سعدی غالب
محفلین
تعالیٰ اللہ برحمت شاد کردن بے گناہاں را
سبحان اللہ!حضور اکرم ﷺ کی رحمت کیسی ہے کہ بے گناہوں کو خوش کرتی ہے
خجل نپسندد آزرم کرم بے دستگاہاں را
حضورﷺ کی شفقت وکرم گنہگاروں کو شرمندہ دیکھنا پسند نہیں کرتی
خوئے شرم گنہ در پیشگاہ رحمت عامت
آپ کی رحمت کے سامنے گناہ کا پسینہ یوں ٹپکتا ہے
سہیل و زہرہ افشاند ز سیما روسیاہاں را
جیسےگنہگاروں کے ماتھے سے سہیل و زہرہ جیسے دو ستارے چمک رہے ہیں
زہے دردت کہ با یک عالم آشوب جگر خائی
حضور ﷺ آپ کے دردِ مھبت کا کیا کہنا کہ یہ بہت بڑے درد کے باوجود
دود در دل گدایاں را ، و در سر پادشاہاں را
گداؤں یعنی عام لوگوں کے دل اور بادشاہوں کے سر میں سمایا رہتا ہے
بحرفے حلقہ در گوش افگنی آزاد مرداں را
حضور آپ اپنی ایک بات یعنی محبت بھرے کلام سے آزاد لوگوں کو اپنا غلام یعنی گرویدہ بنا لیتے ہیں
بخوابے مغز در شور آوری بالیں پناہاں را
خواب میں آکر مزے سے سوئے ہوئے لوگوں کے سر میں ایک ہنگامہ محبت و احترام پیدا کر دیتے ہیں
زِ شوقت بے قراری آرزو خارا نہاداں را
بڑے بڑے سنگدل آپ ﷺ کے عشق میں بے قراری کی آرزو کرتے ہیں
ببزمت لای خواری آبرو پرویز جاہاں را
آپ کی محفل میں بڑے بڑے مرتبہ و مقام والوں کیلئےتلچھٹ پینے (یعنی ذلت و خواری) میں بھی آبرو ہے
بہ داغت شادم اما زیں خجالت چوں بروں آیم
میں آپﷺ کی محبت پر (جو میرے دل میں ہے) خوش ہوں، لیکن اس شرمندگی سے کیونکر چھٹکارا پاؤں
کہ رشکم در جحیم افگند خلد آرامگاہاں را
کہ (میری اس محبت کے سبب) بہشت میں آرام کرنے والے ، مجھ سے رشک کرتے ہیں اور یوں گویا جہنم میں گر جاتے ہیں
بہ دلہا ریختی یکسر شکستن ہم ز یزداں داں
آپ ﷺ نے دلوں میں سراسر توڑ پھوڑ پیدا کر دی(اپنی محبت سے دل سرشار کر دئیے) یہ گویا اللہ کی دین ہے
کہ لختے بر خم زلف و کلہ زد کج کلاہاں را
کہ اس نے حسینوں کے زلف و کلاہ میں کچھ خم ڈال دیا ہے، یعنی زلفوں اور کلاہ کے ٹیڑھے پن یا جھکاؤ کو دل کشی اور دلربائی کا باعث بنا دیا
بنازم خوبی خون گرم محبوبے کہ در مستی
مجھے ایسے گرم جوش محبوب کی خوبی پر فخر ہے، جو عالمِ مستی میں
کند ریش از مکیدنہا زباں عذر خواہاں را
ان لوگوں کے ہونٹ چوم چوم کر زخمی کر دیتا ہے جو اپنی خطاؤں کی معافی مانگتے ہیں
(یعنی حضور اکرم ﷺ سراپا شفقت و مھبت ہیں، جو معزرت کرنے والوں کو بہت نوازتے ہیں، اور شاعر یعنی مسلمانوں کو آپ ﷺ کی ذاتِ گرامی پر فخر ہے)
نشاط ہستی حق دارد از مرگ ایمنم غالبؔ
حق کا وجود، اے غالبؔ! مجھے موت کے کوف سے محفوظ رکھتا ہے
چراغم چوں گل آشامد نسیمِ صبحگاہاں را
(یعنی) میرا چراغ صبح کی ہو سے بجھنے کی بجائے ، پھول کی طرح اس سے اور بھی زیادہ مہکتا ہے
سبحان اللہ!حضور اکرم ﷺ کی رحمت کیسی ہے کہ بے گناہوں کو خوش کرتی ہے
خجل نپسندد آزرم کرم بے دستگاہاں را
حضورﷺ کی شفقت وکرم گنہگاروں کو شرمندہ دیکھنا پسند نہیں کرتی
خوئے شرم گنہ در پیشگاہ رحمت عامت
آپ کی رحمت کے سامنے گناہ کا پسینہ یوں ٹپکتا ہے
سہیل و زہرہ افشاند ز سیما روسیاہاں را
جیسےگنہگاروں کے ماتھے سے سہیل و زہرہ جیسے دو ستارے چمک رہے ہیں
زہے دردت کہ با یک عالم آشوب جگر خائی
حضور ﷺ آپ کے دردِ مھبت کا کیا کہنا کہ یہ بہت بڑے درد کے باوجود
دود در دل گدایاں را ، و در سر پادشاہاں را
گداؤں یعنی عام لوگوں کے دل اور بادشاہوں کے سر میں سمایا رہتا ہے
بحرفے حلقہ در گوش افگنی آزاد مرداں را
حضور آپ اپنی ایک بات یعنی محبت بھرے کلام سے آزاد لوگوں کو اپنا غلام یعنی گرویدہ بنا لیتے ہیں
بخوابے مغز در شور آوری بالیں پناہاں را
خواب میں آکر مزے سے سوئے ہوئے لوگوں کے سر میں ایک ہنگامہ محبت و احترام پیدا کر دیتے ہیں
زِ شوقت بے قراری آرزو خارا نہاداں را
بڑے بڑے سنگدل آپ ﷺ کے عشق میں بے قراری کی آرزو کرتے ہیں
ببزمت لای خواری آبرو پرویز جاہاں را
آپ کی محفل میں بڑے بڑے مرتبہ و مقام والوں کیلئےتلچھٹ پینے (یعنی ذلت و خواری) میں بھی آبرو ہے
بہ داغت شادم اما زیں خجالت چوں بروں آیم
میں آپﷺ کی محبت پر (جو میرے دل میں ہے) خوش ہوں، لیکن اس شرمندگی سے کیونکر چھٹکارا پاؤں
کہ رشکم در جحیم افگند خلد آرامگاہاں را
کہ (میری اس محبت کے سبب) بہشت میں آرام کرنے والے ، مجھ سے رشک کرتے ہیں اور یوں گویا جہنم میں گر جاتے ہیں
بہ دلہا ریختی یکسر شکستن ہم ز یزداں داں
آپ ﷺ نے دلوں میں سراسر توڑ پھوڑ پیدا کر دی(اپنی محبت سے دل سرشار کر دئیے) یہ گویا اللہ کی دین ہے
کہ لختے بر خم زلف و کلہ زد کج کلاہاں را
کہ اس نے حسینوں کے زلف و کلاہ میں کچھ خم ڈال دیا ہے، یعنی زلفوں اور کلاہ کے ٹیڑھے پن یا جھکاؤ کو دل کشی اور دلربائی کا باعث بنا دیا
بنازم خوبی خون گرم محبوبے کہ در مستی
مجھے ایسے گرم جوش محبوب کی خوبی پر فخر ہے، جو عالمِ مستی میں
کند ریش از مکیدنہا زباں عذر خواہاں را
ان لوگوں کے ہونٹ چوم چوم کر زخمی کر دیتا ہے جو اپنی خطاؤں کی معافی مانگتے ہیں
(یعنی حضور اکرم ﷺ سراپا شفقت و مھبت ہیں، جو معزرت کرنے والوں کو بہت نوازتے ہیں، اور شاعر یعنی مسلمانوں کو آپ ﷺ کی ذاتِ گرامی پر فخر ہے)
نشاط ہستی حق دارد از مرگ ایمنم غالبؔ
حق کا وجود، اے غالبؔ! مجھے موت کے کوف سے محفوظ رکھتا ہے
چراغم چوں گل آشامد نسیمِ صبحگاہاں را
(یعنی) میرا چراغ صبح کی ہو سے بجھنے کی بجائے ، پھول کی طرح اس سے اور بھی زیادہ مہکتا ہے