آپ سب لوگ بخیریت تمام ہونگے، میں دستور زبان فارسی سے متعلق ایک بات کے بارے میں تذبذب کا شکار ہوں اس لئے آپ میں سے جو لوگ فارسی کا ذوق رکھتے ہیں ان سے گذارش ہے کہ وہ اس بارے میں میری رہنمائی فرمائیں

بعض فارسی عبارات میں صیغہ مجہول کا معنی ٹھیک بیٹھتا ہے لیکن وہاں پہ جمع غائب کا صیغہ استعمال ہوا ہوتا ہے جبکہ اس سے پہلے کسی کے تذکرہ بھی نہیں گذرا ہوتا کہ فعل کے اندر موجود ضمیر اس کی طرف لوٹ رہی ہو، جیسے ملاحظہ ہو:

"این نام پر ھر یک از مشتقات فعل اطلاق می شود وگویند: صیغہ ماضی، صیغہ مضارع، صیغہ فاعل، صیغہ امر وغیرہ"(حاشیہ دستور زبان فارسی، تالیف پنچ استاد)

اس عبارت میں "شود" صیغہ مجہول ہے جبکہ اس کے ساتھ "گویند" صیغہ جمع معلوم ہے اور اس جگہ پہ دونوں فعلوں کا تقاضا بظاہر یکساں ہے۔
اسی طرح اور جگہوں پہ بھی ایسی صورتحال پائی۔ لیکن میں نے کسی قواعد کی کتاب میں یہ بات اب تک نہیں پڑھی کہ جمع غائب کے ذریعے سے بھی فعل مجہول کو ظاہر کیا جاتا ہے اس لئے کوئی رای قائم نہیں کر سکتا۔

آپ سے گذارش ہے اس بارے میں رہنمائی کریں
 

حسان خان

لائبریرین
گویند اور می شود دونوں کے فاعل الگ الگ ہیں۔اطلاق شدن کا فاعل "نام" ہے، جب کہ فعلِ گفتن کا فاعل غائب ہے۔ یہاں یہ مقصود ہے کہ اہلِ علم نے صیغوں کے کیا نام رکھے ہوئے ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
شیخ سعدی کا یہ شعر دیکھئے:
نامم بہ عاشقی شد و گویند توبہ کن
توبت کنوں چہ فائدہ دارد کہ نام شد

یہاں بھی دو ایسے افعال ایک ساتھ ہیں، جن کے فاعل الگ الگ ہیں۔ لہذا افعال کی ضمیر بھی اپنے اپنے فاعل کی طرف الگ لوٹ رہی ہے۔ شدن کا فاعل 'نام' ہے، جبکہ گفتن کا فاعل غائب ہے، اور یہاں اس سے نصیحت کرنے والے مقصود ہیں۔
 

m.mushrraf

محفلین
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

حسان بھائی اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔

اور آپ کے اس جواب کے پہلو میں یہ بات بھی میں اخذ کر رہا ہوں کہ فارسی میں فعل مجہول کے اظہار کا وہ طریقہ نہیں برتا جاتا جس کا مجھے گمان ہوا تھا، یعنی جمع مذکر کے ساتھ۔

ویسے آپ نے اپنے ایک صفحہ میں کئی کتابوں کی فہرست دی وہ ٖقابل تحسین ہے، اس میں سے دو فارسی سے متعلق کتابیں، سردست، میرے کام بھی آئی ہیں۔
 
Top