فارسی نثری اقتباسات مع اردو ترجمہ

حسان خان

لائبریرین
تُرکی و فارسی زبانوں کی باہم درآمیختگی

اُستاد دُکتُر قدیر گُلکاریان اپنے مقالے «تاریخِ تکامُلِ ادبیاتِ تُرکیِ آذربایجان و تُرکیه در همگَنی با ادبیاتِ فارسی در قرنِ شانزدهُم و اوایلِ قرنِ هفدهُمِ میلادی» میں ایک جا تُرکی و فارسی زبانو‌ں کے درمیان باہمی قُربت کے بارے میں بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"چه بخواهیم، چه نخواهیم، این دو زبان چنان به هم در آمیخته و با هم به صورت موازی مسیر تکاملی خود را می‌پیمایند که انکار آن و حرکت علیه این همگَنی، نوعی دشمنی با واقعیت و در عین حال فریب دادن خود با پندارهای متعصبانه است."

"خواہ ہم چاہیں، خواہ نہ چاہیں، یہ دو زبانیں (تُرکی و فارسی) اِس طرح باہم درآمیختہ ہو گئی ہیں اور اِس طرح باہم مُتوازی طور پر اپنی راہِ ارتقا طے کر رہی ہیں کہ اِس کا انکار اور اِس ہم نوعیت کے خلاف حرَکت، ایک طرح سے حقیقت کے ساتھ دُشمنی، اور ساتھ ہی خود کو مُتعصّبانہ گُمانوں کے ساتھ فریب دینا ہے۔"
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
نور در تاریکی می‌تابد و تاریکی هرگز بر آن چیره نشده است‌.
(کتابِ مُقدّس، عہدنامۂ جدید، یوحنّا، باب ۱، آیت ۵)

نُور تاریکی میں چمکتا ہے اور تاریکی ہرگز اُس پر غالب نہیں آئی ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
"بارها گفته‌ام که قرآن فرهنگ الهی و دینی ادبیات ماست و شاهنامه فرهنگ بومی و مردمی آن. هر شعر و نوشته‌ای که از ده قرن پیش تا کنون به دست ما رسیده، سرشار از این دو مایه‌بخش آسمانی و زمینی است."
(سیمین بهبهانی)
مأخذ

"میں بارہا کہہ چکی ہوں کہ قرآن ہمارے ادبیات کی اِلٰہی و دینی ثقافت ہے، جبکہ شاہنامہ اُس کی سرزمینی و مردُمی ثقافت۔ گذشتہ دس صدیوں سے لے کر اب تک جو بھی شاعری و تحریر ہمارے دست تک پہنچی ہے، وہ این دو آسمانی و زمینی اساس بخش [مأخذوں] سے سرشار ہے۔"
 

حسان خان

لائبریرین
قُطب‌الدین ایبَک کو اہداء کی گئی کتاب «شجرۂ انساب» یا «بحرالانساب» کے مُقدِّمے میں، جو «تاریخِ فخرالدین مُبارک‌شاه» کے نام سے مشہور ہے، میں محمد بن منصور مُبارک‌شاه فخرِ مُدبِّر زبانِ تُرکی کے بارے میں لکھتے ہیں:

"۔۔۔بعد از لغت زبان تازی هیچ سخنی و لغتی بهتر و باهیبت‌تر از زبان ترکی نیست و امروز رغبت مردمان به زبان ترکی بیش از آن است که در روزگارهای پیشین بدان سبب که بیش‌تر امیران و سپه‌سالاران ترکان‌اند و دولت به‌ایشان است و نعمت و زر و سیم در دست ایشان است و جملهٔ خلائق را بدان حاجت است و اصیلان و بزرگان و بزرگ‌زادگان در خدمت ترکان‌اند و از دولت ایشان آسوده و مستظهر و باحرمت‌اند."

"زبانِ عربی کے بعد کوئی بھی سُخن و لُغت زبانِ تُرکی سے زیادہ بہتر و باحشمت نہیں ہے اور اِمروز زبانِ تُرکی کی جانب مردُم کی رغبت ایامِ گُذشتہ سے زیادہ ہے کیونکہ بیشتر حُکمران و سپاہ سالار تُرک ہیں اور اقتدار اُن کے پاس ہے اور نعمت و زر و سِیم اُن کے دست میں ہے اور کُل خلائق اُس کی حاجت مند ہے اور نجیبان و بُزُرگان و بُزُرگ زادگان تُرکوں کی خدمت میں ہیں اور اُن کی حُکومت و اقبال مندی سے آسودہ و مددیاب و باحُرمت ہیں۔"
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
"فضولی یکی از بزرگ‌ترین، یا به قولی شاید بزرگ‌ترین شاعر ترکی عثمانی بوده که شهرتش در زمان زندگی و پس از وفات از بین‌النهرین به ترکیهٔ عثمانی و آذربایجان و آسیای مرکزی رسیده و قرن‌ها سرمشق شاعران دیگر بوده‌است."
(حشمت مؤید)

"«فُضولی» زبانِ تُرکیِ عُثمانی کے ایک عظیم‌ترین، یا ایک قول کے مُطابق شاید عظیم‌ترین شاعر تھے، کہ جن کی شُہرت اُن کے زمانۂ حیات میں اور وفات کے بعد دیارِ بَین‌النہرَین سے نِکل کر عُثمانی تُرکیہ، آذربائجان اور وسطی ایشیا تک پہنچ گئی تھی، اور وہ صدیوں تک دیگر شاعروں کے لیے سرمشق رہے ہیں۔"
× بَینُ‌النہرَین = دجلہ و فُرات کے مابین کی سرزمین
 

حسان خان

لائبریرین
"فضولی اشعاری رصین به زبان‌های ترکی، فارسی و عربی دارد و دیوان فارسی وی مشحون از قصاید بلند در مدح نبی (ص) و علی (ع) و مرثیهٔ حسین (ع) و نیز غزلیاتی بسیار لطیف و دل‌کش و مقطعات و رباعیات است و ساقی‌نامه‌ای به نام هفت جام دارد که در آن با روشی بسیار ظریف به مناظره با نی، دف، چنگ، عود، تنبور، قانون و مطرب نشسته و از زبان آن‌ها مواعظی آموزنده، بر مبنای اصول عرفان و اخلاق اسلامی، بیان داشته‌است."
(سید حمید طبیبیان)

"«فُضولی» نے تُرکی، فارسی و عرَبی زبانوں میں مُحکم و اُستُوار اشعار کہے ہیں، اور اُن کا دیوانِ فارسی حضرتِ پیغمبر و حضرتِ علی کی مدح میں، اور حضرتِ حُسین کے سوگ میں کہے گئے عالی قصیدوں، نیز بِسیار لطیف و دل‌کش غزلوں، اور قطعات و رُباعیات سے پُر ہے۔ اور «ہفت‌جام» کے نام سے اُن کا ایک ساقی‌نامہ ہے کہ جس میں اُنہوں نے بِسیار خوش‌طبعی و نُکتہ‌سنجی کے ساتھ نَے، دف، چنگ، عود، تنبور، قانون اور مُطرِب کے ساتھ مُناظرہ و مُباحثہ کیا ہے اور اُن کی زبان سے سبق‌آموز، اور عرفان و اخلاقِ اسلامی کے اُصول پر مبنی نصائح و مواعظ بیان کیے ہیں۔"
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
"مولانا محمد فضولی در همان دورانِ حیاتش در میانِ اهلِ علم و ادب از احترامی خاص برخوردار بوده و آثارش موردِ تقلید قرار گرفته‌است. در طول پنج قرن گذشته، تذکره‌ای نیست که در تمجید از او بهترین کلمات و عبارات را به کار نبرده باشند."
(م. کریمی)

"مولانا محمد فُضولی اپنے زمانۂ حیات ہی میں اہلِ علم و ادب کے درمیان ایک خاص احترام کے حامل ہو گئے تھے اور اُسی وقت سے اُن کی تألیفات کی تقلید و پیروی شروع ہو گئی تھی۔ گُذشتہ پانچ صدیوں کے دَوران کوئی ایسا تذکرۂ شُعَرا نہیں ہے کہ جس میں اُن کی تمجید و سِتائش میں بہترین کلمات و عبارات کو برُوئے کار نہ لایا گیا ہوں۔"
 

حسان خان

لائبریرین
«سر سیّد احمد خان» کی فارسی نثر کی ایک مِثال:

"محبت را درجات بی‌شمار است. اعلیٰ و افضلِ آن آن است که تمامِ موجوداتِ عالَم را عینِ حقیقتِ خود دانیم اگر بینم که کسی برگِ کاهی به جفا شکسته‌است دلم همین‌سان به درد درآید که گویا ناخنی از ناخن‌هایِ دست و پایِ من برشکسته. این مرتبه حاصل نمی‌شود، مگر کسی را که خداوندِ عالَم درِ رحمت بر او کشاده باشد."

ترجمہ:
"محبّت کے بے شمار درجات ہیں۔ اُس کا اعلیٰ و افضل درجہ یہ ہے کہ ہم تمام موجوداتِ عالَم کو عَین خود کی حقیقت [کا جُزء] جانیں۔ اگر میں دیکھوں کہ کسی شخص نے کسی گھاس پھوس کے ریزے کو جفا کرتے ہوئے توڑ دیا ہے تو میرا دل اُسی طرح درد میں مُبتلا ہو جائے کہ گویا میرے دست و پا کے ناخُنوں میں سے کوئی ناخُن ٹوٹ گیا ہو۔ یہ مرتبہ [کسی کو] حاصل نہیں ہوتا، اِلّا اُس شخص کو کہ جس پر خُداوندِ عالَم نے درِ رحمت کھولا ہو۔"
 

حسان خان

لائبریرین
«سر سیّد احمد خان» کا ایک فارسی مقالہ «تهذیب‌الاخلاق» کے یکم ربیع‌الثانی ۱۲۹۴ھ (۱۸۷۷ء) کے پرچے میں «حُبِّ وطن» کے نام سے شائع ہوا تھا۔ اُس مقالے سے ایک اقتباس دیکھیے:

"اصلِ کار و حقیقتِ حالِ کم‌توجهیِ برادرانِ ما در خواندنِ زبانِ انگریزی و تحصیلِ علوم و فنونِ جدیدهٔ آن زبان این است که کتبِ مذهبیِ ما مسلمانان که آموختنِ آن‌ها در حقیقت بر ما فرض است همه در زبانِ مقدسِ عربی است و عادتِ ما مسلمانان از طبقهٔ شرفا این است که اولاً می‌خواهند که اولادِ ما زبانِ عربی را بیاموزند و به مسایلِ دینیهٔ خود واقف شوند، بعدِ آن چیزی شود یا نشود. ای حضراتِ من! نیکو دانید و هوشیار باشید که این طریقه بسیار محمود و به غایت نیک و نهایت پسندیده است و گاهی تا آن‌که جان در قلبِ شما است این طریقه را مگذارید. زبانِ عربی افضل‌ترینِ زبان‌هاست. خداوندِ عالم به هیچ زبان متکلّم نشده الّا به زبانِ عربی. فضایلِ این زبان چه از اختصارِ الفاظ و کثرتِ معانی و چه در علوِ درجهٔ فصاحت و بلاغت از همهٔ زبان‌ها فایق‌تر و شیرین‌تر است. پس این‌چنین زبان را گذاشتن که در آن عمدگی و علوِ درجه در دنیا و نجاتِ ابدی در عقبیٰ است کارِ خردمندان نیست الّا تدبیری باید اندیشید که نوجوانانِ قومِ ما که در خواندنِ زبانِ عربی مصروف‌اند به جهتِ حصولِ علوم و فنونِ جدیده هم موقع و قابویی یابند و آن به خوبی حاصل تواند شد. اگر هم‌کشورانِ ما جمع شده انجمنی بیارایند و کتبِ علوم و فنونِ جدیده را از زبانِ انگریزی به فارسی یا عربی ترجمه نمایند و آن را به مشقِ نونهالانِ اقوامِ ما بدهند تا به ذریعهٔ همان زبانی که در تحصیلِ آن مصروف‌اند از علوم و فنونِ جدیده هم کما ینبغی واقفیت حاصل سازند. علم و تربیت نامِ صوتِ زبان و کام نیست به هر زبان که آن را بیاموزم به مدعا می‌رسم."

ترجمہ:
زبانِ انگریزی خواننے (پڑھنے) اور اُس زبان کے عُلوم و فُنونِ جدیدہ کی تحصیل میں ہمارے برادروں کی کم‌توجُّہی کی حقیقتِ حال اور سببِ اصلی یہ ہے کہ ہم مسلمانوں کی دینی کتب، کہ جن کا سیکھنا در حقیقت ہم پر فرض ہے، ہمہ زبانِ مُقدّسِ عرَبی میں ہیں۔ اور طبقۂ شُرَفاء کے ہم مسلمانوں کی عادت یہ ہے کہ ہم اوّلاً یہ چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد زبانِ عربی سیکھ لے اور اپنے مسائلِ دیینہ سے واقف ہو جائے، بعد ازاں کوئی چیز ہو یا نہ ہو۔ اے حضراتِ من! خوب جان لیجیے اور آگاہ ہو جائیے کہ یہ طریقہ بِسیار لائقِ ستائش اور بہ غایت خوب اور نہایت پسندیدہ ہے، اور جب تک آپ کے قلب میں جان ہے، کسی بھی وقت اِس طریقے کو مت تَرک کیجیے۔ زبانِ عربی افضل‌ترین زبان ہے۔ خُداوندِ عاَلم عربی کے بجُز کسی بھی زبان میں گویا نہیں ہوا ہے۔ یہ زبان، خواہ اختصارِ الفاظ و کثرتِ معانی کے لحاظ سے یا خواہ بُلندیِ درجۂ فصاحت و بلاغت کے لحاظ سے، تمام زبانوں سے فائق‌تر و شیریں‌تر ہے۔ پس ایسی زبان کو تَرک کرنا کہ جس میں دُنیا کے اندر بُزُرگی و بُلندیِ درجہ اور آخرت میں نجاتِ ابدی ہے، عقل‌مندوں کا کار نہیں ہے۔ لیکن کوئی چارہ و تدبیر سوچنا چاہیے کہ ہماری قوم کے نوجوانان، کہ جو زبانِ عربی خواننے میں مصروف ہیں، وہ علوم و فنونِ جدیدہ کی تحصیل کے لیے بھی موقع و اِمکان پا لیں، اور یہ بخوبی حاصل کیا جا سکتا ہے، اگر ہمارے ہم‌مُلک افراد جمع ہو کر ایک انجُمن ترتیب دیں اور علوم و فنونِ جدیدہ کی کتابوں کو زبانِ انگریزی سے فارسی یا عربی میں ترجمہ کر دیں، اور وہ ہماری اقوام کے نونہالوں کو تدریس کرائی جائیں، تاکہ وہ اُسی زبان کے ذریعے سے، کہ جس کی تحصیل میں وہ مصروف ہیں، علوم و فنونِ جدیدہ سے بھی کما ہُوَ حقُّہ واقفیت حاصل کر لیں۔ علم و تربیت زبان و دہن کی صَوت کا نام نہیں ہے۔ اُس کو مَیں جس بھی زبان میں سیکھوں مطلوب و مقصود تک پہنچ جاؤں گا۔
 

حسان خان

لائبریرین
«تاریخِ بَیهقی» میں سے ہمارے جُغرافیائی خِطّوں کے ایک پادشاہ «سُلطان مسعود غزنوی» کی ایک مجلسِ بادہ‌نوشی کا یہ دل‌چسپ حال مُلاحظہ کیجیے۔ ظاہراً، «سُلطان مسعود» کثرت کے ساتھ اور ماہرانہ شراب‌نوشی کرتے تھے، بلکہ اِس معاملے میں وہ اپنے درباریان و مُصاحبان سے اِس قدر پیش‌تر تھے کہ جہاں دیگر افراد تین چار پیالوں بعد جواب دے جاتے اور قے کر جاتے تھے، وہ پِیالوں پر پیالے نوش کر جاتے تھے لیکن اُن کا ہوش کہیں نہیں جاتا تھا، بلکہ بِسیار شراب‌نوشی کے بعد بھی اُن کے فہم و شُعور کا عالَم یہ ہوتا تھا کہ وہ اِس طرح نماز ادا کر جاتے تھے کہ دیگروں کو محسوس ہی نہیں ہو پاتا تھا کہ اُنہوں نے شراب پی ہے۔ اور ظاہراً، وہ نہ شراب کی بزم تَرک کرتے تھے اور نہ نماز جانے دیتے تھے۔ :)

====================

"...امیر گفت: بی‌تکلف باید که به دشت آییم و شراب به «باغ پیروزی» خوریم. و بسیار شراب آوردند در ساعت،... و ساتگین روان ساختند. امیر گفت: عدل نگاه دارید و ساتگین‌ها برابر کنید تا ستم نرود، پس روان کردند ساتگینی هر یک نیم من، و نشاط بالا گرفت و مطربان آواز برآوردند. «بوالحسن» پنج بخورد و ششم سپیر بیفکند و به ساتگین هفتم از عقل بشد و به هشتم قذفش افتاد و فراشان بکشیدندش. «بوالعلاء طبیب» در پنجم سر پیش کرد و ببرندش. «خلیل داود» ده بخورد و بگریخت. و «داود میمندی» مستان افتاد و مطربان و مضحکان همه مست شدند و بگریختند. ماند «سلطان» و «خواجه عبدالرزاق» و خواجه هژده بخورد و خدمت کرد رفتن را و با امیر گفت: بس. که اگر بیش ازین دهند ادب و خِرد از بنده دور کند؛ امیر بخندید و دستوری داد و برخاست و سخت به ادب بازگشت، و امیر پس ازین می خورد به نشاط، و بیست و هفت ساتگین نیم منی تمام شد. برخاست آب و طشت خواست و مصلای نماز، و دهان بشست و نماز پیشین بکرد و نماز دیگر کرد و چنان می‌نمود که گفتی شراب نخورده است! و این همه به چشم و دیدار من بود..."



====================

"۔۔۔۔امیر نے کہا: 'تکلُّف برطرف، ہمیں میدان میں آنا چاہیے اور «باغِ پیروزی» میں شراب پینا چاہیے۔' پس فوراً بِسیار شراب لائی گئی، اور پیالے بڑھا دیے گئے۔ امیر نے کہا: 'عدل و انصاف کو قائم رکھیے، اور پیالوں کو مساوی کر دیجیے تاکہ [کسی پر] سِتم نہ ہو'۔ پس ہر ایک پیالہ نیم من کر کے بڑھا دیا گیا۔ اور نشاط کا آغاز ہو گیا، اور مُطرِبوں نے نغمے گانا شُروع کر دیے۔ «بوالحسن» نے پانچ پیے، اور چھٹے میں سِپَر پھینک دی (یعنی عاجز ہو گیا یا شکست قبول کر لی)، اور ساتویں پیالے میں عقل سے چلا گیا، اور آٹھویں پیالے میں اُس کو قے ہو گئی اور خدمت‌کاروں نے اُس کو کھینچ لیا۔۔۔۔ «بوالعلاء طبیب» نے پانچویں پیالے میں سر آگے کر دیا، اور اُس کو لے جایا گیا۔۔۔ «خلیل داؤد» نے دس پیے، اور فرار ہو گیا۔ اور «داؤد مَیمَندی» مست ہو گیا، اور تمام مُطرِبان و مُضحِکان بھی مست ہو گئے اور فرار کر گئے۔ فقط «سُلطان» اور «خواجہ عبدالرزاق» باقی رہ گئے۔ اور خواجہ نے اٹھارہ پیے، اور جانے کی اجازت چاہی اور امیر سے کہا: 'بس! کیونکہ اگر اِس سے زیادہ دی جائے تو ادب و عقل اِس غُلام سے دُور ہو جائیں گے۔' امیر ہنسا اور اجازت دے دی۔ خواجہ اُٹھا اور بِسیار ادب کے ساتھ واپَس چلا گیا۔ اور پس ازاں امیر نے نِشاط کے ساتھ شراب پی، اور نیم من کے ستائیس پیالے تمام ہو گئے۔ پھر وہ اُٹھا اور آب و طشت اور مُصلّائے نماز کی خواہش کی۔ اور اُس نے دہن دھویا اور نمازِ ظُہر ادا کی، اور نمازِ عصر ادا کی، اور ایسا ظاہر ہوتا تھا کہ گویا اُس نے شراب پی ہی نہیں ہے۔۔۔ اور یہ سب میری چشم و نظر کے سامنے ہوا تھا۔"
 

حسان خان

لائبریرین
میں نے کہا تھا کہ مُلکِ «کشمیر» سے محبّت کرنا، اپنی زبان «فارسی» سے محبّت کرنا ہے۔ اِس قَول کے اِثبات کے لیے دیکھیے کہ پاکستانی ادبیات‌شِناس «سیّد حُسام‌الدین راشدی» نے «تذکرهٔ شُعَرایِ کشمیر: جِلد ۴» میں یہ لِکھا ہے کہ ہماری فارسی شاعری میں کسی بھی دیگر خِطّے سے زیادہ «خِطّۂ کشمیر» کی سِتائش ہوئی ہے:

"جو کچھ شاعرانِ فارسی نے کشمیر کے بارے میں کہا ہے، وہ اُنہوں نے کسی بھی دیگر جگہ، حتّیٰ کہ کسی بھی مملکت کی توصیف میں نہیں کہا ہے! اور کہا جا سکتا ہے کہ شاید دیگر زبانوں کے شاعروں نے بھی نہیں کہا ہو گا! اگر اُن تمام شاعریوں کو یکجا جمع‌آوری کر لیا جائے، جو کشمیر کی توصیف میں فارسی میں کہی گئی ہیں، تو وہ مجموعہ کم از کم کُلّیاتِ سعدی کے کُل حجم کا دوچنداں (دوگنا) ہو گا! اور یہ افتخار شاید کسی بھی دیگر جگہ کو نصیب نہیں ہوا ہو گا!"
(فارسی سے ترجمہ‌شُدہ)

============

فارسی متن:
"هر چه شعرای فارسی در بارهٔ کشمیر سروده‌اند در وصف هیچ جای دیگر و حتیٰ هیچ مملکتی هم نسروده‌اند! و می‌توان گفت که شاید شعرای زبان‌های دیگر هم نسروده باشند!! اگر تمام اشعاری که به وصف کشمیر به فارسی سروده شده‌است، یکجا گردآوری شود، اقلّاً دو برابر حجم کلیهٔ آثار سعدی خواهد بود! و این افتخار شاید نصیب هیچ جای دیگر نشده باشد!"
 

یاسر شاہ

محفلین
میں نے کہا تھا کہ مُلکِ «کشمیر» سے محبّت کرنا، اپنی زبان «فارسی» سے محبّت کرنا ہے۔ اِس قَول کے اِثبات کے لیے دیکھیے کہ پاکستانی ادبیات‌شِناس «سیّد حُسام‌الدین راشدی» نے «تذکرهٔ شُعَرایِ کشمیر: جِلد ۴» میں یہ لِکھا ہے کہ ہماری فارسی شاعری میں کسی بھی دیگر خِطّے سے زیادہ «خِطّۂ کشمیر» کی سِتائش ہوئی ہے:

"جو کچھ شاعرانِ فارسی نے کشمیر کے بارے میں کہا ہے، وہ اُنہوں نے کسی بھی دیگر جگہ، حتّیٰ کہ کسی بھی مملکت کی توصیف میں نہیں کہا ہے! اور کہا جا سکتا ہے کہ شاید دیگر زبانوں کے شاعروں نے بھی نہیں کہا ہو گا! اگر اُن تمام شاعریوں کو یکجا جمع‌آوری کر لیا جائے، جو کشمیر کی توصیف میں فارسی میں کہی گئی ہیں، تو وہ مجموعہ کم از کم کُلّیاتِ سعدی کے کُل حجم کا دوچنداں (دوگنا) ہو گا! اور یہ افتخار شاید کسی بھی دیگر جگہ کو نصیب نہیں ہوا ہو گا!"
(فارسی سے ترجمہ‌شُدہ)

============

فارسی متن:
"هر چه شعرای فارسی در بارهٔ کشمیر سروده‌اند در وصف هیچ جای دیگر و حتیٰ هیچ مملکتی هم نسروده‌اند! و می‌توان گفت که شاید شعرای زبان‌های دیگر هم نسروده باشند!! اگر تمام اشعاری که به وصف کشمیر به فارسی سروده شده‌است، یکجا گردآوری شود، اقلّاً دو برابر حجم کلیهٔ آثار سعدی خواهد بود! و این افتخار شاید نصیب هیچ جای دیگر نشده باشد!"
l

یہ سید حسام الدین راشدی ہمارے والد صاحب کے سگے ماموں تھے -ہم چراغ تلے اندھیرا کی مصداق ان کی تصانیف کے استفادے سے محروم رہے -کچھ ان موضوعات سے عدم دلچسپی کے سبب کچھ فارسی سے ناواقفیت کی وجہ سے -اگر ہوسکے تو ان کے کچھ اور نثر پارے بھی پیش کریں -نوازش -
 

حسان خان

لائبریرین
«تاریخِ اعظمی» میں لِکھا ہے کہ مُلکِ «کشمیر» کے ایک مشہور «کشمیری» شاعر «شیخ یعقوب صَرفی کشمیری» نے «مولانا عبدالرحمٰن جامی» کے شاگِرد «مولانا محمد آنی» سے تعلیم پائی تھی، اور اُنہوں نے شاعر کو «جامیِ ثانی» کا لقب دیا تھا۔۔۔ کتاب کی عبارت یہ ہے:

"در سِنِّ هفت سالگی حفظِ قرآن کرده، از خدمتِ مولانا محمد آنی - که شاگردِ حضرتِ مولانا جامی بود - استفادهٔ علوم نمود، و از ایشان مُخاطَب به - جامیِ ثانی - شد."

ترجمہ: "ہفت سالگی کی عُمر میں حِفظِ قُرآن کر لینے کے بعد اُنہوں نے «مولانا محمد آنی» - کہ جو «حضرتِ مولانا جامی» کے شاگرد تھے - کی خدمت سے اِستِفادۂ عُلوم کیا، اور اُن کی طرف سے وہ «جامیِ ثانی» کے لقب سے مُلقّب ہوئے۔"

=======

«صرفی کشمیری» نے بھی اپنی ایک بیت میں جنابِ «جامی» کا نام لیا ہے اور اُن کو «مُرغِ خوش‌خوان» کہہ کر یاد کیا ہے:


بعدِ خُسرو بود جامی بُلبُلِ باغِ سُخن
کیست جُز صرفی کُنون آن مُرغِ خوش‌خوان را عِوض

(شیخ یعقوب صرفی کشمیری)

«خُسرَو» کے بعد باغِ سُخن کا بُلبُل «جامی» تھا۔۔۔ اِس وقت «صَرفی» کے بجُز اُس مُرغِ خُوش‌خواں کا عِوض کون ہے؟

=======

«صرفی کشمیری» سمیت ہر ایک «کشمیری» فارسی شاعر پر سلام ہو!
 

حسان خان

لائبریرین
«فخری هِرَوی» نے «رَوضة‌السّلاطین» میں صاحبِ سیف و قلم اور تیموری خاندان کے ایک پادشاہِ غازی «ظهیرالدین محمد بابُر» کی سِتائش میں یہ کلِمات لِکھے ہیں:

"... در علم موسیقی بی‌نظیر بود و از اشعار تُرکی و فارسی و عروض و قافیه مهارت تمام داشت و کتابی موسوم به «مُبیّن» در فقه نظم کرده‌است. بسیار خوب واقع شده. و اگرچه فارسی را نیز روان و سلیس می‌گفته، امّا به اشعار تُرکی مایل‌تر بوده."

"۔۔۔ وہ علمِ موسیقی میں بےنظیر تھے، اور اشعارِ تُرکی و فارسی اور عَروض و قافیہ میں مہارتِ تمام رکھتے تھے۔ اور اُنہوں نے «مُبیّن» سے مَوسوم ایک کتاب فِقہ کے بارے میں نظم کی ہے۔ [جو] بِسیار خُوب واقع ہوئی ہے۔ اور اگرچہ وہ فارسی کو بھی روانی و سلاست کے ساتھ بولتے تھے، لیکن وہ اشعارِ تُرکی کی جانب مائل‌تر تھے۔"
 

حسان خان

لائبریرین
افغانستان کے مکاتِب میں تدریس کی جانے والی درسی کتاب «زبان و ادبیاتِ دری: صِنفِ دوازدهُم» میں ایک سبَق «امیر علی‌شیر نوایی» سے مُختَص ہے۔ اُس سبَق میں «امیر علی‌شیر نوایی» کی سِتائش میں یہ کلِمات لِکھے ہوئے ہیں:

"وہ اپنے بیشتر اوقات کو مُطالعہ و تحقیق و تألیف و تصنیف، یا پھر دانش‌مندان و عُرَفاء و شُعَراء کے ساتھ ہم‌نشینی و مُباحثہ میں صَرف کرتے تھے۔ حتیّٰ کہ شبوں کے وقت بھی اُن کی بالِین کے کنارے صُبح تک شمع جلتی تھی اور وہ دوات و قلم و کاغذ مُہیّا رکھتے تھے، تاکہ اگر وہ بیدار ہو جائیں اور کوئی معنی و مضمون اُن کے ذہن میں آ جائے تو وہ اُس کو قلم‌بند کر لیں۔"

فارسی متن:

"بیشتر اوقاتش را به مطالعه و تحقیق و تألیف و تصنیف و یا مجالست و مباحثه با دانشمندان، عرفا و شعرا مصروف می‌داشته و حتی شب‌ها در کنار بالینش تا صبح شمع می‌سوخته و دوات و قلم و کاغذ حاضر داشته تا اگر بیدار شود و معنی و مطلبی به خاطرش برسد، یادداشت کند."
 

حسان خان

لائبریرین
اِسلامی دَور میں مِلّتِ «کشمیری» سے تعلق رکھنے والے اُدَباء فقط فارسی شاعری پر قُدرت نہیں رکھتے تھے، بلکہ فارسی میں نثر لِکھنے میں بھی اُن کو یدِ طُولیٰ حاصل تھا۔ ایک «کشمیری» شاعر و ادیب «مُحسِن فانی کشمیری» کی کتاب «اَخلاقِ عالَم‌آرا: اَخلاقِ مُحسِنی» سے ایک نثری اِقتِباس دیکھیے کہ جس میں وہ «جهلِ مُرَکّب» کی تعریف بیان کر رہے ہیں:

==========

جھل مرکب: آن است که نفس از ثمرهٔ علم و یقین محروم باشد، و به عقاید باطل که یکی از آن اعتقاد علم خود است، موسوم. و معالجهٔ این مرض از معالجهٔ امراض دیگر دشوارتر است. چه صاحب این مرض را به تخلیه و تحلیه احتیاج است. که نفس را اول از اعتقاد باطل مُخلّیٰ سازد. و بعد از آن به علوم یقینی مُحلّیٰ. مُدّتی مدید به تصقیل مرآت ضمیر کوشیدن لازم است. و عهدی بعید به تحصیل کمالات گرویدن مُتَحَتِّم.

آیینه شو، مثالِ پری‌طلعتان طلب
اوّل بِروب خانه، دِگر میهمان طلب

==========

جہلِ مُرِکّب: یہ ہے کہ نفْس ثمَرۂ علم و یقین سے محروم ہو، اور عقائدِ باطل کے ساتھ، کہ جن میں سے ایک اپنے علم کا اعتقاد ہے، داغ‌دار ہو۔ اور اِس مرَض کا مُعالجہ دیگر امراض کے مُعالجے سے دُشوارتر ہے۔ کیونکہ اِس مرَض کے مریض کو تہی‌سازی و آراستَگی کی حاجت ہے۔ کہ نفْس کو اوّلاً اعتقادِ باطل سے خالی کر دے، اور بعد ازاں عُلومِ یقینی سے آراستہ کر دے۔ ایک مُدّتِ دراز تک ضمیر کے آئینے کو صَیقل کرنے کی کوشش کرنا لازم ہے، اور ایک زمانۂ بعید تک تحصیلِ کمالات کو قَبول کرنا ضروری ہے۔
آئینہ ہو جاؤ، [اور پھر] پری‌طلعتوں کی تصویر کی طلب و خواہش کرو۔۔۔ اوّلاً گھر کی صفائی کرو، [اور] اُس کے بعد [ہی] مہمان کی طلب و خواہش کرو۔۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
مِلّتِ «کشمیری» کے مِلّی وطن «کشمیر» اور «خُوبانِ کشمیر» کی سِتائش میں «قاضی نوراللہ شُوستَری» (وفات: ۱۶۱۰ء) اپنی کتاب «مجالس‌المؤمنین» میں لکھتے ہیں:

"۔۔۔اور «کشمیر» کی آب و ہوا کی نیکوئی و خوبی کی علامَتوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہاں کے خُوبوں کا حُسنِ رُخسار اور لُطفِ صُورت، دانائی کی ترتیبوں کو نظم کرنے والے [سُخن‌وَروں] کی زبانوں اور دہَنوں میں ضرب‌المثَل بن چُکا ہے۔۔۔۔"

فارسی متن:
"... و از امارات جودت آب و هوای کشمیر آنکه حسن رخسار و لطف شمایل خوبان آنجای در السنه و افواه ناظمان مناظم دانایی مثل گشته....."
 

حسان خان

لائبریرین
«بلتِستان» کو گُذشتہ زمانوں میں «تِبّتِ صغیر» بھی کہا جاتا تھا، کیونکہ مُلکِ «بلتستان» کا فقط محلِّ وُقوع ہی «تِبّت» کی ‌ہم‌سایگی میں نہیں ہے، بلکہ «قومِ بلتی» اور اُن کی «بلتی» زبان «تِبّت» اور زبانِ «تِبّتی» سے قُربت و قرابت‌داری بھی رکھتی ہے۔۔۔ «تِبّتِ صغیر» یعنی «بلتستان» کے بارے میں «قاضی نوراللہ شُوستَری» (وفات: ۱۶۱۰ء) کی کتاب «مجالس‌المؤمنین» سے ایک اقتباس دیکھیے:

«تِبّت» کشمیر کے قریب دو وِلایتوں کا نام ہے۔ ایک کو «تِبّتِ کبیر» کہتے ہیں اور وہاں کے تمام ساکِنان کافر ہیں، اور ایک کو «تِبّتِ صغیر» کہتے ہیں۔ سن ایک ہزار میں «میر علی رائے»، کہ ہنوز حاکمِ «تبّت» ہے، نے توفیقِ الٰہی سے «تِبّتِ کبیر» [احتمالاً اِس سے «لدّاخ» مُراد ہے] کو تسخیر کر لیا اور رئیسانِ کُفر کو قتل کر ڈالا، اور وہاں کے بُت‌خانوں کو توڑ ڈالا، اور اموال و خزائنِ بِسیار حاصل کیا۔۔۔ اور وہاں [یعنی «تِبّتِ صغیر»] کے تمام اہالی اُس وقت سے مُسلمان ہو چکے ہیں کہ جس وقت مذکورۂ بالا «میر شمس» [یعنی «میر شمس‌الدین عراقی»] وہاں پہنچے تھے۔ اور حاکم و سِپاہ و رعیّت میں سے سب کے سب باخُلوص شیعۂ امامیہ ہیں۔ اور تشیّع میں اُن کا غُلو اِس درجے تک ہے کہ اگر گاہے «کشمیر» کے کوئی سُنّی اشخاص وہاں جاتے ہیں تو وہ اُن سے جِزیہ لیتے ہیں۔ اور باوُجود اِس کے کہ وہ ہندوستان کے عظیم‌الشان [تیموری] پادشاہ کے جوار میں واقع ہیں، وہ خُطبے کو کُلاہِ ایمان والے پادشاہِ عالی‌جاہِ ایران صفَویِ مُوسَوی انارَ اللہُ بُرہانَہُم الجلیّہ کے نامِ نامی پر پڑھتے ہیں۔۔۔"

===========

فارسی متن:

«تبت» نام دو ولایت است قریب به کشمیر یکی را تبت کبیر گویند و ساکنان آن‌جا همگی کافرند و دیگری را تبت صغیر می‌گویند و در سنه الف میر علی رای که الحال نیز حاکم تبت است به توفیق الهی تبت کبیر را تسخیر نموده و رؤسای کفر را به قتل رسانید و بت‌خانه‌های آن را درهم شکسته و اموال و خزاین بسیار به دست آورد و اهالی آنجا از زمانی که میر شمس مذکور بدانجا رسید مسلمان شده‌اند و همگی از حاکم و سپاهی و رعیت شیعهٔ امامیه باخلوص‌اند غلو ایشان در تشیع به مرتبه‌ای‌ست که اگر احیاناً از سنیان کشمیر به آنجا می‌روند از ایشان جزیه می‌گیرند و با آنکه در جوار پادشاه عظیم‌الشأن هندوستان واقع‌اند خطبه به نام نامی پادشاه عالی‌جاه ایمان کلاه ایران سریر صفویه موسویه انار الله برهانهم الجلیه می‌خوانند..."
 

حسان خان

لائبریرین
کُرد امیر و ادیب «امیر شرَف‌خان بِدلِیسی» کا تعارُف:

امیر شرَف‌خان بِدلیسی فرزندِ امیر شمس‌الدین خان، مشہور کُرد اُمَراء میں سے ایک ہیں جو سن ۹۴۹ھ میں مُتَوَلّد ہوئے اور جنہوں نے ۱۰۱۱ھ میں وفات پائی۔ اِن امیر کی فرمان‌روائی کا مرکز شہرِ «بِدلیس» تھا جو «کُردستانِ تُرکیہ» کے شمالی خِطّوں میں «دریاچۂ وان» (وان جھیل) کے غَرب میں واقع ہے۔ اِن امیر کے آباء و اجداد - جیسا کہ خود اُنہوں نے کتابِ «شرَف‌نامہ» میں ذکر کیا ہے - چھ سو سال سے زائد مُدّت سے اِمارت و فرمان‌روائی رکھتے آئے تھے اور اُن کا نسَب ساسانیوں تک پہنچتا تھا۔
امیر شرَف‌خان نے شاہ طہماسب صفوی کے دربار میں شہزادوں اور امیرزادوں کے درمیان پرورش پائی، اور وہیں اُنہوں نے تحصیلاتِ علم کا آغاز کیا اور ادبیاتِ فارسی و عربی اور فِقہ کے عُلوم کا حُصول کیا۔ حدِّ کمال تک پہنچ جانے کے بعد شاہ نے اُن کو اپنے ہم‌راہوں اور ندیموں کی صف میں رکھ لیا اور اُس نے اُن کو بارہا مختلف ذِمّے‌داریاں، مثلاً نخجِوان اور ایک دو دیگر جگہوں کی حکومت، سونپیں۔ بِالآخر جب اُن کے پدر پِیری و کمزوری و ناتوانی و بیماری کے سبب امارت و حُکومت سے تھک گئے اور گوشۂ عُزلَت‌نشینی میں چلے گئے تو شاہ طہماسب کے فرمان پر امیر شرَف‌خان اپنی موروثی حکومت تک پہنچ گئے اور صوبۂ بِدلیس - کہ جس میں اُس وقت بِدلیس، کنج، موش، خلاط، سعرد اور خیزان کے خِطّے مشمول تھے - اُن کے اختیار و اِدارت کے تحت آ گیا۔
شاہ طہماسب صفوی کی وفات کے بعد وہ شاہ اسماعیلِ ثانی کی طرف سے تمام مناطِقِ کُردستان کے امیرالاُمَراء ہو گئے؛ یعنی وہ شاہ اور کُرد سرداروں کے مابین رابِط و واسطہ تھے۔ لیکن چند مُدّت کے بعد سُخن‌چینوں اور بدخواہوں کی بدگوئیوں اور اِفتِراؤں کے باعث شاہ کی اُن کے بارے میں رائے تبدیل ہو گئی اور اُس نے اُن کو اُس مقام سے معزول کر کے ایرانی سلطنت کے ایک کُوچَک خِطّے کی اِدارت اُن کو سونپ دی۔ سُلطان مُراد خان عُثمانی کو اِس قضیے کی اطلاع ہوئی، لہٰذا وُہ اُن کی دل‌جوئی کے ذریعے سے وارِد ہوا اور اُن کو اپنے دربار میں بُلا لیا۔ سال ۹۸۶ھ میں سُلطانِ عُثمانی کی جانب سے اُن کے نام پر «بِدلیس» کی اِدارت کا فرمان صادِر ہو گیا۔
سن ۱۰۰۵ھ میں اُنہوں نے حُکومت کو اپنے فرزندِ بُزُرگ‌تر ابوالمعالی شمش‌الدین کے سُپُرد کر دیا تاکہ خود وہ مُطالعہ و تألیف و عبادت کے لیے مزید فراغت پا سکیں۔
شرف‌خان بِدلیس ایک دین‌دار، عادِل، مُحسِن، خِرَدمند، فاضِل، اور اہلِ شعر و ادب امیر تھے۔ وہ اپنے اوقاتِ فراغت کا بیش‌تر حِصّہ فُضَلاء و دانش‌مندان کی مُصاحبت میں گُذارتے تھے، اور وہ صاحبِ تألیفات بھی ہیں؛ جن میں سے اہم‌ترین تألیف «شرَف‌نامہ بِدلیسی» نامی گراں‌بہا تاریخ ہے، جس کا شُمار تاریخِ کُرد کی اُمّہاتِ کُتُب میں ہوتا ہے۔
اُس کتاب کی نِگارِش کا آغاز مؤلّف نے سن ۱۰۰۵ھ میں شروع کیا اور ۱۰۰۷ھ میں اُس کو اختتام تک پہنچا دیا۔ اُنہوں نے اُس کتاب میں کوشش کی ہے کہ تمام کُرد خاندانوں اور اِمارتوں کی تاریخ کو ابتداء سے لے کر اپنی فرمان‌روائی کے زمانے تک ذِکر کریں۔
«شرَف‌نامہ» کو مؤلّف نے زبانِ فارسی میں تألیف کیا تھا، اور وہ اب تک کئی بار چھپ چکی ہے، اور عربی و انگریزی و روسی و کُردی جیسی مختلف زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہے۔ حال ہی میں مُعاصِر کُرد دانش‌مند اُستاد شرَفکَندی (هه‌ژار) نے اُس کا عالی کُردی ترجمہ - جو خود اُنہوں نے کیا ہے - دوبارہ چھاپا ہے۔

(تاریخِ مشاهیرِ کُرد، جلدِ اوّل، ص ۱۶۶، بابا مردوخ روحانی 'شیوا')
فارسی سے ترجمہ‌شُدہ
مُتَرجِم: حسّان خان

================

امیرشرَف‌خان بدلیسی

امیر شرف‌خان بدلیسی فرزند امیر شمس‌الدّین خان، از مشاهید اُمرای کُرد است که در سنهٔ ۹۴۹ه.ق متولد و در تاریخ ۱.۱۱ وفات یافته است. مقر فرمانروایی این امیر شهر بدلیس است از مناطق شمالی کردستان ترکیه در جانب غربی دریاچهٔ وان. آباء و اجداد این امیر - بنا به آنچه خود در کتاب شرفنامه ذکر کرده است - افزون از ششصد سال اِمارت و فرمانروایی داشته‌اند و نسب آنان به ساسانیان مُتهی می‌شود.
امیر شرف‌خان در دربار شاه طهماسب صفوی، در میان شهزادگان و امیرزادگان پرورش یافت و همانجا تحصیلات خود را شروع کرد و در ادبیات فارسی و عربی و فقه بهرهٔ کافی گرفت. پس از آن که به حد کمال رسید، شاه او را از ملازمان و ندیمان خود قرار داد و به دفعات مأموریت‌هایی از جمله حکومت نخجوان و یکی دو جای دیگر را به او سپرد. سرانجام چون پدرش بر اثر پیری و ضعف و ناتوانی بیماری از امارت و حکومت خسته شده و کنج انزوا را اختیار کرده بود، امیر شرف‌خان به فرمان شاه طهامسب به حکومت موروثی خود رسید و ایالت بدلیس - که در آن هنگام شامل نواحی بدلیس، کنج، موش، خلاط، سعرد و خیزان بود - تحت اختیار و ادارهٔ او درآمد.
پس از درگذشت شاه طهماسب، از طرف شاه اسمعیل دوم، امیرالاُمرای تمام مناطق کردستان شد؛ به طوری که او رابط بین شاه و سران اکراد بود. اما بعد از مدتی بر اثر سعایت سخن‌چینان و بدخواهان، نظر شاه نسبت به وی تغییر یافت و او را از آن مقام عزل کرده و ادارهٔ ناحیهٔ کوچکی را در ایران به وی واگذار نمود. سلطان مرادخان عثمانی، از این قضیه آگاهی یافت و از در استمالت او برآمده او را به دربار خود خواند. در تاریخ ۹۸۶ه.ق فرمان ادارهٔ بدلیس از طرف سلطان عثمانی به نام وی صادر شد.
در سنهٔ ۱۰۰۵ه.ق حکومت را به فرزند ارشدش اَبُوالمعالی شمس‌الدّین واگذاشت تا خود فراغت بیشتری برای مطالعه و تألیف و عبادت داشته باشد.
شرف‌خان بدلیسی، امیری متدین، دادگر، مُحسن، خردمند، فاضل و اهل شعر و ادب بوده است. بیشتر اوقات فراغت را به مصاحبت فضلا و دانشمندان سپری کرده و تألیفاتی هم داشته است؛ مهم‌ترین آنها تاریخ ارزشمند شرفنامهٔ بدلیسی است که از اُمَّهات کُتُب تاریخ کُرد است.
نگارش این کتاب را مؤلف در سنهٔ ۱۰۰۵ه.ق شروع کرده و در ۱۰۰۷ خاتمه داده و کوشیده است تاریخچهٔ تمام خاندانها و امارات کُرد را از ابتدا تا روزگار فرمانروایی خود ذکر کند.
شرفنامه را مؤلف به زبان فارسی تدوین کرده و چندین بار تاکنون چاپ شده و به زبانهای مختلف از جمله عربی، انگلیسی، روسی و کردی ترجمه شده و اخیراً دانشمند معاصر کرد استاد شرفکند (هه‌ژار) ترجمهٔ فاخر کُردی آن را - که از خود اوست - تجدید چاپ کرده است.
 

حسان خان

لائبریرین
"[مردُمِ کُرد] سُنّتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلّم کی موافقت میں چار عورتوں کو نکاح میں لاتے ہیں، اور اگر وہ قُوّت و قُدرت رکھتے ہوں تو چار دیگر کنیزوں کا اُس میں اِضافہ کر لیتے ہیں، اور خُدا کی حِکمت کے بمُوجِب اُن سے فراواں اولاد و اخلاف مُتَوَلِّد ہوتے ہیں، کہ اگر اُن کے درمیان ایک دوسرے کا قتل و قِتال عام نہ ہوتا تو احتمال ہے کہ کُردوں کی کثرت سے مملکتِ ایران میں بلکہ کُل جہان میں قحط واقع ہو جاتا۔ اور اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے اور اور جو چاہتا ہے حُکم فرماتا ہے۔"

(شرَف‌نامهٔ بِدلِیسی، امیر شرَف‌الدین خان بِدلیسی)

سالِ تألیفِ کتاب: ۱۰۰۵ھ

==============

فارسی متن:
"اما به مقتضای سنت نبوی صلی الله علیه وسلم چهار زن به نکاح درمی‌آورند اگر قوت و قدرت داشته باشند چهار جاریهٔ دیگر بدان ضم می‌کنند و به حکمت الٰهی اولاد و اتباع فراوان از ایشان پیدا می‌شود که اگر قتل یک‌دیگر در میانهٔ ایشان نمی‌بود یحتمل که از کثرت اکراد قحط و غلا در مملکت ایران بلکه در جملهٔ جهان می‌افتاد ویفعل الله ما یشاء ویحکم ما یرید."
 
Top