فاعلاتن مفاعلن فعلن: عشق کو ڈھونگ جاننے والو

عاطف ملک

محفلین
اساتذہ کرام اور تمام محفلین کی خدمت میں تنقیدی و اصلاحی آراء اور تبصروں کی امید دل میں لیے کچھ اشعار پیش کر رہا ہوں


درد کا دل کے باب میں ملنا
تشنگی کا سراب میں ملنا

ان کا اک داستانِ عشق کی مثل
زندگی کی کتاب میں ملنا

نیند آنکھوں سے چھین کر میری
مجھ سے ہر رات خواب میں ملنا

دل کا ہم سے ہی روٹھ کر جانا
اور ان کے جناب میں ملنا

دیکھنا ان کے رنگ پھولوں میں
ان کی خوشبو گلاب میں ملنا

التجا میری ان کی چوکھٹ پر
"کیوں یہ پردہ؟ نقاب میں ملنا؟

تاب بے تاب دل میں کم تو نہیں
چھوڑ دے اب حجاب میں ملنا"

دید کی التجا و حسرت پر
"لن ترانی" جواب میں ملنا

جیسے مل جانا آسماں سے زمین
یا قمر آفتاب میں ملنا

چاہ کر بھی نہ موت پا سکنا
زندگانی عذاب میں ملنا

دل کا فرقت کی آگ میں جلنا
چشمِ گریاں کا آب میں ملنا

جان کی بازی ہار کر میرا
اہلِ دل کی کتاب میں ملنا

عشق کو ڈھونگ جاننے والو!
ہم سے یومِ حساب میں ملنا
ٹیگ نامہ:
محمد وارث
سید عاطف علی
محمد ریحان قریشی
گو آپ کو ٹیگ نہ کرنے کا ارادہ کیا تھا کبھی
امجد علی راجا
 
آخری تدوین:
ماشا اللہ۔
ایک آدھ گزراش ہماری جانب سے بھی، اگر قبول کریں
اور ان کی جناب میں ملنا
او ر ان کے جناب میں ملنا ۔۔۔ کا محل معلوم ہوتا ہے!
یا قمر آفتاب میں ملنا
بعید از قیاس بات لگتی ہے او ر شاعرانہ طبیعت پر بار !

باقی غزل خوبصورت ہے۔ ماشا اللہ
 

عاطف ملک

محفلین
بہت بہت نوازش امان بھائی :)
بہت خوب جناب۔
باقی تو اساتذہ ہی دیکھیں۔
یہ شعر مجھے ادھورا سا لگ رہا ہے۔
نوازش تابش بھائی :)

اپنی طرف سے تو مسلسل غزل لکھنے کی کوشش کی ہے،اس تناظر میں اگر گنجائش نکل سکتی ہو تو!
شعر کا خیال ذیل میں دیا ہے۔
ماشا اللہ۔
ایک آدھ گزراش ہماری جانب سے بھی، اگر قبول کریں

او ر ان کے جناب میں ملنا ۔۔۔ کا محل معلوم ہوتا ہے!

بعید از قیاس بات لگتی ہے او ر شاعرانہ طبیعت پر بار !

باقی غزل خوبصورت ہے۔ ماشا اللہ
تعریف کیلیے بہت بہت شکریہ کاشف بھائی!
"ان کی جناب" کی تدوین کر دی :)

شعر کے حوالے سے عرض یہ ہے کہ قیامت ٹوٹ پڑنے کی طرف اشارہ ہے۔زمین و آسمان ایک ہو گئے،چاند اور سورج ایک دوسرے میں ضم ہو گئے یا ٹکرا گئے۔
کیا چاند کا سورج میں ضم ہونا اس قدر بعید از قیاس ہے؟
دید کی التجا و حسرت پر
"لن ترانی" جواب میں ملنا
جواب نہیں. . ماشاء اللہ
بہت شکریہ :)
اچھی غزل ہے بھیا، داد قبول فرمائیں۔
امجد بھیا بہت بہت شکریہ :)
 
اپنی طرف سے تو مسلسل غزل لکھنے کی کوشش کی ہے،اس تناظر میں اگر گنجائش نکل سکتی ہو تو!
شعر کا خیال ذیل میں دیا ہے۔
مسلسل غزل کی صورت میں درست ہے. البتہ اس کا جو مفہوم میرے ذہن میں آیا تھا وہ آپ کے بتائے گئے مطلب سے متضاد تھا.
یعنی کہ ملنا اتنا ہی بعید از قیاس ہے جتنا کہ ...
 
۸۔۸۸۔۸۔۸۸۸
درد کا دل کے باب میں ملنا
تشنگی کا سراب میں ملنا
درست

وہ ترا داستانِ عشق کی مثل
درست ہے لیکن روانی کے لئے یوں بھی کیا جا سکتا ہے

عشق کی داستاں کی طرح ترا
زندگی کی کتاب میں ملنا

نیند آنکھوں سے چھین کر میری
مجھ سے ہر رات خواب میں ملنا
دوسرا مصرعہ پہلے مصرعہ کی نفی کر رہا ہے۔ جب نیند ہی چھن گئی تو خواب کیسے؟
(مثال کے طور پر)
(مثال کے طور پر)
جا رہے ہو مگر گزارش ہے
مجھ سے ہر رات خواب میں ملنا

دل کا ہم سے ہی روٹھ کر جانا
ہے عجب دل کا روٹھ کر جانا

اور ان کی جناب میں ملنا

دیکھنا ان کے رنگ پھولوں میں
ان کی خوشبو گلاب میں ملنا
درست

التجا میری ان کی چوکھٹ پر
"کیوں یہ پردہ؟ نقاب میں ملنا؟

پردہ اور نقاب ایک ہی بات ہے، تکرار اچھی نہیں لگ رہی۔ اور التجا سوالیہ انداز میں کیوں؟
تشنہِ دید پر ہے کیوں یہ ستم
جب بھی ملنا نقاب میں ملنا


تاب بے تاب دل میں کم تو نہیں
چھوڑ دے اب حجاب میں ملنا

"تاب بے" ب کے فوراً بعد ب کا استعمال مصرعہ کے حسن کو ماند کر رہا ہے
ہیں چکا چوند حسن سے آنکھیں
چھوڑ دے اب حجاب میں ملنا
(اسے سے بہتر مصرعہ لایا جا سکتا ہے، میں نے صرف مثال دی ہے)

دید کی التجا و حسرت پر
"لن ترانی" جواب میں ملنا

خوب ہے

جیسے مل جانا آسماں سے زمین
یا قمر آفتاب میں ملنا
کس کے ملنے کو آسماں سے زمین کا ملنا اور قمر کا آفتاب سے ملنا سے تشبیہ دی جا رہی ہے؟


چاہ کر بھی نہ موت پا سکنا
زندگانی عذاب میں ملنا

خیال میں جدت لائیئے۔

دل کا فرقت کی آگ میں جلنا
چشمِ گریاں کا آب میں ملنا

دوسری مصرعہ کا مطلب تو میں "لاحاصل" سمجھا ہوں، اگر ایسا ہے تو پہلا مصرعہ بھی لا حاصل ہوا۔ دونوں مصرعوں کا ہم قافیہ الفاظ پر اختتام مناسب نہیں۔ پلا مصرعہ بدل دیں یا کوئی اور خیال لے کر آئیں تو بہتر ہوگا۔

جان کی بازی ہار کر میرا
اہلِ دل کی کتاب میں ملنا

بڑی قربانی دی ہے بھائی نے :) شعر درست ہے

عشق کو ڈھونگ جاننے والو
ہم سے یومِ حساب میں ملنا

مقطع درست بھی ہے اور حاصلِ غزل بھی
بہت خوب، بہت اعلیٰ، اچھی غزل کہی ہے

لال رنگ بہت بھر دیا ہے، معذرت :)
 
شعر کے حوالے سے عرض یہ ہے کہ قیامت ٹوٹ پڑنے کی طرف اشارہ ہے۔زمین و آسمان ایک ہو گئے،چاند اور سورج ایک دوسرے میں ضم ہو گئے یا ٹکرا گئے۔
کیا چاند کا سورج میں ضم ہونا اس قدر بعید از قیاس ہے؟
امجد بھیا بہت بہت شکریہ :)
قیامت ٹوٹ پڑنے کی طرف اشارہ ہے لیکن قیامت ٹوٹ پڑنے کا احساس نظر نہیں آ رہا یا یوں کہہ لیں کی قیامت ٹوٹ پڑنے کا اظہار نہیں ہو رہا، بہتر ہوگا کہ دوبارہ کوشش کی جائے۔
 

عاطف ملک

محفلین
'فائن ٹیوننگ' تو ہوتی رہے گی عاطف صاحب لیکن غزل خوب ہے، کیا کہنے۔ بالخصوص آخری شعر واہ واہ واہ!
وارث سر،
تعریف کیلیے بہت نوازش۔
میرے لیے بہت بڑا اعزاز ہے آپ کا تعریفی جملہ۔
فائن ٹیونگ تو میں بھی کر ہی لوں گا۔
آپ باقی اساتذہ کے اٹھائے گئے نکات کے متعلق فرما دیجیے کہ اگر اس کو بطورِ "مسلسل غزل" لیا جائے تو اشعار درست ہیں؟

بالخصوص یہ شعر
جیسے مل جانا آسماں سے زمین
یا قمر آفتاب میں ملنا

ترتیب اور مفہوم کے اعتبار سے خیال کا ابلاغ کر رہا ہے؟
 

محمد وارث

لائبریرین
وارث سر،
تعریف کیلیے بہت نوازش۔
میرے لیے بہت بڑا اعزاز ہے آپ کا تعریفی جملہ۔
فائن ٹیونگ تو میں بھی کر ہی لوں گا۔
آپ باقی اساتذہ کے اٹھائے گئے نکات کے متعلق فرما دیجیے کہ اگر اس کو بطورِ "مسلسل غزل" لیا جائے تو اشعار درست ہیں؟

بالخصوص یہ شعر
جیسے مل جانا آسماں سے زمین
یا قمر آفتاب میں ملنا

ترتیب اور مفہوم کے اعتبار سے خیال کا ابلاغ کر رہا ہے؟
غزلِ مسلسل کا مطلب یہ ہے کہ کسی غزل میں ایک ہی خیال چل رہا ہے، جیسے خمریات والی غزلیں اکثر مسلسل ہوتی ہیں یعنی خیال یا غزل کا "تھیم" ایک ہی ہے لیکن یہ لازم ہے کہ غزل کا ہر شعر ایک مکمل یونٹ ہوتا ہے یعنی یہ کہ اگر اسے غزل سے علیحدہ کر کے بھی پڑھیں تو وہ مکمل معنی دے۔ آپ کا مذکورہ شعر اگر فرد کے طور پر پڑھا جائے تو مکمل معنی نہیں دے رہا یعنی ابلاغ مکمل نہیں ہے۔ غزل میں دو تین شعر کا قطعہ بھی ہوتا ہے، اس میں بھی شاعر دو یا تین اشعار پر قطعہ کی علامت ڈال دیتا ہے اور وہ اشعار بھی ایک دوسرے سے منسلک ہوتے ہیں یا ایک ہی خیال کو آگے بڑھاتے ہیں لیکن ہوتے وہ بھی اپنی جگہ مکمل ہیں۔

بہتر یہی ہے کہ آپ اس شعر کو کسی طرح تبدیل کریں۔
 

عاطف ملک

محفلین
غزلِ مسلسل کا مطلب یہ ہے کہ کسی غزل میں ایک ہی خیال چل رہا ہے، جیسے خمریات والی غزلیں اکثر مسلسل ہوتی ہیں یعنی خیال یا غزل کا "تھیم" ایک ہی ہے لیکن یہ لازم ہے کہ غزل کا ہر شعر ایک مکمل یونٹ ہوتا ہے یعنی یہ کہ اگر اسے غزل سے علیحدہ کر کے بھی پڑھیں تو وہ مکمل معنی دے۔ آپ کا مذکورہ شعر اگر فرد کے طور پر پڑھا جائے تو مکمل معنی نہیں دے رہا یعنی ابلاغ مکمل نہیں ہے۔ غزل میں دو تین شعر کا قطعہ بھی ہوتا ہے، اس میں بھی شاعر دو یا تین اشعار پر قطعہ کی علامت ڈال دیتا ہے اور وہ اشعار بھی ایک دوسرے سے منسلک ہوتے ہیں یا ایک ہی خیال کو آگے بڑھاتے ہیں لیکن ہوتے وہ بھی اپنی جگہ مکمل ہیں۔

بہتر یہی ہے کہ آپ اس شعر کو کسی طرح تبدیل کریں۔
سر اس غزل میں قطعات ہی ہیں۔۔۔علامات نہیں ڈالیں لیکن
"التجائے دید" کے دو اشعار......اور "لن ترانی" اور اس کے بعد کے دو اشعار بھی ایک ہی کیفیت کو بیان کر رہے ہیں۔

چھوٹی بحر پر گرفت نہ ہونے کی وجہ سے بطورِ مشق اپنی طرف سے ٹوٹی پھوٹی سی کوشش کی ہے۔
اشعار کچھ کام کے لگے تو آپ کی خدمت میں رائے کیلیے پیش کیے ہیں۔ورنہ میں ان کو مشق کے طور پر ہی رکھنے لگا تھا :)
آسمان و زمیں شمس اور قمر والے شعر کے متعلق مجھے سب سے زیادہ شبہ تھا اور وہ درست ثابت ہوا ہے۔
انشااللہ اس غزل پر مزید محنت کرتا ہوں۔
رہنمائی کیلیے بہت شکریہ۔
 

عاطف ملک

محفلین
درد کا دل کے باب میں ملنا
تشنگی کا سراب میں ملنا
درست
:)
وہ ترا داستانِ عشق کی مثل
درست ہے لیکن روانی کے لئے یوں بھی کیا جا سکتا ہے

عشق کی داستاں کی طرح ترا
زندگی کی کتاب میں ملنا
جی بہت بہتر۔۔۔۔اس کو دیکھتا ہوں۔
ویسے میں نے خود سے تدوین کی ہے۔

ان کا اک داستانِ عشق کی مثل
زندگی کی کتاب میں ملنا
دراصل یہ آپ بیتی لکھنے کی کوشش کی ہے اور محبوب کو "ان" کے صیغے سے مخاطب کیا ہے تمام اشعار میں،اس شعر میں کمی رہ گئی تھی تو وہ دور کرنے کی کوشش کی۔
اگر قابلِ قبول ہو سکے تو!
نیند آنکھوں سے چھین کر میری
مجھ سے ہر رات خواب میں ملنا
دوسرا مصرعہ پہلے مصرعہ کی نفی کر رہا ہے۔ جب نیند ہی چھن گئی تو خواب کیسے؟
(مثال کے طور پر)
(مثال کے طور پر)
جا رہے ہو مگر گزارش ہے
مجھ سے ہر رات خواب میں ملنا
جی اس کو دیکھتا ہوں۔

ویسے مرے علم کے مطابق خواب سے بھر پور نیند ایک الگ قسم کی نیند(REM Sleep) ہے جس میں سکون نہیں ہوتا،اس کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے :)
ابلاغ غالباً نہیں ہو پایا۔
دل کا ہم سے ہی روٹھ کر جانا
ہے عجب دل کا روٹھ کر جانا

اور ان کی جناب میں ملنا
اس کو بھی دیکھتا ہوں۔
اس میں "ہم" کو جگہ دینا چاہ رہا تھا کہ پتا چلے دل سے مراد کس کا دل ہے۔
دیکھنا ان کے رنگ پھولوں میں
ان کی خوشبو گلاب میں ملنا
درست
:)
التجا میری ان کی چوکھٹ پر
"کیوں یہ پردہ؟ نقاب میں ملنا؟

پردہ اور نقاب ایک ہی بات ہے، تکرار اچھی نہیں لگ رہی۔ اور التجا سوالیہ انداز میں کیوں؟
تشنہِ دید پر ہے کیوں یہ ستم
جب بھی ملنا نقاب میں ملنا
التجا سوالیہ اسی لیے ہے کہ دکھائی دیتے بھی ہو اور پردے میں بھی ہو۔ایسا کیوں؟
اگر اس کا خوف ہے کہ دل جلوہ برداشت کرنے کی تاب نہیں رکھتا تو ایسا نہیں ہے۔
تاب بے تاب دل میں کم تو نہیں
چھوڑ دے اب حجاب میں ملنا

"تاب بے" ب کے فوراً بعد ب کا استعمال مصرعہ کے حسن کو ماند کر رہا ہے
ہیں چکا چوند حسن سے آنکھیں
چھوڑ دے اب حجاب میں ملنا
(اسے سے بہتر مصرعہ لایا جا سکتا ہے، میں نے صرف مثال دی ہے)
"تاب بے تاب دل میں کم تو نہیں"
مجھے اچھا لگا تھا :-(
بدلنے کی کوشش کرتا ہوں۔
جیسے مل جانا آسماں سے زمین
یا قمر آفتاب میں ملنا
کس کے ملنے کو آسماں سے زمین کا ملنا اور قمر کا آفتاب سے ملنا سے تشبیہ دی جا رہی ہے؟
"لن ترانی" کا جواب ملنے کو "زمین و آسمان" کے ملنے سے تشبیہ دی کہ مری دنیا ہی ختم ہو گئی۔
چاہ کر بھی نہ موت پا سکنا
زندگانی عذاب میں ملنا

خیال میں جدت لائیئے۔
جی بہتر!
دل کا فرقت کی آگ میں جلنا
چشمِ گریاں کا آب میں ملنا
دوسری مصرعہ کا مطلب تو میں "لاحاصل" سمجھا ہوں، اگر ایسا ہے تو پہلا مصرعہ بھی لا حاصل ہوا۔ دونوں مصرعوں کا ہم قافیہ الفاظ پر اختتام مناسب نہیں۔ پلا مصرعہ بدل دیں یا کوئی اور خیال لے کر آئیں تو بہتر ہوگا۔
اس کو بھی دیکھتا ہوں۔میں ہجر کی کیفیات بیان کرنا چاہ رہا تھا،اس کے بعد موت کا ذکر جو کرنا تھا۔
جان کی بازی ہار کر میرا
اہلِ دل کی کتاب میں ملنا
بڑی قربانی دی ہے بھائی نے :) شعر درست ہے


عشق کو ڈھونگ جاننے والو
ہم سے یومِ حساب میں ملنا


مقطع درست بھی ہے اور حاصلِ غزل بھی
بہت خوب، بہت اعلیٰ، اچھی غزل کہی ہے

لال رنگ بہت بھر دیا ہے، معذرت :)
پسندیدگی کیلیے اور تفصیلی تبصرے کیلیے بہت بہت ممنون ہوں۔ایسے ہی شفقت فرماتے رہا کریں۔
بہتری کیلیے محنت کرتا ہوں اس غزل پر :)
 
ان کا اک داستانِ عشق کی مثل
زندگی کی کتاب میں ملنا
اک کا لفظ اصافی لگ رہا ہے، "عشق کی مثل" روانی کو متاثر کر رہا ہے۔ کوشش کر کے بدل ہی دیں، جیسے
قصہِ عشق کی طرح ان کا
زندگی کی کتاب میں ملنا


"تاب بے تاب دل میں کم تو نہیں"
مجھے اچھا لگا تھا :-(
بدلنے کی کوشش کرتا ہوں۔
اچھا تو ہے، لیکن اچھا لگ نہیں رہا :sneaky: اہلِ علم شاید اسے عیب تنافر کہتے ہیں۔ (کسی لفظ کا آغاز ایسے حرف سے ہونا جس حرف پر گزشتہ لفظ کا اتختتام ہوا ہو)


دراصل یہ آپ بیتی لکھنے کی کوشش کی ہے اور محبوب کو "ان" کے صیغے سے مخاطب کیا ہے تمام اشعار میں،اس شعر میں کمی رہ گئی تھی تو وہ دور کرنے کی کوشش کی۔

استادِ محترم محمد وارث نے بہت خوب انداز میں وضاحت فرمادی ہے۔ غزل مسلسل ہو تو بھی ہر شعر انفرادی طور پر مکمل ہونا چاہیئے۔ یہ بات ذہن میں رکھتے ہوئے ایک بار پھر اپنی تخلیق پر غور کریں، انشاءاللہ اچھے نتائج سامنے آئیں گے۔
 
آخری تدوین:

عاطف ملک

محفلین
ترامیم و اصلاح کے بعد:

درد کا دل کے باب میں ملنا
پیاس جیسے سراب میں ملنا

ان کا الفت کی داستاں بن کے
زندگی کی کتاب میں ملنا

ہو کے حاوی مرے خیالوں پر
مجھ سے ہر رات خواب میں ملنا

دل کا سینے سے کوچ کر جانا
اور ان کے جناب میں ملنا

ان کی ضو چاند میں نظر آنا
ان کی خوشبو گلاب میں ملنا

التجا میری ان کی چوکھٹ پر
"کس لیے یوں نقاب میں ملنا؟

چشم و دل ہیں فراشِ راہ ترے
چھوڑ دے اب حجاب میں ملنا"

آرزومندِ دید کو پیہم
"لن ترانی" جواب میں ملنا

نارِ فرقت میں دل سلگ اٹھنا
چشمِ گریاں کا آب میں ملنا

چاہ کر بھی نہ موت پا سکنا
زندگانی عذاب میں ملنا

جان کی بازی ہار کر میرا
اہلِ دل کی کتاب میں ملنا

عشق کو ڈھونگ جاننے والو!
ہم سے یومِ حساب میں ملنا
استادِ محترم محمد وارث
محترم بھائیامجد علی راجا
جنابکاشف اسرار احمد
اور تمام محفلین کی خدمت میں پیش ہے۔
 
بہت خوب عاطف بھیا، ماشاءاللہ بہت عمدہ غزل ہوگئی۔ بہت ساری داد قبول فرمائیں۔

جان کی بازی ہار کر میرا
بازی کی "ی" وزن سے گر رہی ہے۔
جاں کی بازی بھی ہار کر میرا
یا کچھ اور ہو سکے تو بہتر ہوگا۔
 

امان زرگر

محفلین
عاطف بھائی بہت عمدہ، شاعری سے تو آپ اردو کے طالب علم لگتے ہیں حالانکہ میڈیکل کا سٹڈی میڈیم بھی اردو نہ ہو شاید
 
آخری تدوین:
Top