سید شہزاد ناصر
محفلین
آج یہ تحریر لکھنے کا محرک ایک انگریزی فلم بنی جس کے بارے میں مختصراً عرض کروں کہ ایک دوا ساز کمپنی نے جانوروں پہ تجربات کر کے ایک ایسی دوا بنائی جس کے استعمال سے جانوروں کی جسامت دن دوگنی رات چوگنی بڑھ جاتی ہے۔اس دوا کے تجربات سے جو جانور تلف ہو جاتے تھے وہ ان کو شہر کے گندے نالے میں پھینک دیا کرتے تھے۔ اُس نالے میں یہ مردار جانور ایک مگر مچھ کی خوراک بن جاتے ہیں۔اور وہ مگر مچھ ان تجربہ شدہ مردار جانوروں کا گوشت کھا کر ایک خطرناک عفریت کا روپ دھار لیتا ہے اور انسانیت کا قاتل بن جاتا ہے۔
یہ ایک خیالی فلم تھی مگر انگریز مسلمانوں سے بہت آگے کی سوچ رکھتے ہوئے مستقبل کی پلاننگ پہلے سے ہی کر رکھتا ہے۔
اس فلم کو دیکھ کر مجھے اپنے چاروں طرف بیماریوں کے نئے نئے عفریت نظر آئے۔جو آج سے ود ڈھائی عشرے پہلے خال خال ہی نظر آتے تھے۔ مثلا جوڑوں کے امراض، ہیپا ٹائیٹس ، بانجھ پن ،کینسر ، تھائیرائیڈ ، ذیابیطیس ، خواتین میں برسٹ کینسر ، رحم اور ٹیوب میں Cysis بن جانا اس کے علاوہ عجیب عجیب مرض جو پہلے کبھی دیکھے نہ سنے۔
ان امراض کے اسباب تو بہت ہیں لیکن اس فلم کو دیکھ کر جو چیز ذہن میں آئی وہ فارمی مرغی یعنی چکن۔
یہ چکن آج امیر غریب ، چھوٹے بڑے سب کی پسندیدہ غذا ہے۔ دو ڈھائی عشروں میں ہی اس کا رواج بڑھا ہے۔ اصل میں یہ چوزے یعنی Chicks ہیں ۔ اس لئے ان کے گوشت کو Chicken کہا جاتا ہے۔ مرغی تو Cock یا Hen ہے۔
اس چکن کی افزائش پہ اگر نظر ڈالیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ایک فارمی چوزہ صرف ڈیڑھ دو ماہ میں مکمل مرغی کے سائز کا ہو جاتا ہے۔آخر کیوں ؟
جبکہ دیسی چوزہ تو چھ ماہ میں مرغی جیسا ہوتا ہے مکمل مرغی تو وہ سال میں بنتا ہے۔اس فارمی چوزے کو جو غذا دی جاتی ہے اس میں ایسے ہارمونز Steroids اور کیمیکل ڈالے جاتے ہیں جو ان کی افزائش کو غیر فطری بڑھا دیتے ہیں۔
اس کے علاوہ ان کی فیڈ میں مختلف جانوروں کا خون جو مذبح خانوں سے مل جاتا ہے ، جانوروں کی آلائش ، مردار جانوروں کا گوشت اس فیڈ میں شامل کیا جاتا ہے۔
کچھ عرصہ قبل ایک نجی ٹی وی چینل نے لاہور کے مذبح خانوں پر ایک دستاویزی فلم پیش کی تھی جس میں ان فارمی مرغیوں کی خوراک کے پارے میں بھی دکھایا گیا تھا۔اس خوراک کا بیشتر حصہ خون ،آنتیں اور دیکر فضلات پر مشتمل ہوتا ہے۔
یہ فیڈ کھا کر یہ نومولود چوزے 6 سے 8 ہفتوں میں ہمارے پیٹ میں پہنچنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔
لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ یہ چوزے بڑے ہونے کے باوجود بھاگنے اڑنے سے قاصر ہوتے ہیں۔کیونکہ ان کا جسم پھولا اور سوجا ہوا ہوتا ہے۔ جو کہ اسٹئرائڈز کا کمال ہوتا ہے۔ اسطرح کے اسٹئرائڈز باڈی بلڈر اور پہلوان استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی آخری عمر بستر پہ گذرتی ہے۔
اس فارمی مرغی کے مقابلے میں دیسی چوزہ جوکہ 6۔8 مہینوں تک چوزہ ہی رہتا ہے کو پکڑنا چاہیں تو بڑے آدمی کو بھی دانتوں پسینہ آجاتا ہے جبکہ فارمی مرغی کو ایک بچہ بھی آسانی سے پکڑ لیتا ہے۔
یہ فارمی چکن ہمارے معاشرے میں “ ہائی پروٹین ، کولیسٹرول فری گوشت ” کے نام سے رواج پاگیا ہے۔ حتٰی کہ ڈاکٹر حضرات بھی سارے گوشت بند کرکے فارمی چکن ہی تجویز کرتے ہیں۔ جوکہ خود بیماریوں کی وجہ ہے۔
آیئے اب اس ہائی پروٹین والے سفید گوشت کے نقصانات دیکھتے ہیں۔
1 : موٹاپا ، جسم پر چربی خاص طور پہ گردوں اور جگر پر۔
2: جوروں کا درد ، خاص طور پہ ہڈیوں کا بھر بھرا ہوجانا۔
3: بچے بچیوں میں جلد بلوغت کے آثار۔
4 : اسٹیرائزڈ مرغیوں کا گوشت کھانے کی وجہ سے جسم کا مدافعتی نظام کا شدید کمزورپڑجانا جس کی وجہ سے آئے دن بیمار رہنا۔
5: مردوں میں کمزوری اور خواتین میں ایام کی بے قاعدگی کی شکایت۔
یہ چند چیدہ چیدہ نقصانات ہیں جو کسی میں جلد اور کسی میں کچھ عرصے بعد ظاہر ہوتے ہیں۔ زبان کا ذائقہ اور جلد پک جانے کی سہولت اس کے نقصانات کے مقابلے میں بہت ہی حقیر فائدے ہیں۔
جیسی غذا ہم کھاتے ہیں ویسی ہی صحت ہم پاتے ہیں۔ غذا میں دالوں سبزیوں کا استعمال بڑھائیں ۔
گوشت میں بلترتیب مچھلی ، بکرے یا دنبہ ، اونٹ اور آخر میں گائے کے گوشت کی افادیت ہے۔
آیئے اپنے لئے اپنی آئیندہ صحت مند نسلوں کے لئے ہم اپنی خوراک پہ نظر ثانی کریں۔
وما توفیقی الا باللہ
ربط
http://pak.net/?p=5948