غزل قاضی
محفلین
فاصلہ
(۱)
رات آئی تو چراغوں نے لویں اُکسا دیں
نیند ٹوٹی تو ستاروں نے لہو نذرکیا
کسی گوزے سے دبے پاؤں چلی بادِ شمال
کیا عجب اُس کے تبسُّم کی ملاحت مِل جائے
خواب لہرائے کہ افسانہ سے افسانہ بنے
ایک کونپل ہی چٹک جائے تو پھر جام چلے
دیر سے صُبحِ بہاراں ہَے نہ شامِ فردوس
وقت کو فکر ، کہ وُہ آئے تو کچھ کام چلے
(۲)
دُھوپ اُتری تو وُہی شامِ غریباں جِس میں
اپنے سینے پہ مزاروں کا گماں ہوتا ہَے
غم بھی مِلتے ہیں تو جیسے کوئی دولت مِل جائے
لُو بھی چلتی ہَے تو احسان سے سر جُھکتا ہے
آخری آس بھی ٹوٹے تو بڑا لُطف و کرم
ریت کے پیار سے طوفاں کے جھکولے اچّھے
آگ لگ جائے جو گھر کو تو چلو جشن ہُوا
اپنے معمُول کی اس راکھ سے شُعلے اچّھے
(مُصطفیٰ زیدی از شہرِ آذر )
(۱)
رات آئی تو چراغوں نے لویں اُکسا دیں
نیند ٹوٹی تو ستاروں نے لہو نذرکیا
کسی گوزے سے دبے پاؤں چلی بادِ شمال
کیا عجب اُس کے تبسُّم کی ملاحت مِل جائے
خواب لہرائے کہ افسانہ سے افسانہ بنے
ایک کونپل ہی چٹک جائے تو پھر جام چلے
دیر سے صُبحِ بہاراں ہَے نہ شامِ فردوس
وقت کو فکر ، کہ وُہ آئے تو کچھ کام چلے
(۲)
دُھوپ اُتری تو وُہی شامِ غریباں جِس میں
اپنے سینے پہ مزاروں کا گماں ہوتا ہَے
غم بھی مِلتے ہیں تو جیسے کوئی دولت مِل جائے
لُو بھی چلتی ہَے تو احسان سے سر جُھکتا ہے
آخری آس بھی ٹوٹے تو بڑا لُطف و کرم
ریت کے پیار سے طوفاں کے جھکولے اچّھے
آگ لگ جائے جو گھر کو تو چلو جشن ہُوا
اپنے معمُول کی اس راکھ سے شُعلے اچّھے
(مُصطفیٰ زیدی از شہرِ آذر )